امامیہ اسکائوٹس، خستہ نباشید۔۔ لبیک یاحسین ؑ
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سیلاب آیا اور چلا گیا، پانی کے تیز بہائو میں سیلابی علاقوں میں جو کچھ بہہ چکا ہے، اسکا شمار ممکن نہیں، فلاحی و رفاہی اداروں اور درد دل رکھنے والوں کو مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، یہ مرحلہ متاثرین کی بحالی کا ہے، اس میں قدم قدم مزید آگے بڑھانا ہوگا۔ کہیں غفلت نا ہو جائے، کوئی ہم سب کی کوتاہی کا شکار نا ہو جائے، کوئی سیلابی ریلوں میں اپنا سب کچھ بہتا دیکھنے والا تباہ حال ناامیدی اور مایوسی کی رو میں نا بہہ جائے، امامیہ اسکائوٹس کے سابق چیف، برادر مجتبیٰ سعیدی میرے استاد اکثر کہتے تھے، جو مجھے یاد ہے، "امامیہ اسکائوٹس۔۔۔ خستہ نباشید۔۔ لبیک یاحسینؑ" تحریر: ارشاد حسین ناصر
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان مکتب کربلا سے وابستہ اس پاک سرزمین کے ایسے فرزندان کا کاروان حق ہے، جو گذشتہ 54 برسوں سے مسلسل اس ملت، اس مکتب، اس پاک سرزمین کیساتھ ساتھ جہانی مقاومت و مزاحمت کی حمایت و نصرت اور مظلومین جہاں سے اظہار یکجہتی اور ان کی آواز کو اس سر زمین پاک کے باسیوں تک پہنچانے میں کبھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرتے، جبکہ امامیہ جوانان کا بنیادی دائرہ تو کالجز، یونیورسٹیز اور اسکولز کے طالبعلم ہیں، جن کی تعلیم و تربیت، ان کی تعلیمی رہنمائی، ان کے مسائل کے حل میں معاونت اور انہیں تہذیب سے آراستہ کرنا، تاکہ تعلیمی اداروں کے اندر و باہر فاسد ماحول کے اثرات سے انہیں بچایا جائے اور وہ قوم کا روشن مستقبل بن سکیں اور ایک کارآمد فرد کے طور پہ معاشرہ کا حصہ بنیں۔
مگر کربلا سے درس حریت، ایثار و قربانی لینے والے ان منظم و باتقویٰ جوانان نے ہمیشہ اس سبق کو کبھی فراموش نہیں کیا کہ کسی کی تکلیف و درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے میدان میں وارد ہوتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ ان کی ایسی خدمات سے بھرپور اور گواہ ہے۔ اب بھی ان کی خدمات روز روش کی طرح ہر ایک کو نمایان طور پر دکھائی دے رہی ہیں، اس لیے کہ ان کے خمیر میں ہی درد و الم کے ماروں کی ممکنہ مدد ہے۔ مصیبت و مصایب کے شکار، چاہے ان کا تعلق ارض پاک سے ہو یا کسی دوسرے خطے سے امامیہ جوانان ہر دم تیار دکھائی دیتے ہیں۔ بقول امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
پاکستان میں حالیہ دنوں میں جو سیلاب آیا، اس نے جس قدر تباہی مچائی ہے، وہ سب کے سامنے ہے، اس کا اندازہ ان لوگوں کو بخوبی ہے، جو اس دوران امدادی سرگرمیوں میں عملی طور پر وارد ہیں اور کسی نا کسی فلاحی و رفاہی پلیٹ فارم سے متاثرین کی مدد کو پہنچے ہیں۔ سیلاب کا سلسلہ کے پی کے سے شروع ہوا، بونیر وغیرہ میں کافی نقصان ہوا، گلگت سائیڈ پر بھی لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے، جبکہ سب سے زیادہ تباہی پنجاب میں سامنے آئی، جس کا سلسلہ نارووال، منڈی بہائولدین، حافظ آباد، سیالکوٹ، لاہور، ننکانہ، چنیوٹ، جھنگ، خانیوال، ملتان، مظفر گڑھ، قصور، بہاولپور اور وہاڑی اضلاع نمایاں طور پر متاثرہ دیکھے جا سکتے ہیں۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان چونکہ ایک منظم، مربوط اور پڑھے لکھے جوانان جو جذبوں کی صداقت کیساتھ ہوتے ہیں، کا کاروان ہے، لہذا اس کے مختلف شعبہ جات اپنے اپنے سرکل میں فعالیت رکھتے ہیں، شعبہ خدمت خلق بالخصوص سیلاب و زلزلہ اور دیگر آفات میں اس کے وہ کارکن جن کی تربیت سال بھر ایمرجنسیز سے نمٹنے اور اپنی خدمات بے لوث پیش کرنے کے عنوان سی کی جاتی ہے، وہ فوری طور پر فعال اور میدان میں اتر آتے ہیں۔ محرم و اربعین اور جلوس ہائے عزا و قومی اجتماعات یا ریلیوں میں بھی یہی شعبہ فعالیت دکھاتا ہے۔ الحمد للہ اس شعبہ سے تربیت پانے والے عمر بھی اسی جذبہ و ایثار گری کیلئے خود کو پیش کرتے ہیں اور بلا جھجھک اپنی خدمات ایک کارکن کے طور پر پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
حالیہ سیلاب میں یوں تو ملت جعفریہ کی طرف سے اور بھی کئی گروہ، تنظیمیں اور ادارے فعالیت دکھا رہے ہیں اور ممکنہ طور پر اپنے اپنے انداز میں کردار ادا کر رہے ہیں، جو کہ قابل ستائش ہے، اس پر ہمیں فخر ہے اور یہ سب کیلئے قابل تقلید بھی ہے، مگر جس سرعت اور تیزی سے، جس فعال و منظم انداز سے اسکائوٹس نے سیلاب متاثرہ علاقوں تک پہنچ کر خدمات پیش کیں، وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر چمکتا رہے گا۔ دراصل سب سے قدیم اور وسیع نیٹ ورکنگ اور کارکنان و رضاکاروں کی بھرپور تربیت کے باعث ہی ایسا ممکن ہوسکتا ہے، جو کہ امامیہ اسکائوٹس کے پاس وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ہنگو کوہاٹ کے امامیہ اسکائوٹس نے کے پی کے، جہاں تعصب و تقسیم و طالبانائزیشن کی وجہ سے اہل تشیع و دیگر مکاتیب فکر اپنے اپنے ایریاز تک محدود ہوچکے ہیں اور اپنی آبادیوں سے ہٹ کے جانا جان کو خطرے میں ٖڈالنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
