امریکی عدالت میں ہم جنس پرستوں کی بڑی فتح؛ ٹرمپ کی ٹرانس جینڈر پالیسی منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
امریکا کی وفاقی اپیل کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صرف مرد اور عورت کو حیاتیاتی جنس کے طور پر تسلیم کرنے کی پالیسی کے خلاف ٹرانس جینڈر کے حق میں فیصلہ دیدیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدر بننے کے بعد 20 جنوری کو دوبارہ ٹرانس جینڈر پالیسی کو نافذ کیا تھا۔
جس کے تحت امریکی پاسپورٹ پر جنس کے خانے میں صرف "M" (مرد) یا "F" (عورت) لکھوانے کی اجازت تھی۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اپیل کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ قانون ٹرانس جینڈر، نان بائنری اور انٹرسیکس افراد کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جس پر ڈسٹرکٹ جج جولیا کوبک نے پہلے چھ متاثرہ افراد کو ریلیف دیا اور بعد ازاں کیس کو کلاس ایکشن قرار دیتے ہوئے تمام متاثرین کے لیے پالیسی پر عملدرآمد روک دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی تاہم بوسٹن میں فرسٹ سرکٹ کورٹ آف اپیلز کی تین رکنی بنچ نے قرار دیا کہ حکومت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ یہ پالیسی آئینی اور جواز رکھتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس ہدایت میں ٹرانس جینڈر امریکیوں کے خلاف امتیازی رویہ جھلکتا ہے اور اس پر عملدرآمد سے متاثرہ افراد کو فوری اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فی الحال وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ نے عدالتی فیصلے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
یاد رہے کہ قبل ازیں سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں شہریوں کو مرد یا عورت کے علاوہ "X" بطور نیوٹرل جنس منتخب کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