سیلابی آفت۔۔۔۔ایک نادر موقع
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
خیبر پختون خواہ میں سیلابی آفت ابھی جاری تھی کہ شدید بارشوں اور ہندوستان سے آنے والے پانی کے منہ زور ریلوں نے پنجاب میں تباہی پھیلانی شروع کر دی۔یہ بلا شبہ ایک بڑی آفت ہے لیکن اس کا سارا ملبہ قدرت یا ہندوستانی آبی جاحیت پر ڈالنا قرینِ انصاف نہیں ہو گا۔خیبر پختون خواہ میں شدید بارشوں کو ٹمبر مافیا اور پتھر مافیا نے آفت کا روپ دھارنے میں بہت مدد کی۔
ڈی فارس ٹیشن سے پہاڑ ننگے ہوئے تو پتھر مافیا نے پہاڑ کاٹ کر تباہی مچا دی، یوں سارا قدرتی ایکو سسٹم تباہ وبرباد ہوا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ عمل ایکو سسٹم کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے لیکن ہم اس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔
نقصان پہنچانے والا یہ مافیا اتنا طاقتور ہے،ان کی سیاسی اور معاشی پہنچ اتنی دور تک ہے کہ ملک کے نظام کو چلانے والی بیوروکریسی ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔پنجاب چونکہ زیادہ تر میدانی علاقوں پر مشتمل ہے اس لیے پنجاب میں لینڈ مافیا چھایا ہوا ہے۔ہر دریا ،ہر ندی نالے میں پانی کی گزرگاہ پر قبضہ کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دی گئی ہیں۔
پنجاب میں خطہء پوٹھوہار،دھن،سون سکیسر اور تلہ گنگ سے میانوالی کے قریب نمل یونیورسٹی تک کے درمیانی پہاڑی علاقے کو چھوڑ کر باقی سارا پنجاب پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ابھی بارشیں جاری ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اب تک 28لاکھ سے اوپر پنجاب کی آبادی سیلابوں سے بے گھر ہو چکی ہے۔
لاہور سے شروع کر کے جنوبی پنجاب تک کا علاقہ شدید ترین سیلاب کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔وقتی طور پر پنجاب کا مرکزی شہر اور پاکستان کے دل لاہور کو بچا لیا گیا ہے لیکن اس کی مضافاتی بستیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ وہ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیاں جو دریا کے پانی کے ممکنہ بہاؤ کے اندر بنائی گئی تھیں،وہاں پانی کھڑا ہے۔ ان سوسائٹیوں کو این او سی تو جاری کر دیا گیا لیکن یہ یقینی نہیں بنایا گیا کہ ان میں پلاٹنگ سے پہلے ان کو پانی سے بچانے کے لیے حفاظتی دیوار ضرور تعمیر کروا دی جائے۔
حفاظتی دیوار کی غیر موجودگی میں پانی جب بھی اپنی گزرگاہ ری کلیم کرے گا تو نقصان ہو گا۔جب دریائے راوی میں شدید بارشوں کے بعد پانی بہت بڑھا تو اچھل کر بے کراں ہوتے ہوئے سمندر کا منظر پیش کرنے لگا۔ہماری ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑے شہروں کو سیلاب سے بچا لیا جائے۔یہ ایک ضروری اور بہت احسن قدم ہے۔اسی لیے انتہائی کو ششوں سے لاہور اور چند دوسرے شہروںکو اس تباہی سے بچا لیا گیا ہے۔اب یہ کوشش ملتان کیلیے ہو رہی ہے۔ شہروں کو بچانے کے لیے کئی جگہوں سے بند توڑ کر سیلابی پانی دیہات کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا گاؤں دیہات کے مکین انسان اور پاکستانی نہیں ہیں۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ ہر انسانی جان بہت قیمتی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا ایک بڑے وفد کے ساتھ جاپان کا دورہ عین اس وقت ہوا جب خیبرپختون خواہ میں بارشوں سے بہت نقصان ہو رہا تھا اور پنجاب میں بھی مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی تھیں۔دورے کی جتنی بھی اہمیت ہو لیکن اس دورے کے لیے وقت کا چناؤ بہت بہتر نہیں تھا۔ ہماری بیوروکریسی سیلف پروپلڈ Self Propeld نہیں ہے۔اسے چابی دینی پڑتی ہے۔
1973 میں بھی بہت بڑے پیمانے پر خوفناک سیلاب آئے تھے۔ اس وقت وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد لاہور سے قوم سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بیوروکریسی مشکل وقت میں عوام کو ریلیف مدینے کی اہلیت نہیں رکھتی۔بھٹو صاحب نے اس موقع پر ایڈمنسٹریٹو اصلاحات کر ڈالیں،لیکن ان پر صحیح عملدر آمد نہ ہونے سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔یہ بات ماننی پڑے گی کہ موجودہ شدید سیلابوں میں وزیرِ اعلیٰ اور پنجاب انتظامیہ پہلے کی نسبت بہت بہتر کام کر رہی ہے لیکن سیلاب کا کینوس اتنا بڑا ہے کہ ہر ایک تک پہنچنا شاید بہت مشکل ہے۔
