Express News:
2025-09-17@23:42:22 GMT

پاکستانی جامعات: عالمی منظرنامے میں

اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT

کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2025–2026 میں پاکستان کی صرف دو جامعات دنیا کی پہلی 500 جامعات میں شامل ہو سکیں: قائداعظم یونیورسٹی 354ویں نمبر پر اور نسٹ (NUST) 371ویں نمبر پر، جو پاکستان میں تحقیق اور تعلیمی معیار میں پیش رفت کو ظاہر کرتا ہے۔

مجموعی طور پر 9 پاکستانی جامعات دنیا کی پہلی 1000 جامعات میں شامل ہوئیں جن میں یونیورسٹی آف دی پنجاب (542)، لمز (555)، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (654) اور کومسیٹس (664) نمایاں ہیں۔ پی آئی ای اے ایس (PIEAS) 721–730 کی رینج میں آئی، جبکہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یو ای ٹی لاہور، یونیورسٹی آف پشاور اور یونیورسٹی آف لاہور بھی فہرست میں شامل ہیں۔

یہ بڑھتی ہوئی نمائندگی پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے معیار اور عالمی شناخت میں بہتری کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے تحت 262 یونیورسٹیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں 154 سرکاری اور 108 نجی ادارے شامل ہیں۔

کیو ایس ایشیا یونیورسٹی رینکنگ 2025 میں پاکستان کی 70 یونیورسٹیاں شامل ہوئیں، جن میں نسٹ اسلام آباد 67ویں اور قائداعظم یونیورسٹی 84ویں نمبر پر رہیں، دونوں ایشیا کی پہلی 100 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ دیگر نمایاں اداروں میں لمز، کومسیٹس اور پنجاب یونیورسٹی شامل ہیں جو پہلی 150 میں موجود ہیں، جبکہ یو ای ٹی لاہور اور آغا خان یونیورسٹی سمیت دیگر کئی ادارے پہلی 800 میں آتے ہیں۔

عالمی سطح پر کیو ایس رینکنگ کی پہلی دس جامعات میں شامل ہیں: 1.

میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT)، 2. امپیریل کالج لندن، 3. یونیورسٹی آف آکسفورڈ، 4. ہارورڈ یونیورسٹی، 5. یونیورسٹی آف کیمبرج، 6. اسٹینفورڈ یونیورسٹی، 7. ای ٹی ایچ زیورخ، 8. نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور (NUS)، 9. یونیورسٹی کالج لندن (UCL)، اور 10. کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (Caltech)۔ یہ جامعات اپنی عالمی شہرت، اعلیٰ معیارِ تعلیم، تحقیق میں شاندار کارکردگی اور بین الاقوامی روابط کی وجہ سے نمایاں ہیں۔

کیو ایس رینکنگ (QS Rankings) برطانوی ادارہ ’’کواکوریلی سائمنڈز‘‘ شائع کرتا ہے، جو 1500 سے زائد جامعات کا جائزہ لیتا ہے۔ 2025 کی رینکنگ میں نو کلیدی اشاریوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جن میں تعلیمی شہرت (30%)، آجر کی شہرت (15%)، فیکلٹی و طالب علم کا تناسب (10%)، ہر فیکلٹی کے حوالہ جات (20%)، بین الاقوامی فیکلٹی کا تناسب (5%)، بین الاقوامی طلبہ کا تناسب (5%)، بین الاقوامی تحقیقی نیٹ ورک (5%)، روزگار کے مواقع (5%) اور پائیداری (5%) شامل ہیں۔

پاکستانی جامعات اپنی رینکنگ بہتر بنا سکتی ہیں اگر وہ تدریسی معیار کو بلند کریں، انڈسٹری کے ساتھ روابط کو مضبوط کریں اور تحقیق کو فروغ دیں۔

