UrduPoint:
2025-11-05@06:51:33 GMT

جرمنی میں زندگی کتنی محفوظ ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

جرمنی میں زندگی کتنی محفوظ ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) ’’نیا جرمنی‘‘ایک''شرمندگی اور المیہ‘‘ ہے۔

یہ الفاظ جنوبی افریقی-جرمن ٹریول بلاگر کرٹ کاز کے ہیں۔ وہ اپنے ویڈیو میں فرینکفرٹ کے سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد کے بدنام زمانہ علاقے کو ’’نئے جرمنی‘‘ کی تصویر قرار دیتے ہیں، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’جرائم، غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کے قبضے میں‘‘ ہے۔

ویڈیو میں نشے کے عادی افراد فٹ پاتھ پر لیٹے ہیں، ایک مشتبہ ڈیلر انہیں دھمکاتا ہے، ایک خاتون بوتل پھینکتی ہے۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر 60 لاکھ اور ٹک ٹاک پر ایک کروڑ سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے۔ بہت سے نسلی تعصب پر مبنی تبصرے بھی اس پر موجود ہیں۔

(جاری ہے)

ایسی کئی ویڈیوز جرمنی میں جرائم کے بارے میں وائرل ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ زمینی حقائق کی درست عکاسی کرتی ہیں؟

برلن اور فرینکفرٹ دیہی علاقوں سے زیادہ خطرناک

کریمنالوجسٹ سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق فرینکفرٹ کا ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع علاقہ طویل عرصے سے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ رہا ہے، ''یہ تشدد کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اور منشیات کے جرائم کو بھی۔

‘‘

جرمنی میں کچھ خاص علاقے ایسے ہیں جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جیسے دیگر ممالک میں، شہروں میں جرائم زیادہ اور دیہات میں کم ہوتے ہیں۔

بڑے شہر جیسے بریمن، برلن اور فرینکفرٹ میں جرائم کی سطح بلند ہے، جزوی طور پر اس لیے کہ شہروں میں سماجی عدم مساوات زیادہ ہے۔

عمومی طور پر جرمنی کو ایک ’’انتہائی محفوظ ملک‘‘ سمجھا جا سکتا ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق دیگر مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی 1980 اور 1990 کی دہائی سے جرائم کم ہوئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے، جیسے کہ آج کی گاڑیوں کو چرانا پرانی گاڑیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہے۔ عالمی سطح پر جرمنی کہاں کھڑا ہے؟

جرمنی کی بین الاقوامی پوزیشن کو پرکھنے کا سب سے بہتر طریقہ قتل کی شرح دیکھنا ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق یہ ’’گولڈ اسٹینڈرڈ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا طویل ترین ڈیٹا بھی دستیاب ہے۔

2024 میں جرمنی میں قتل کی شرح 0.

91 فی ایک لاکھ آبادی تھی، اور دنیا میں اس اعتبار سے 147 ویں نمبر پر رہا۔

موازنہ کریں تو جنوبی افریقہ اور ایکواڈور میں یہ شرح 40 فی ایک لاکھ سے زائد ہے، جبکہ امریکہ میں 5.76 ہے۔

بیس سال پہلے جرمنی میں یہ شرح 2.5 فی ایک لاکھ تھی، یعنی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ۔

طویل مدت میں کمی کے باوجود حالیہ برسوں میں تشدد کے جرائم میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق زیادہ تر تشدد کرنے والے نوجوان مرد ہوتے ہیں، اور اس میں مہاجرت کا کردار بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا، ’’مغربی یورپ کے کئی ممالک میں ایسے نوجوان مردوں کی تعداد بڑھی ہے جو اپنے خاندان کے بغیر آتے ہیں، جن پر سماجی کنٹرول نہیں ہوتا، اور اکثر جنگ یا خانہ جنگی سے گزرنے کے باعث ذہنی طور پر شدید متاثر ہوتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ کامیاب انضمام جرائم کو کم کرتا ہے، کیونکہ اصل وجوہات بیروزگاری اور مواقع کی کمی ہیں، نہ کہ کسی کا ملکِ پیدائش۔

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہاجرین مقامی شہریوں کے مقابلے میں کم جرائم کرتے ہیں۔‘‘

کئی جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے

میونخ کے آئیفو انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق صنف اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ لوگ کہاں رہتے ہیں۔

یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کولون میں کریمنالوجی کی ماہر گینا روزا وولنگر کے مطابق مہاجرین شہروں میں زیادہ رہتے ہیں، اور شہری علاقے جرائم سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں۔

تحقیقات سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ جرمن اور غیر جرمن نوجوانوں کے درمیان تشدد کے اسباب یکساں ہیں، مگر مہاجر نوجوانوں میں خطرے کے عوامل زیادہ ہوتے ہیں، جیسے تعلیم کی کمی، گھر میں تشدد کا تجربہ، یا مردانگی کے نام پر تشدد کو جائز سمجھنے والی سوچ۔

