Express News:
2025-11-03@06:10:07 GMT

شنگھائی تعاون تنظیم اور بھارت کا منفی کردار

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے اپنے سیاسی، معاشی، دفاعی اور تجارتی مقاصد کو فروغ دیے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مربوط و مستحکم کرنے کے لیے مختلف اتحاد بنا رکھے ہیں جن میں جی سیون، جی ٹوئنٹی، کواڈ، نیٹو اور ایس سی او شامل ہیں۔

اپنے ملکوں کی معیشت و اقتصادی استحکام کو ترقی دینے، فوجی تعاون کو بڑھانے اور علاقائی تعاون کے فروغ اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اور ضروری اقدامات کے حوالے سے اتحادی ممالک ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر اپنے اتحاد کو مزید فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کو اپنا مطمع نظر سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے مضبوط اور طاقتور اتحاد نیٹو ممالک کا ہے۔

نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد درحقیقت یورپ میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ نیٹو کا سب سے طاقتور ملک امریکا ہے جس نے اس اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا جب کہ دیگر ممالک میں برطانیہ، بیلجیم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے اور پرتگال بھی نیٹو کے بانی اراکین میں شامل ہیں۔

اس وقت نیٹو کے کل رکن ممالک کی تعداد 31 ہے۔ یہ اتحاد تمام رکن ممالک کی اجتماعی سیکیورٹی کا ذمے دار ہے۔ اگر نیٹو کے کسی بھی رکن ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہو تو اتحاد پر لازم ہے کہ وہ اس کے دفاع کے لیے اجتماعی طور پر اقدامات اٹھائے۔

نیٹو کے بنیادی چارٹر کے آرٹیکل پانچ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکا میں ان میں سے کسی ایک ملک پر یا ایک سے زیادہ کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو اسے سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے تو ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر یا تمام فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے تسلیم شدہ آرٹیکل 51 کی طرف سے خود کے دفاع کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔

امریکا نے 9/11 کے سانحے کے بعد نیٹو چارٹر کی اس کلاز کا فائدہ اٹھانے والے اپنے اتحادی ممالک کی مدد سے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کی تھی لیکن گوریلا جنگ ماہر افغانوں نے امریکا جیسی سپرپاور اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو طویل جنگ کے بعد پسپائی پر مجبور کر دیا تھا اور امریکا کو عالمی رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین روس جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ چوں کہ یوکرین نیٹو کا اتحادی ملک ہے لہٰذا ٹرمپ نے اپنے اتحادی کو جنگ سے بچانے کے لیے روسی صدر پیوٹن سے تین گھنٹے طویل ملاقات بھی کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ روس امریکا جنگ تاحال جاری ہے۔

عالمی مبصرین و تجزیہ نگار پیوٹن ٹرمپ ملاقات کو ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ نے پاک بھارت حالیہ جنگ اور ایران اسرائیل جنگ بند کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا جس کا وہ بجا طور پر کریڈٹ لیتے ہیں بالخصوص پاک بھارت جنگ رکوانے کا وہ متعدد بار ذکر کر چکے ہیں لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاک بھارت جنگ رکوانے میں صدر ٹرمپ کے اہم رول کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکا بھارت میں قربتیں ختم اور فاصلے طویل ہونے لگے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے بھارت پر تجارتی دباؤ بڑھاتے ہوئے 50 فی صد ٹیرف عائد کر دیا ہے جس سے سرد مہری میں مزید اضافہ ہوا نتیجتاً ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں ہونے والے کواڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کا فیصلہ منسوخ کر دیا جو بھارت کے لیے یقینا بڑا معاشی جھٹکا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مجوزہ دورہ بھارت کی منسوخی کی خبروں سے نئی دہلی میں مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے ہیں۔

نریندر مودی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین گئے ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی چینی شہر تیانجن میں موجود ہیں۔ پاک بھارت حالیہ جنگ کے محض 113 دنوں بعد پاک بھارت وزرائے اعظم ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان کسی باضابطہ ملاقات اور باہمی تنازعات جن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے پر بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں رکھی گئی تھی چین اور روس اس تنظیم کے بانی اراکین ہیں۔ بعدازاں تنظیم میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، ایران اور انڈیا بھی شامل ہو گئے۔

یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فی صد حصے کا ایک اہم فورم ہے جسے نیٹو اتحاد کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ رکن ممالک اپنے باہمی تنازعات اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں گے۔

اس ضمن میں پاکستان نے ہمیشہ آگے بڑھ کر بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن بھارت کے منفی کردار اور جارحانہ عزائم کے باعث شنگھائی تعاون تنظیم اپنے اصل مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ رکن ممالک کو بھارت پر یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تنظیم کے چارٹر کی پاس داری کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شنگھائی تعاون تنظیم پاک بھارت رکن ممالک تنظیم کے نیٹو کے

پڑھیں:

امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان

کوالالمپور +اسلام آباد(آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) امریکہ کے وزیرِ جنگ پیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ امریکہ او ر بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی تعاون کے فریم ورک پر دستخط کئے گئے ہیں۔  ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ  گزشتہ روز کوالالمپور اپنی ملاقات کے بارے میں آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی شراکت میں پیشرفت ہے جو کہ علاقائی سلامتی اور روک تھام کا سنگ بنیاد ہے۔  دونوں ممالک تعاون، معلومات کی شیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں شراکت کو بڑھائیں گے۔ ہمارے دفاعی تعلقات کبھی اس سے زیادہ مضبوط نہیں رہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے مطابق انڈیا امریکی فوجی سامان خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس معاملے پر بات چیت متوقع ہے۔ امریکہ نے چین کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا سختی سے دفاع کرے گا اور ہند بحر الکاہل میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھے گا۔ یہ معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کیلئے سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی سمت میں اہم قدم ہے جو مستقبل میں زیادہ گہرے اور موثر دفاعی تعلقات کی راہ ہموار کرے گا۔ جبکہ انھوں نے متنازعہ جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان کے ارد گرد چینی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔دریں اثنا پاکستان نے  کہا ہے کہ امریکہ بھارت دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا  بھارتی مشقوں پر مسلح افواج کی نظر ہے۔ کسی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیں گے۔ تباہ شدہ طیاروں کی تعداد بھارت سے پوچھی جائے۔ حقیقتاً بھارت کیلئے شاید بہت تلخ ہو امریکہ بھارت معاہدے کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی خوشی اور ناراضی کی پروا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط
  • ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا خصوصی انٹرویو
  • بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو لیکر اسلامی تعاون تنظیم کے ریمارکس کو مسترد کر دیا
  • امریکی سینیٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مختلف ممالک پر عائد ٹیرف کو مسترد کردیا
  • امریکی سینیٹ نے مختلف ممالک پر لگایا گیا ٹرمپ ٹیرف مسترد کردیا