’گوگل اے آئی خلاصہ گلے پڑگیا‘، آن لائن ٹریفک متاثر ہونے پر ببلشرز کا احجتاج
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
ہم جب بھی گوگل پر کچھ سرچ کرتے ہین تو ٹاپ پر ہمیں اس سوال یا خبر کے حوالے سے ایک خلاصہ مل جاتا ہے اور بسا اوقات ہم اسی کو دیکھ کر وہاں سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ گوگل کی یہ نئی سہولت پبلشرز میں تشویش پیدا کر رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے آن لائن ٹریفک متاثر ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق معروف اداکارہ سورچا کَیوسک کے بی بی سی ڈرامہ فادر براؤن چھوڑنے کی خبر رواں سال جنوری میں کئی اخبارات میں شائع ہوئی جن میں دی مرر اور ڈیلی ایکسپریس جیسے ادارے شامل تھے جو’ ریچ گروپ‘ کے تحت آتے ہیں۔ تاہم اس خبر کو وہ توجہ اور آن لائن ٹریفک حاصل نہیں ہوئی جس کی امید ایک سال قبل کی جا سکتی تھی۔
’ریچ گروپ‘ کے مطابق اس غیر متوقع کمی کی بڑی وجہ گوگل کا نیا فیچر ’ آرٹیفیشل انٹیلیجینس اوور ویوو‘ (اے آئی او) ہے جو سرچ رزلٹس کے اوپر صارفین کو کسی موضوع کا خلاصہ فراہم کرتا ہے۔ اب صارفین اکثر مکمل خبر پر کلک کیے بغیر وہیں سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔
پبلشرز کا ریونیو خطرے میںپہلے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے اشتہاراتی آمدنی میں کمی کا سامنا کرنے والے نیوز پبلشرز کے لیے گوگل سرچ سے آنے والا ٹریفک ایک قیمتی وسیلہ ہے۔
تاہم اب اے آئی اوورویوز کی وجہ سے صارفین کی جانب سے اصل خبروں پر کلک کرنے کا رجحان مزید کم ہو رہا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے رائٹرز انسٹیٹیوٹ میں اے آئی اور نیوز کے محقق ڈاکٹر فیلکس سائمن کا کہنا ہے کہ اے آئی او سے متعلق سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ لوگ مکمل خبر پر کلک نہیں کررہے جس کا براہ راست نقصان پبلشرز کو ہے۔
مزید پڑھیے: مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین
میل آن لائن، میٹرو اور دیگر اداروں کے مالک ادارہ ڈی ایم جی میڈیا نے برطانیہ کی مسابقتی مارکیٹ اتھارٹی کو بتایا کہ اے آئی او کی وجہ سے کلک تھرو ریٹ میں 89 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔
’ہم مواد تیار کرتے ہیں، لیکن فائدہ دوسروں کو پہنچتا ہے‘ریچ کے چیف ڈیجیٹل پبلشر ڈیوڈ ہیگرسن کا کہنا ہے کہ پبلشرز وہ درست، بروقت اور قابل اعتماد مواد فراہم کرتے ہیں جس پر گوگل چلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہمیں ایک کلک ملتا تھا جس سے ہم سبسکرپشن یا اشتہارات کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے تھے لیکن اب گوگل اوور ویووز کی وجہ سے صارف کو ہماری ویب سائٹ پر آنے کی ضرورت ہی نہیں رہی اور اس سب کا کوئی مالی فائدہ ہمیں نہیں ملتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ معلومات کو تقسیم کرنے والا ادارہ اصل مواد تخلیق کرنے والا نہیں ہوتا لیکن تمام مالی فائدہ وہی سمیٹ لیتا ہے۔
AI Mode (اے آئی موڈ) مستقبل کا ایک بڑا خطرہ؟گوگل کی جانب سے متعارف کرایا گیا ایک اور فیچراے آئی موڈ بھی زیر بحث ہے جو سرچ رزلٹس کو مکالماتی انداز میں پیش کرتا ہے لیکن اس میں روایتی نتائج کے مقابلے میں کہیں کم لنکس دکھائے جاتے ہیں۔
ہیگرسن کہتے ہیں کہ اگر گوگل مکمل طور پر اے آئی پر چلا گیا اور صارفین نے اس کو اپنا لیا تو یہ پبلشنگ انڈسٹری کے لیے تباہ کن ہو گا۔
مزید پڑھیں: کیا مصنوعی ذہانت فلموں کی ڈبنگ آسان اور حقیقی بنا دے گی؟
باؤر میڈیا کے ایس ای او ڈائریکٹر اسٹیورٹ فاریسٹ کا کہنا ہے کہ ہم ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کم کلکس اور کم ریفرل ٹریفک ہی معمول بن جائے گا۔
