مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں سے بھارتی برآمدی صنعت تباہی کے دہانے پر
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں اور غیر سنجیدہ اقدامات نے بھارتی معیشت کو شدید بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہٹ دھرمی اور امریکی ٹیرف کے باعث بھارت کی اہم صنعتیں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا الجزیرہ کے مطابق امریکا کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف نے بھارت کی قالین صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر بھدوہی کے قالین برآمد کنندگان کا کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے اور گزشتہ ایک ماہ میں امریکا کو کوئی بھی کارگو نہیں بھیجا گیا۔
بھارت میں قالین کے کاروبار سے وابستہ افراد بدترین حالات کی وجہ سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کئی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کے 50 سالہ کیریئر کا سب سے مشکل وقت ہے۔ ان کے مطابق اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو یہ صنعت مکمل طور پر زوال پذیر ہو جائے گی کیونکہ بھارتی قالین صنعت کا انحصار مکمل طور پر امریکا پر ہے اور گھریلو مارکیٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
صنعت کاروں نے شکایت کی کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی امید تھی لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سخت امریکی ٹیرف نے ان کے کاروبار کو تقریباً بند کر دیا ہے۔ کئی فیکٹری مالکان نے ملازمین کے کام کا دورانیہ کم کر دیا ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے فارغ کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھارتی صنعت کاروں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ترکیہ اور پاکستان کم ٹیکس کی وجہ سے امریکی منڈی میں بھارتی قالین کی جگہ لے رہے ہیں۔ اس صورتحال نے مودی حکومت کے خود انحصاری کے تمام دعوؤں کی حقیقت کھول دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی دراصل مودی سرکار کی ناکام اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
https://cdn.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صنعت کا
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