زیادہ اہل اساتذہ کی بھرتی اور کلاسز کا حجم کم کرنے سے تدریس میں بہتری آئے گی، جبکہ بین الاقوامی تعاون اور تحقیقی اشاعتوں سے عالمی شناخت بڑھے گی۔ غیر ملکی طلبہ و اساتذہ کو متوجہ کرنے کے لیے تبادلہ پروگرام اور انگریزی میں پڑھائے جانے والے کورسز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گریجویٹس کی روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے انڈسٹری سے جڑے نصاب اور کیریئر سپورٹ کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پائیداری اور ماحول دوست اقدامات اختیار کر کے نئی رینکنگ میٹرکس کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی جامعات زیادہ رینک کرتی ہیں کیونکہ ان کے پاس مالی وسائل، جدید سہولیات، عالمی معیار کی فیکلٹی اور مضبوط انڈسٹری روابط ہوتے ہیں۔ ان ممالک کے محققین کو مالی اور علمی دونوں پہلوؤں سے زیادہ سہولیات میسر ہیں، جیسے اعلیٰ تنخواہیں، تحقیقی گرانٹس، جدید لیبارٹریز، اور عالمی جرائد تک رسائی۔ انہیں تحقیقی مقالہ جات کی ادارت پر بھی مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں، جس سے ان کا علمی اثر اور نیٹ ورک مزید وسیع ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے محققین کو مالی اور علمی اعتبار سے نمایاں سہولیات حاصل ہوتی ہیں جو تحقیق، جدت اور ترقی کو فروغ دیتی ہیں۔ مالی طور پر انہیں زیادہ تنخواہیں، وافر تحقیقاتی گرانٹس، اور جدید لیبارٹریوں و آلات تک رسائی حاصل ہوتی ہے جو حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں۔

اس سے ان پر مالی دباؤ کم ہوتا ہے اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ علمی اعتبار سے انہیں فعال تحقیقی ماحول، بین الاقوامی تعاون، سینئر محققین کی رہنمائی، اعلیٰ معیار کے جرائد تک رسائی، اور منظم ڈاکٹریٹ و پوسٹ ڈاکٹریٹ پروگرامز میسر ہوتے ہیں۔

یہ سہولیات ان کی تحقیقی پیداوار، عالمی سطح پر شناخت، پیٹنٹس کے حصول اور پیشہ ورانہ استحکام کو بڑھاتی ہیں۔ مزید یہ کہ محققین بین الاقوامی جرائد، علمی کتب اور گرانٹس کی تدوین میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دیتے ہیں، جن سے انہیں مالی فوائد کے ساتھ ساتھ علمی وقار، نیٹ ورکنگ کے مواقع اور اعتماد میں اضافہ حاصل ہوتا ہے۔ وسائل اور شناخت کا یہ امتزاج انہیں اپنے شعبے میں مضبوط پروفائل بنانے اور اثر و رسوخ قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں تحقیقی مضامین کے مصنفین اور مدیران کو گرانٹس، بونس، پیشہ ورانہ ترقی اور علمی شناخت جیسی مراعات دی جاتی ہیں جو اعلیٰ معیار کی تحقیق اور اشاعت کی ترغیب دیتی ہیں۔ جامعات اپنے فیکلٹی اراکین کو اعلیٰ جرائد میں شائع ہونے پر مالی انعامات دیتی ہیں جس سے تحقیقی پیداوار اور ادارے کی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ مدیران کو اعزازیہ، فیس میں رعایت یا تنخواہیں دی جاتی ہیں تاکہ جرائد کے معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔ یہ مراعات تحقیقی پیداوار، حوالہ جات اور علمی وقار میں اضافہ کرتی ہیں جو براہِ راست یونیورسٹی کی ساکھ اور عالمی روابط کو بہتر بناتی ہیں، اور بالخصوص QS جیسے رینکنگ سسٹمز میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