جرمنی میں جرائم کے اعداد و شمار کی سب سے بڑی ذریعہ وفاقی کریمنل پولیس آفس (بی کے اے) ہے۔ لیکن یہ صرف وہ کیسز ہوتے ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیے جائیں۔ اصل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیونکہ کچھ جرائم کم رپورٹ ہوتے ہیں، جیسے دیہی علاقوں میں گھریلو تشدد۔

زیادہ تر تشدد میں قریبی جاننے والے ملوث ہوتے ہیں

یہی صورت حال جنسی جرائم کے ساتھ بھی ہے۔

کارشٹیڈٹ کے مطابق، ’’زیادہ تر جنسی تشدد اجنبیوں کی طرف سے نہیں بلکہ قریبی تعلقات میں ہوتا ہے، جیسے چچا، سوتیلا باپ، استاد یا کوچ۔‘‘

سوزانے کاراشٹڈ جو 25 سال پہلے جرمنی چھوڑ کر پہلے انگلینڈ اور پھر آسٹریلیا منتقل ہو گئیں، کہتی ہیں کہ جب بھی وہ اپنے آبائی شہر ہیمبرگ آتی ہیں تو ہمیشہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں، ’’یہاں تک کہ میٹرو میں بھی۔ مجموعی طور پر جرمنی ایک محفوظ اور دوستانہ ملک ہے، اگرچہ شاید آسٹریلیا جتنا دوستانہ نہیں۔‘‘

ج ا ⁄ ص ز (پیٹر ہِیلے، کیرا شاخٹ)
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق ہوتے ہیں

پڑھیں:

’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘

’’ فرصت ہی نہیں ملتی‘‘ آج کل جیسے دیکھو ، یہی رونا ہے۔ فرصت ہی نہیں، دو گھڑی آرام کی بھی۔ عدیمی الفرصتی کا ایسا بہانہ، کہ نہ ملنے کا شکوہ کیا، تو سننے کو ملا ’’کہ یہاں تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور آپ ملنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے گویا یہ سب کا تکیہ کلام ہی بن گیا ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘

ارے بھئی یہ فرصت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ کے ہاتھ نہیں آرہی۔کبھی تو یہ ہر گھرمیں بڑے آرام سے اڑتی، چہچہاتی نظر آتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا¡ سادگی نے دامن چھوڑا، تکلفات نے جگہ لی، بناوٹ و تصنع نے گھر کیا۔ اسٹیٹس کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن کا چین گیا، راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں۔ ایک ہی دھن سوار ہے کہ فلاں کے پاس وہ سب کچھ، میرے پاس نہیں۔ بس اسی غم میں دن رات کُڑھتے ہوئے ایسے گَھن چکر بنے کہ کولہو کے بیل بنے ہوئے نہ ہی بچوں کے لیے وقت، نہ ہی اپنے سے ملاقات کا سمے۔ وہ ملاقات جو ہماری ذات کا سُکھ چین کا باعث تھی۔

آسائشوں کی لمبی دوڑ اور کچھ پانے نہیں، بلکہ سب کچھ پانے کی ہوِس نے ہم سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا۔ خود اپنی ہی ذات سے بے گانہ کر کے وہ خوشیاں ہی چھین لی ہیں، جو زندگی کا محور و مرکز تھیں۔ لمبی عمروں کا باعث تھیں۔ نہ وہ بے ساختہ قہقہے و محفلیں رہیں۔ نہ بیتی باتوں کی وہ پھلجڑیاں، جو وقت بے وقت گزرے زمانوں کو یاد کر کے، کہ کیسے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کتنے بیتے زمانے تصور ہی تصور میں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ نہ ہی وہ فرصت کے لمحات رہے جب ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہوئے خود کو فکروں سے آزاد کرلیتے تھے۔ ذہنی پریشانیوں کے جال میں الجھنے کے بہ جائے۔ انھیں مل کر سلجھاتے ہوئے اون کے ان پریشانیوں کے بکھیڑوں کو آسانی سے لپیٹ لیتے تھے۔ مل بیٹھنا ہی اس کا سب سے بڑا حل تھا۔ اپنوں کی سنگت میں، سادگی سے گزرے لمحے کیا کچھ یاد دلاتے ہیں۔ کہاں تو یہ عالم کوئی آگیا سو بسمہ اﷲ دلوں کی طرح دسترخواں بھی کھلا، جو بھی گھر میں بنا، چاہے دال روٹی یا چٹنی روٹی آنے والا اس میں خوشی خوشی شریک ہوگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہ کوئی شکایت، نہ بناوٹ، نہ آنے والا پریشان کہ معاف کیجیے بنا بتائے، یا بے وقت آگیا اور نہ میزبان کے ماتھے پر کوئی شکن، نہ بھاگم بھاگ پیزا، چکن بروسٹ لانے کا جھنجھٹ۔ کیسی سادگی تھی، نہ آنے والا نہ کھلانے والا تذبذب کا شکار کہ تھوڑے سے وقت میں مہمان کی خاطر داری کیسے کریں۔ مزے سے گپ شپ لگائی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہوئے۔ ایک دوسرے کو پیار اور خلوص بانٹتے ہوئے ایسے رخصت ہوئے کہ وہی لمحے یاد گار بن کر زندگی کو بڑھا دیتے اور اب حال یہ ہے کوئی بے وقت آگیا تو فوری بچھا ہوا دسترخوان لپیٹ ، میاں کو بازار کی دوڑ لگوائی، چکن رول سے لے کر آئس کریم تک کہ سب کچھ لے کر آئیے۔ انھوں نے ہمارے جانے پر کیسے میز بھری تھی۔ کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک ہی نہ کٹ جائے، اور بیگم گپ شپ کے بہ جائے۔ آپ ذرا بیٹھیے، میں ابھی آئی کہتے ہوئے یوں باورچی خانے بھاگیں کہ رہے سہے لوازمات، وہ کباب، سموسے بھی لگے ہاتھوں تل لیں کہ دسترخوان خالی نہ رہ جائے اور یوں جو دو گھڑی ملنے کے میسر بھی آئے وہ بھی ہم نے تکلفات کی بھاگ دوڑ میں اور مہمان داری میں گنوادیے۔ اوپر سے یہ شکایت، اف ڈھنگ سے بات بھی نہ ہو سکی۔ بتاکر آتے تو کم از کم آرام سے سب بندوبست ہو جاتا۔