چالیس کے قریب افراد سیلاب سے ہلاک ہو گئے ہیں۔فصلوں کی تباہی کا صحیح اندازہ لگانا فی الحال ممکن نہیں۔یار لوگ پاک فوج پر بہت تنقید کرتے ہیں اور سیاست میں دخل اندازی کی حد تک یہ تنقید بنتی بھی ہے لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ پاک فوج ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے عوام کی مدد کوپہنچتی ہے۔پاک فوج کے جوان پانی میں گھرے لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ جن لوگوں کو ریسکیو کرنے کی ضرورت ہے انھیں ریسکیو کر رہی ہے۔جہاں خوراک و دیگر اشیاء پہنچانے کی ضرورت ہے وہاں خورا ک و ضروریات پہنچا رہی ہے۔پاک فوج کے جوان ہمہ وقت مستعد ہیں۔یہ اپنی جانوں پر کھیل کر اور بے رحم موجوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غریب اور بے سہارا پاکستانیوں کی مدد کو پہنچ رہے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن اور دوسرے کئی رفاعی ادارے بھی سرگرم ہیںچونکہ قدرتی آفات آتی رہتی ہیں اسلیے ہماری قوم مشکلات جھیلنا بھی جانتی ہے۔پنجاب ابھی تک شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے۔پہلے ہی سارے دریا، ندی نالے اپنی پوری صلاحیت سے بہہ رہے ہیں۔اوپر سے بارشیں بھی ہو رہی ہیں اور ہندوستان پیشگی اطلاع دئے بغیر زائد پانی بھی چھوڑ ریا ہے۔ ایسے میں ریلیف کا کام آسان نہیں۔یہ سارا پانی سندھ کی جانب رواں دواں ہے۔ اتنے زیادہ پانی کو دیکھتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے۔ شاید سندھ میں ممکنہ تباہی کا تصور ابھی محال ہے۔سندھ حکومت اور انتظامیہ کو تباہی سے بچاؤ کے لیے بہت وقت ملا ہے۔شاید اس مرتبہ کچھ بہتر اقدامات اٹھائے جائیں لیکن گذشتہ سالوں کے تجربے کو دیکھتے ہوئے مایوسی گھیر لیتی ہے۔
اب اگلے چند دنوں میں یہ سارا پانی پنجند پہنچے گا جہاں سے آگے سندھ میں داخل ہو جائے گا۔ایک اندازے کے مطابق سب دریاؤں کا پانی مل کر 18لاکھ کیوسک کے آس پاس ہو گا۔گدو بیراج کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 12لاکھ کیوسک ہے۔سکھر اور کوٹری بیراج9لاکھ کیوسک سے کم گنجائش کے بیراج ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ سندھ پہنچ کر اٹھارہ لاکھ کیوسک پانی کا بڑا ریلا کیا آفت ڈھاتا ہے۔الامان و الحفیظ۔سیلاب زلزلے اور دوسری قدرتی آفات جب آتی ہیں تو ہم ری ایکٹ کرتے ہیں۔ہم پرو ایکٹو کام نہیں کرتے۔مشکل وقت گزرتے ہی غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ہمیں اپنا چلن بدلنا ہو گا اور سیلابوں سے بچنے کیلیے کل وقتی کام کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے جتنے چھوٹے ڈیمز بن سکتے ہیں ان پر تیزی سے کام شروع کر کے انھیں ایک دو سال میں مکمل کرنا ہوگا۔موجودہ سیلاب کے ڈیٹا کو استعمال کر کے سیلابی نہریں نکالنی ہوں گی۔ جنگلات کی غیر ضروری کٹائی روکنا ہوگی۔
وہ تمام آبادیاں جو پانی کی گزرگاہوں کے اندر تعمیر ہوئی ہیں، ان سے جان چھڑانی ہو گی۔ یہ موقع ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر کام کرتے ہوئے Priorities کا تعین کریں اور کام میں جت جائیں۔آئے روز کی آفات سے ملکِ پاکستان پیچھے چلا جا رہا ہے۔ جناب علی امین گنڈا پور نے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے اور ملکی مفاد میں کالا باغ ڈیم بنانے کی بات کی ہے۔امید ہے کہ پیپلزپارٹی بھی آگے بڑھے گی اور قومی مفادکے لیے وہ صوبوں کے درمیان ڈائیلاگ کو جنم دی سکتی ہے۔ کلائیمیٹ چینج ایک حقیقت ہے جس کے لیے ہم تیار نہیں۔ خدا کرے کہ یہ سیلاب ہمیں علاقائیت و صوبائیت سے اوپر اُٹھ کر پاکستان کا خیال کرنے کا نادر موقع مہیا کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے لیکن پاک فوج رہی ہے
پڑھیں:
گھوٹکی؛ سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کے متعدد کنویں متاثر، گیس کی سپلائی بند
ویب ڈیسک : گھوٹکی میں آنے والے سیلابی ریلے کے باعث قادرپورگیس فیلڈ کے 10کنویں متاثر ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے وہاں گیس کی سپلائی بند ہوگئی۔
لاڑکانہ میں زمینداری بند میں 100 فٹ چوڑا شگاف پڑنے کے بعد پانی کا ریلا درگاہ ملوک شاہ بخاری میں داخل ہوگیا جو اب زرعی علاقوں اور آبادی کی جانب بڑھنے لگاہے۔ اس کے علاوہ گھوٹکی میں سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کےکنویں بھی متاثر ہوئے، جس کی وجہ سے 10 کنوؤں سے گیس کی سپلائی بند ہوگئی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نےڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو معطل کر دیا
حکام کے مطابق کشمور میں دریائے سندھ میں گڈو بیراج کےمقام پر بھی پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا ہے جس سے اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے جب کہ پانی 48 گھنٹے میں سکھر بیراج پر پہنچنے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ کا کہنا ہےکہ گڈو بیراج پر کوئی خطرہ نہیں تاہم کچے کے علاقوں پر پانی کی سطح میں بھی اضافہ کے بعد علاقے سے نقل مکانی جاری ہے اور کچے سے 30 ہزار لوگوں کو محفو ظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