پاکستانی جامعات عالمی رینکنگ میں کئی وجوہات کی بنا پر پیچھے رہتی ہیں، جن میں فنڈنگ کی کمی، پرانا اور غیر متعلقہ نصاب، کمزور بین الاقوامی تعاون، غیر ملکی طلبہ اور اساتذہ کی کم تعداد، اور ناقص انتظامی ڈھانچے شامل ہیں۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے پاکستانی ادارے عالمی معیار کی شرائط پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ 2023 میں یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی، جو معاشی دباؤ، مہنگائی، اور نصاب کی عدم مطابقت کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس، ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان اور امریکہ میں داخلوں میں کمی بنیادی طور پر کم شرح پیدائش اور تعلیم کے بلند اخراجات کی وجہ سے ہے، جہاں طلبہ زیادہ تر ووکیشنل ٹریننگ اور آن لائن کورسز کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستانی جامعات کو ایک اور بڑا چیلنج اس وقت درپیش ہوا جب 2023 کے مالی سال میں یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ داخلوں کی تعداد 2.24 ملین سے کم ہو کر 1.94 ملین طلبہ تک پہنچ گئی، جیسا کہ اقتصادی سروے آف پاکستان 2024–25 میں رپورٹ کیا گیا۔

یہ کمی اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں بڑھتی ہوئی مشکلات کو ظاہر کرتی ہے جو معاشی دباؤ اور پالیسی کی کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جمود کا شکار آمدنی نے تعلیم کو خاص طور پر دیہی علاقوں کے طلبہ کے لیے ناقابل برداشت بنا دیا ہے جہاں مالی امداد بھی محدود ہے۔ پرانے نصاب اور نوکریوں کے ساتھ کمزور ربط نے ڈگریوں کی قدر کو گھٹا دیا ہے، جبکہ صنعتوں کے ساتھ کمزور تعلقات، انٹرن شپ کے مواقع کی کمی، اور کیریئر رہنمائی کے فقدان نے طلبہ کو مزید مایوس کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انتظامی بدعنوانی، سیاسی مداخلت اور ناقص بنیادی ڈھانچے نے تعلیمی معیار کو نقصان پہنچایا ہے۔ سماجی رکاوٹیں، خصوصاً خواتین اور دیہی طلبہ کے لیے، اور آن لائن کورسز اور ووکیشنل ٹریننگ جیسے کم خرچ متبادل تعلیمی ذرائع کا بڑھنا بھی داخلوں میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے نصاب، گورننس، فنڈنگ اور رسائی میں فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔

دنیا بھر میں بھی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے مگر وجوہات مختلف ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان اور امریکا میں کم پیدائش کی شرح اور تعلیم کے بھاری اخراجات اس کمی کا باعث ہیں، جبکہ طلبہ زیادہ تر عملی مہارتوں کے حصول کے لیے ووکیشنل ٹریننگ اور آن لائن کورسز کو ترجیح دیتے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں معاشی مشکلات، ناقص انفراسٹرکچر، پرانا نصاب اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی داخلوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مالی وسائل کی کمی اور حکومتی تعاون کا فقدان بھی مسائل کو بڑھا رہا ہے۔ مزید یہ کہ متبادل تعلیمی ذرائع کا بڑھنا طلبہ کو روایتی یونیورسٹیوں سے دور لے جا رہا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کو زیادہ سستا، بامقصد اور قابلِ رسائی بنایا جا سکے۔

پاکستان میں مستقبل کے روزگار کے لیے ٹیکنالوجی، بزنس اور ہیلتھ کیئر کے شعبے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ، ڈیٹا سائنس، سائبر سیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت جیسے مضامین کی سب سے زیادہ مانگ میں ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) جامعات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے تحقیقاتی فنڈز، فیکلٹی کی تربیت، نصاب کی جدت، اور بین الاقوامی تعاون پر توجہ دے رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر اور معیار کی بہتری پر بھی کام کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستانی جامعات عالمی سطح پر بہتر شناخت حاصل کر سکیں۔ اپنی رینکنگ کو بہتر بنانے کے لیے جامعات کو اعلیٰ معیار کی تحقیق، بین الاقوامی شراکت داری، فیکلٹی کی ترقی، جدید نصاب، اور طلبہ کے روزگار کے مواقع پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، جبکہ حکومتی سطح پر مالی تعاون، شفافیت اور میرٹ پر مبنی قیادت لازمی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ عالمی مقابلے کے قابل بن سکے۔

