چین کی ایکسپورٹ ریبیٹ میں کمی سے پاکستان میں سولر پینل کی قیمتوں میں 10 فیصدتک اضافہ متوقع
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
چین کی جانب سے سولر پینلز پر دی جانے والی اگزامپشن (ایکسپورٹ ریبیٹ) کو مکمل ختم کرنے کا امکان ہے، جس سے پاکستان میں سولر پینلز کی درآمدی لاگت میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
دیوان انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر، فاض دیوان نے بتایا کہ موجودہ وقت میں یہ ریبیٹ 9 فیصد سے کم ہو کر صفر فیصد تک آ سکتا ہے—ممکنہ طور پر یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہوگا۔ اگر یہ حقیقت بن جاتا ہے، تو پاکستان میں سولر پینل کی قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد تک اضافہ متوقع ہے ،مثال کے طور پر ایک 585 واٹ سولر پینل کی موجودہ قیمت 17,500 سے 19,100 روپے کے درمیان ہے۔ ریبیٹ ختم ہونے کی صورت میں اس کی قیمت میں 9 فیصد اضافہ متوقع ہے
درآمدات میں مشکلات اور مارکیٹ کی صورتحال
وفاقی شہروں میں حالیہ سیلابی صورتحال نے پہلے ہی سولر پینلز کی فروخت کو متاثر کیا ہے، جس سے درآمد کنندگان کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ تقریباً ہر ماہ 2,500 کنٹینرز درآمد کیے جاتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کی لاگت 1 کروڑ روپے ہے
ڈر ہے کہ اگر کنسائنمنٹس کسٹمز پر رہ جائیں، تو اضافی چارجز بھی عائد ہو سکتے ہیں، جس کے سبب کاروباری افراد اسٹاک کو نقصاناً فروخت کر رہے ہیں
انوریکس کے سی ای او، محمد زاکر علی نے کہا کہ اگر ریبیٹ ختم ہو گیا تو سولر پینلز کے 16 پینلز پر مشتمل سیٹ کی قیمت پاکستان میں تقریباً 9 فیصد بڑھ جائے گی
مارکیٹ کا تناظر: طلب میں کمی، رسد میں اضافہ
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین آفاق علی خان بتاتے ہیں کہ مارکیٹ شدید کساد بازاری کا شکار ہے، جہاں طلب میں کمی اور رسد میں اضافہ ہوا ہے جو قیمتوں پر دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔
زرعی علاقوں میں لوگوں کی خریداری کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے، جس کے باعث وہ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ شہری مارکٹ میں جگہ محدود ہونے کے باوجود، دیہی مارکیٹس میں فی الحال کافی صلاحیت باقی ہے
پاکستان نے 2024 میں 17 گیگاواٹ سولر پینلز درآمد کیے اور 2025 کے پہلے ششماہی میں اسی رفتار کے تسلسل میں 12 گیگاواٹ درآمد ہو چکے ہیں
ابتدائی طور پر اپریل تک مارکیٹ میں بہتری دیکھی گئی، لیکن اس کے بعد حالیہ صورتحال نے منفی اثر چھوڑا ہے۔ ذیلی طور پر، جی ایس ٹی کا نفاذ بھی مارکیٹ میں ایک بڑی وجہ رہی ہے
آفاق علی خان نے امید ظاہر کی کہ مارکیٹ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں بحالی کی جانب بڑھے گی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان میں سولر پینلز
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