Express News:
2025-09-17@21:44:18 GMT

شنگھائی تعاون تنظیم اور بھارت کا منفی کردار

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے اپنے سیاسی، معاشی، دفاعی اور تجارتی مقاصد کو فروغ دیے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مربوط و مستحکم کرنے کے لیے مختلف اتحاد بنا رکھے ہیں جن میں جی سیون، جی ٹوئنٹی، کواڈ، نیٹو اور ایس سی او شامل ہیں۔

اپنے ملکوں کی معیشت و اقتصادی استحکام کو ترقی دینے، فوجی تعاون کو بڑھانے اور علاقائی تعاون کے فروغ اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اور ضروری اقدامات کے حوالے سے اتحادی ممالک ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر اپنے اتحاد کو مزید فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کو اپنا مطمع نظر سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے مضبوط اور طاقتور اتحاد نیٹو ممالک کا ہے۔

نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد درحقیقت یورپ میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ نیٹو کا سب سے طاقتور ملک امریکا ہے جس نے اس اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا جب کہ دیگر ممالک میں برطانیہ، بیلجیم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے اور پرتگال بھی نیٹو کے بانی اراکین میں شامل ہیں۔

اس وقت نیٹو کے کل رکن ممالک کی تعداد 31 ہے۔ یہ اتحاد تمام رکن ممالک کی اجتماعی سیکیورٹی کا ذمے دار ہے۔ اگر نیٹو کے کسی بھی رکن ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہو تو اتحاد پر لازم ہے کہ وہ اس کے دفاع کے لیے اجتماعی طور پر اقدامات اٹھائے۔

نیٹو کے بنیادی چارٹر کے آرٹیکل پانچ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکا میں ان میں سے کسی ایک ملک پر یا ایک سے زیادہ کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو اسے سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے تو ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر یا تمام فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے تسلیم شدہ آرٹیکل 51 کی طرف سے خود کے دفاع کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔

امریکا نے 9/11 کے سانحے کے بعد نیٹو چارٹر کی اس کلاز کا فائدہ اٹھانے والے اپنے اتحادی ممالک کی مدد سے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کی تھی لیکن گوریلا جنگ ماہر افغانوں نے امریکا جیسی سپرپاور اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو طویل جنگ کے بعد پسپائی پر مجبور کر دیا تھا اور امریکا کو عالمی رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین روس جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ چوں کہ یوکرین نیٹو کا اتحادی ملک ہے لہٰذا ٹرمپ نے اپنے اتحادی کو جنگ سے بچانے کے لیے روسی صدر پیوٹن سے تین گھنٹے طویل ملاقات بھی کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ روس امریکا جنگ تاحال جاری ہے۔

عالمی مبصرین و تجزیہ نگار پیوٹن ٹرمپ ملاقات کو ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ نے پاک بھارت حالیہ جنگ اور ایران اسرائیل جنگ بند کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا جس کا وہ بجا طور پر کریڈٹ لیتے ہیں بالخصوص پاک بھارت جنگ رکوانے کا وہ متعدد بار ذکر کر چکے ہیں لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاک بھارت جنگ رکوانے میں صدر ٹرمپ کے اہم رول کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکا بھارت میں قربتیں ختم اور فاصلے طویل ہونے لگے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے بھارت پر تجارتی دباؤ بڑھاتے ہوئے 50 فی صد ٹیرف عائد کر دیا ہے جس سے سرد مہری میں مزید اضافہ ہوا نتیجتاً ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں ہونے والے کواڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کا فیصلہ منسوخ کر دیا جو بھارت کے لیے یقینا بڑا معاشی جھٹکا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مجوزہ دورہ بھارت کی منسوخی کی خبروں سے نئی دہلی میں مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے ہیں۔

نریندر مودی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین گئے ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی چینی شہر تیانجن میں موجود ہیں۔ پاک بھارت حالیہ جنگ کے محض 113 دنوں بعد پاک بھارت وزرائے اعظم ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان کسی باضابطہ ملاقات اور باہمی تنازعات جن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے پر بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں رکھی گئی تھی چین اور روس اس تنظیم کے بانی اراکین ہیں۔ بعدازاں تنظیم میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، ایران اور انڈیا بھی شامل ہو گئے۔

یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فی صد حصے کا ایک اہم فورم ہے جسے نیٹو اتحاد کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ رکن ممالک اپنے باہمی تنازعات اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں گے۔

اس ضمن میں پاکستان نے ہمیشہ آگے بڑھ کر بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن بھارت کے منفی کردار اور جارحانہ عزائم کے باعث شنگھائی تعاون تنظیم اپنے اصل مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ رکن ممالک کو بھارت پر یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تنظیم کے چارٹر کی پاس داری کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شنگھائی تعاون تنظیم پاک بھارت رکن ممالک تنظیم کے نیٹو کے

پڑھیں:

ٹرمپ مودی بھائی بھائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • فلسطینی عوام کے لیے تعاون، صحت کے شعبے میں معاہدہ طے
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • اسرائیلی خاتون وزیر گھپلے کی زد میں، منشیات کا لیب برآمد
  • چینی حکام ، سرمایہکاروں سے ملاقاتیں ، مسائل تعاون کے جزبے سے بے حل کیے جائیں گے : صدر 
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  •  شہری اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں گے  تو شہر صاف رہے گا‘ا ایم ڈی سالڈ ویسٹ
  • عرب اسلامی اجلاس: مسلم ممالک نے قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی اقدامات کیلئے تعاون کی یقین دہانی کرادی
  • دوحہ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی ملاقات