پاکستان میں یونیورسٹیوں میں داخلوں کی کمی کو ختم کرنے کے لیے جامعات کو ایک جامع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جس میں کم لاگت، نصاب کی عصری ضروریات سے مطابقت اور طلبہ کے لیے زیادہ رسائی کو ترجیح دی جائے۔ اس مقصد کے لیے طلبہ اور خاندانوں پر معاشی دباؤ کم کرنے کے لیے مالی امداد، وظائف اور لچکدار فیس ادائیگی کے طریقے فراہم کیے جائیں۔ نصاب کو موجودہ روزگار کی منڈی کی ضروریات کے مطابق جدید بنانا اور مہارت پر مبنی و بین الشعبہ جاتی پروگرام شامل کرنا ان طلبہ کو متوجہ کرے گا جو بہتر کیریئر مواقع چاہتے ہیں۔

آن لائن اور ہائبرڈ لرننگ آپشنز کو بڑھا کر ان طلبہ کے لیے بھی تعلیم کو قابلِ رسائی بنایا جا سکتا ہے جو روایتی کیمپس میں نہیں جا سکتے۔ کیریئر کونسلنگ، انٹرن شپس اور صنعتوں کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دے کر گریجویٹس کے روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے ہیں اور انہیں مستقبل کے حوالے سے اعتماد دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جدید انفراسٹرکچر اور طلبہ کی معاون خدمات پر سرمایہ کاری تعلیمی معیار کو مزید بہتر کرے گی۔ وسیع تر سطح پر حکومت کو اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے زیادہ فنڈنگ، معیار کی یقین دہانی، اور میرٹ پر مبنی قیادت و ادارہ جاتی خودمختاری کو فروغ دینا ہوگا۔

مزید برآں، اپنی کیو ایس (QS) ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ بہتر بنانے کے لیے پاکستانی جامعات کو علمی و پیشہ ورانہ شہرت کو بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی، جس کے لیے اعلیٰ معیار کی تحقیق کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ جرائد میں شائع کرنا اور مضبوط بین الاقوامی شراکت داریاں قائم کرنا ضروری ہے۔ تحقیقی پیداوار بڑھانے کے لیے زیادہ فنڈنگ، فیکلٹی کی ترقی اور بین الشعبہ جاتی منصوبے نہایت اہم ہیں۔ ساتھ ہی طلبہ اور اساتذہ کے تناسب کو کم کر کے تدریسی معیار اور طلبہ کی شمولیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

غیر ملکی اساتذہ و طلبہ کو مسابقتی مراعات اور انگریزی میں پڑھائے جانے والے پروگرامز کے ذریعے متوجہ کرنا بھی عالمی تنوع اور کشش کو بڑھائے گا۔ جدید لیبارٹریز، لائبریریز اور ڈیجیٹل سہولیات جیسے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنا، اور تعلیم کو روزگار کی منڈی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے انڈسٹری کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانا گریجویٹس کی ملازمت کے امکانات کو بہتر بنائے گا۔ قومی سطح پر زیادہ فنڈنگ، معیار کی یقین دہانی اور میرٹ پر مبنی قیادت ہی وہ عوامل ہیں جو تعلیمی بہترین کارکردگی اور عالمی مسابقت کو پائیدار بنا سکتے ہیں۔

)مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا، جامعہ پنجاب لاہور سے وابستہ ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ ان کے کئی تحقیقی مقالے شایع ہو چکے ہیں۔ مختلف اخبارات میں مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔ [email protected] (

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی تعاون ترقی یافتہ ممالک پاکستانی جامعات روزگار کے مواقع تحقیقی پیداوار میں یونیورسٹی یونیورسٹی ا ف کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان میں کرنے کے لیے طلبہ کے لیے جامعات میں جا سکتا ہے جامعات کو اور عالمی اور تعلیم کی وجہ سے معیار کو اور طلبہ بہتر بنا سکتے ہیں تعلیم کو تعلیم کے شامل ہیں تک رسائی ہوتے ہیں اور علمی کی تحقیق معیار کی ا ن لائن کو فروغ طلبہ کو ہوتا ہے کو بہتر کی پہلی کیو ایس رہا ہے کی کمی ہیں جو

پڑھیں:

ہالی ووڈ کے عالمی شہرت یافتہ اداکار رابرٹ ریڈفورڈ انتقال کر گئے

ہالی ووڈ کے آسکر ایوارڈ یافتہ عظیم اداکار اور ڈائریکٹر رابرٹ ریڈفورڈ 89 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اداکار کو جب صبح نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کی کیی گئی تو وہ مردہ پائے گئے۔

وہ کافی عرصے سے نقاہت اور عمر رسیدگی سے جڑے دیگر امراض میں مبتلا تھے اور مختلف دوائیں لے رہے تھے۔ 

ریڈفورڈ کو نہ صرف آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار کے طور پر بلکہ ایک بااثر فلم ساز اور سنڈینس انسٹی ٹیوٹ کے بانی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

1937 میں سینٹا مونیکا، کیلیفورنیا میں پیدا ہونے والے ریڈفورڈ نے ابتدا میں پینٹنگ کی تربیت حاصل کی لیکن بعد میں اداکاری کی طرف راغب ہوئے اور جلد ہی براد وے اور پھر فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔

ان کی پہلی فلم Warhunt 1962 میں ریلیز ہوئی، جبکہ 1967 کی کامیڈی Barefoot in the Park سے انہیں پہچان ملی۔

ان کا سب سے بڑا بڑا کارنامہ Indie Films کو عالمی سطح پر فروغ دینا ہے۔ کیریئر کے آغاز میں ہی رومانوی فلموں جیسے Out of Africa میں شائقین کے دل جیت لیے تھے۔

علاوہ ازیں The Candidate اور All the President’s Men میں سیاسی موضوعات پر کام کیا جبکہ The Electric Horseman اور Indecent Proposal جیسی فلموں میں اپنے "گولڈن بوائے" امیج کو چیلنج بھی کیا۔

1980 میں بطور ہدایتکار ڈیبیو فلم Ordinary People نے بہترین فلم اور بہترین ڈائریکٹر کے آسکر ایوارڈز جیتے۔

تاہم وہ سب سے زیادہ مشہور اپنی دو فلموں Butch Cassidy and the Sundance Kid (1969) اور The Sting (1973) میں ہوئے جو انہوں نے اداکار پال نیومین کے ساتھ کیں اور آج بھی یہ فلمیں کلاسکس شمار ہوتی ہیں۔

ریڈفورڈ کی نجی زندگی بھی خبروں میں رہی۔ وہ ایک طویل عرصے تک پہلی بیوی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں رہے جس کا 1985 میں خاتمہ ہوا۔ 2009 میں انہوں نے جرمن آرٹسٹ سبائل زاگارز سے شادی کی۔

اداکاری کے علاوہ وہ ماحولیاتی مہمات کے بھی بڑے حامی تھے اور National Wildlife Federation جیسے اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے۔

ریڈفورڈ کو 2001 میں لائف ٹائم اچیومنٹ آسکر ملا اور وہ 2017 تک فلم انڈسٹری میں سرگرم رہے۔ ان کی آخری نمایاں فلم Our Souls at Night تھی جس میں انہوں نے اپنی پرانی ساتھی اداکارہ جین فونڈا کے ساتھ کام کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پہلی بار ایک پاکستانی نژاد ساؤنڈ انجینیئر نے گریمی ایوارڈ جیت لیا
  • پاکستانی کمپنی کو عالمی مارکیٹ سے بیف کے کروڑوں روپے کے آرڈرز مل گئے
  • طلبہ یونین الیکشن کا ضابطہ اخلاق 21دن میں تیارکرنے کا حکم
  • بھارتی کرکٹرز پر پاکستانی نیٹ بولرز کے ساتھ تصاویر پر بھی پابندی عائد
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • ہالی ووڈ کے عالمی شہرت یافتہ اداکار رابرٹ ریڈفورڈ انتقال کر گئے
  • جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
  • سندھ کی دو جامعات کیلئے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری
  • بلاول بھٹو زرداری کا شنگھائی کی فودان یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب
  • سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں ہوسکتا، عالمی ثالثوں کی پاکستانی مؤقف کی حمایت