اگرچہ باؤر کی ویب سائٹس جیسے گرازیا اور ایمپائر پر تاحال اے آئی او کا کوئی منفی اثر نہیں دیکھا گیا لیکن فاریسٹ کے مطابق یہ چیلنج مستقبل میں ضرور سر اٹھائے گا۔
ہم ویب پر سب سے زیادہ ٹریفک بھیجتے ہیں، گوگل کا دعویٰگوگل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کمپنی دیگر کسی بھی ادارے کے مقابلے میں ویب سائٹس کو سب سے زیادہ ٹریفک بھیجتی ہے۔
اگست میں ایک بلاگ پوسٹ میں گوگل سرچ کی سربراہ لز ریڈ نے کہا کہ گوگل سرچ سے ویب سائٹس پر جانے والی کلک کی مقدار سال بہ سال تقریباً مستحکم رہی ہے بلکہ ان کلکس کا معیار بھی بہتر ہوا ہے کیونکہ اب صارفین لنک پر کلک کے فوراً بعد واپس نہیں آتے۔
یہ بھی پڑھیے: ’اے آئی کی برکت‘، محض انٹرنیٹ ایڈریس نے کس طرح چھوٹے جزیرے کی قسمت بدلی؟
انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی او کے باعث صارفین زیادہ اور پیچیدہ سوالات کر رہے ہیں اور اب انہیں صفحات پر پہلے سے زیادہ لنکس دکھائی دے رہے ہیں جس سے ویب سائٹس کو نظر آنے اور کلک ہونے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔
قانونی چارہ جوئی کا راستہجولائی میں دی انڈیپینڈینٹ پبلشرز الائنس، فاکس گلوو اور موومنٹ فار این اوپن ویب نے برطانیہ کی کمپیٹیشن ایںڈ مارکیٹس اتھارٹی کے حضور گوگل کے خلاف شکایت درج کرائی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ گوگل کے اے آئی او بغیر اجازت پبلشرز کے مواد کو استعمال کر رہے ہیں جس سے میڈیا اداروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
درخواست گزار چاہتے ہیں کہ اتھارٹی گوگل کو عبوری اقدامات کے ذریعے روکے تاکہ پبلشرز کے مواد کو اے آئی جوابات میں غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
پبلشرز کی حکمت عملیپبلشرز اب اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اے آئی او میں کیسے نمایاں ہوں اور وہاں سے کچھ نہ کچھ ٹریفک حاصل کریں۔
مزید پڑھیے: ریستورانوں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے آرڈرز لینا اکثر مضحکہ خیز بن جاتا ہے، جانیے کیسے؟
ہیگرسن کے مطابق گوگل ہمیں کوئی گائیڈ بک نہیں دیتا بلکہ ہمیں اپنے طور پر تجربے کر کے مواد کو اس طرح بہتر بنانا ہوتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد یعنی قاری کی معلوماتی ضرورت متاثر نہ ہو۔
فاریسٹ کہتے ہیں کہ ہمیں یقینی بنانا ہے کہ حوالہ ہم سے لیا جائے ہمارے حریفوں سے نہیں اور اس کے لیے معیاری مواد کی تیاری بنیادی ہتھیار ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے پبلشرز یہ کوشش ترک کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف
ریچ جیسے ادارے اب متبادل ذرائع سے قارئین سے رابطہ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے واٹس ایپ الرٹس، نیوز لیٹرز اور مخصوص ویب تجربات۔ ہیگرسن کا کہنا ہے ہمیں اپنے قارئین وہاں تلاش کرنا ہے جہاں وہ موجود ہیں اور ان کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے کہ جب وہ دوبارہ معلومات کے لیے آئیں تو وہ کسی تیسرے ذریعے سے نہیں بلکہ سیدھا ہماری ویب سائٹ پر آئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اوور ویوو اے آئی اوور ویوو سے ویب سائٹس کو خطرہ اے آئی موڈ گوگل اے آئی اوور ویوو گوگل اے آئی موڈ ویب سائٹ ٹریفک ڈاؤن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی موڈ گوگل اے ا ئی موڈ ویب سائٹ ٹریفک ڈاؤن کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کہ اے ا ئی او اے ا ئی اوور اے ا ئی موڈ کر رہے ہیں ویب سائٹس کے مطابق ہیں کہ پر کلک کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