اے قائد! ہم شرمندہ ہیں مگر ہارے نہیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
آج بروز 11 ستمبر ہم اُس عظیم قائد کو یاد کر رہے ہیں جسے دنیا محمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے۔ وہ مردِ آہن، جس نے غلام قوم کو خودداری کا درس دیا اور جس کی قیادت نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں اُمید کی وہ شمع روشن کی جو آج تک بجھی نہیں۔
پاکستان کا قیام نہ کسی حادثے کا نتیجہ تھا اور نہ ہی وقتی جوش کا ثمر، بلکہ یہ ایک ایسی جدوجہد کا حاصل تھا جس میں ایک انسان نے اپنی صحت، اپنی راحت اور اپنی خوشیاں قربان کر کے اپنی قوم کو آزادی بخشی۔
مگر افسوس! آج جب ہم اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟
ہرگز نہیں! یہ وہ پاکستان ہے جہاں کرپشن کو فن، اقربا پروری کو ہنر، اور جھوٹ کو سیاست کی بنیادی شرط سمجھا جاتا ہے۔ وہ نوٹ جن پر بابائے قوم کی تصویر ہے، آج انہی سے رشوت کے سودے کیے جاتے ہیں۔ قائد کی تصویر تو باقی ہے، مگر اُن کا کردار ہم سے کھو چکا ہے۔
قائد چاہتے تھے کہ پاکستان عدل و انصاف کا مرکز بنے، جہاں ہر فرد کو باعزت زندگی ملے۔ لیکن ہم نے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ سیاست کو خدمت کے بجائے تجارت اور جاگیرداری میں بدل دیا گیا۔ ادارے کھوکھلے ہوگئے، عوام مایوس ہوگئے، اور حکمران اقتدار کی ہوس میں اندھے ہوگئے۔
یہ شعر آج بھی ہمارے قومی زوال کی بہترین عکاسی کرتا ہے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
یہی المیہ ہے کہ ہم قائد کو ہر سال یاد تو کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، ترانے گاتے ہیں، لیکن اُن کے اقوال اور رہنمائی پر عمل کرنے کی ہمت ہم میں پیدا نہیں ہوتی۔ اُن کے پیغام کو ہم نے صرف کتابوں اور نصاب تک محدود کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان، جسے عزت و وقار کا نشان بننا تھا، آج قرضوں، بدانتظامی اور لاقانونیت کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
تاہم مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں تباہی کے دہانے سے پلٹ آئی ہیں، بشرطیکہ انہوں نے خود احتسابی اور اصلاح کا راستہ اپنایا ہو۔ ہمیں اپنے اطراف کے ممالک کو دیکھ کر سبق لینا چاہیے۔ افغانستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کی حالیہ مثالیں ہمارے لیے غیرت دلانے کو کافی ہیں۔
آج بھی وقت ہے کہ ہم جھوٹ، کرپشن اور بدعنوانی کو دفن کریں، دیانت، محنت اور قربانی کو اپنائیں اور قائداعظم کے اصل پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ذلت سے نکال کر عزت و سربلندی کی صف میں کھڑا کرے گا۔
اے قائد! ہم شرمندہ تو ہیں لیکن ہارے نہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ تیرے خوابوں کے پاکستان کی تعمیر کریں گے۔ ایسا پاکستان جو دنیا بھر میں عدل و انصاف اور وقار کی علامت ہو، اور جو خلافتِ راشدہ کے اصولوں پر قائم ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ بن کر سامنے آئے۔ ایسا پاکستان جس کی دنیا تقلید کرے، بجائے اس کے کہ ہم مغرب کی اندھی تقلید میں اپنا وجود کھو دیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کارتک آریان نے اپنی فٹنس کا راز بتا دیا
بھارتی اداکار کارتک آریان نے اپنی فٹنس کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ گوشت کے بجائے مکمل سبزیوں پر مبنی غذا کا استعمال کرتے ہیں۔
ایک حالیہ پوڈکاسٹ گفتگو میں 34 سالہ کارتک نے اپنی صحت مند طرزِ زندگی کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔کارتک نے بتایا کہ ان کی فٹنس کا دارومدار مہنگی یا پیچیدہ ڈائیٹس پر نہیں بلکہ باقاعدگی سے سادہ خوراک کا استعمال اور روز مرہ کی زندگی میں نظم و ضبط پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی فٹنس برقرار رکھنے کے لیے قدرت سے حاصل ہونے والے غذائی اجزاء پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ’میں نے ویجیٹیرین ڈائیٹ پر باڈی بنائی ہے، پنیر کھایا، اسپراؤٹس کا استعمال کیا، پلانٹ بیسڈ پروٹین لیا اور رات کو ایک سوپ پی کر سو جاتا تھا‘۔
اداکار نے مزید انکشاف کیا کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے ہر رات ایک ہی طرح کا ٹماٹر کا سوپ پیتے آرہے ہیں جو ان کی عادت بن چکی ہے۔ ان کے بقول ’یہ ایک روبوٹک روٹین بن گیا ہے۔ چھ مہینے سے وہی ٹماٹر کا سوپ پیتا ہوں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی‘۔
کارتک آریان نے بتایا کہ ان کی متوازن اور صاف ستھری ڈائیٹ میں دالیں، ٹوفو، پنیر اور اسپراؤٹس شامل ہیں جو انہیں توانائی اور فٹنس برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