ایسے ماحول میں ہنگو کوہاٹ سے جا کر بونیر جو کلی طور پر غیر شیعہ ایریا ہے، بلکہ اس پورے خطے میں شاید کوئی ایک گھر بھی اہل تشیع سے تعلق نہیں رکھتا ہے، وہاں کے متاثرین کیلئے ایک بڑی رقم کیساتھ گھر گھر جا کر امداد مہیا کی ہے، جو دو حوالوں سے قابل ستائش ہے، ایک یہ کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ امامیہ جوانان میں کسی بھی قسم کا تعصب و فرقہ وارانہ تقسیم کی اہمیت نہیں کہ یہ بھاری رقم کسی شیعہ متاثرہ علاقے تک بھی پہنچا کر ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوا جا سکتا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ جان کے خطرات کی پرواہ کیے بنا بونیر میں جا کر یہ فلاحی خدمت، یہ عوامی خدمت سرانجام دی گئی، یہ ایک جراتمندانہ کام ہے، جس کی ستائش کی جانی چاہیئے۔
اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ امامیہ اسکائوٹس کے رضاکار کسی بھی خطرے کو خاطر میں لائے بنا، سیلابی علاقوں میں ہر حوالے سے فعال و خدمات سرانجام دیتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چاہے سیلابی پانیوں میں پھنسے لوگوں کو بحفاظت نکالنے کا معاملہ ہو یا ان تک خوراک، ادوایات پہنچانے کا ایشو، امامیہ اسکائوٹس ہر طرح سے میدان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کا نقصان تو کوئی بھی پورا نہیں کرسکتا، چونکہ لوگوں کی برس ہا برس کی کمائی اور حاصل کل کائنات ہی اجڑ چکی ہیں، مگر ایسے درد کے ماروں، ایسے دکھوں سے لدے اور آنسوئوں سے لدے خستہ حال مرد و زنان، ضعیف و ناتوانوں کی کسی بھی طرح سے کمک اور مدد، چاہے انہیں ایک بوتل پانی دے کر کی جائے یا ایک وقت کا کھانا پیش کرکے کی جائے یا انہیں آٹا و راشن مہیا کرکے کی جائے۔ جانوروں کا چارہ یا طبی کیمپ لگا کر ان کے طبی مسائل بشمول ادوایات کی فراہمی کا ساماں کیا جائے تو بہت بڑی بات ہے۔
کہتے ہیں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، ایسے ماحول میں جب سب کچھ لٹ پٹ جائے، دلاسے کے دو بول اور دست شفقت رکھنا بھی یاد رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیلاب آیا اور چلا گیا، پانی کے تیز بہائو میں سیلابی علاقوں میں جو کچھ بہہ چکا ہے، اس کا شمار ممکن نہیں، فلاحی و رفاہی اداروں اور درد دل رکھنے والوں کو مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، یہ مرحلہ متاثرین کی بحالی کا ہے، اس میں قدم قدم مزید آگے بڑھانا ہوگا۔ کہیں غفلت نا ہو جائے، کوئی ہم سب کی کوتاہی کا شکار نا ہوجائے، کوئی سیلابی ریلوں میں اپنا سب کچھ بہتا دیکھنے والا تباہ حال ناامیدی اور مایوسی کی رو میں نا بہہ جائے، امامیہ اسکائوٹس کے سابق چیف، برادر مجتبیٰ سعیدی میرے استاد اکثر کہتے تھے، جو مجھے یاد ہے، "امامیہ اسکائوٹس۔۔۔ خستہ نباشید۔۔ لبیک یاحسینؑ"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امامیہ اسکائوٹس کے متاثرین کی کہ امامیہ مزید ا گے ہیں اور
پڑھیں:
جماعت اسلامی کا فلسطینی بچوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی چلڈرن غزہ مارچ
کراچی، لاہور (نوائے وقت رپورٹ، خصوصی نامہ نگار) جماعت اسلامی کے تحت اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین بالخصوص بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شاہراہ قائدین پر’’کراچی چلڈرن غزہ مارچ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ تاحد نگاہ دور تک طلبہ و طالبات کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری سکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لیبک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک الھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی اور بچوں میں زبردست جوش وخروش دیکھنے میں آیا۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ’’کراچی چلڈرن غزہ مارچ‘‘میں شریک لاکھوں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فیصد سکول اور 90 فیصد ہسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں۔ صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔ قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکہ فلسطین میں انسانیت کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ مسجد اقصیٰ صیہونی قبضے میں ہے، وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کے باضمیر لوگ اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، بالخصوص امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا۔ 7 اکتوبر کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف یوم احتجاج منایا جائے گا۔ جبکہ 5 اکتوبر کو کراچی میں شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ’’غزہ ملین مارچ‘‘ ہوگا، دیگر مسلم ممالک میں بھی ملین مارچز ہوں گے۔