گزرے زمانوں و فی زمانہ یہی تو فرق ہے، جو ہمیں مار گیا ہے۔ یہ نام نہاد کے ڈھکوسلے اور خواہ مخواہ کے دکھاوے نے ہماری زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ قصور سارا اپنا کہ بے جا لوازمات میں خود کو ایسا الجھایا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں پاتے اور الزام دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ملتی، ایک اسٹیٹس اور اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر نے ہماری ذہنی آسودگی کو عرش سے فرش پر لاپٹخا ہے۔ اب تو ملنے پر بھی، ’’بتاؤ ماشاء اﷲ بچے اچھی ملازمت پر لگ گئے۔ تم لوگوں کی محنت نے بچوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔‘‘ پہلے اب یہ باتیں کہاں سننے کو ملتی ہیں اور اب بچوں کو کچھ بنانے کے بہ جائے ان کے لیے کچھ بنانے کے خیال نے بات چیت کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ’’ارے تم نے بیٹے کے لیے کون سی گاڑی خرید لی۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لیے نئی ماڈل کی گاڑی خریدی ہے اور موبائل بھی وہ والاجو آج کل مارکیٹ میں نیا آیا ہے۔ اس کے دوست کے پاس وہی تھا۔ سو اس کی فرمائش تو پوری کرنی تھی اور پھر چل سو چل، قصہ گاڑی، موبائل سے ہوتا ہوا ختم ہوتا ہے کہ تم نے ڈیفنس میں کوئی پلاٹ وغیرہ لیا اور سننے والا صدمے میں ایسے جاتا ہے کہ میاں کے کان کھاتا ہے کہ دیکھ لیں ان کے پاس ہر چیز نئی سے نئی  اور ایک ہم ہیں بیوی کا رونا دیکھ کرمیاں قرضوں کا بوجھ اٹھائے راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔

آج کل کے زمانے کی سو فی صد ہو بہو تصویر ہے۔ خواہشوں کے اِزدحام نے انسان کو ایسے نگلا ہے کہ یہ بھی حاصل کرنا، وہ بھی حاصل کرنا، کوٹھی، بنگلا آگیا، تو مہنگے سے مہنگا فرنیچر و پردے بھی درکار، رکھ رکھاؤ کے لیے لباس بھی قیمتی، ہاتھوں میں نئی گھڑی اور موبائل اور اس بھیڑ چال میں کچھ وقت اپنے لیے نکالنے کا سوچتے بھی ہیں، تو پھر خیال آتا ہے۔ بہتر ہے وہ کام بھی کر ہی لوں، اچھا موقع ہے، منافع ہی منافع ہے اور اس منافع کو حاصل کرنے کے لیے ہم جو اپنی لاکھوں سی قیمتی جان کا منافع داؤ پر لگارہے ہیں، جو صرف اور صرف فراغت و فرصت کے لمحات میں پوشیدہ و انھی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اپنی صحت، قیمتی ان مول دولت کو یوں ضائع کرتے ہوئے، ہمیں تھوڑا سا بھی دکھ و ملال نہیں ہوتا۔ وہ دولت جو کسی قیمت پر ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیجیے۔

لاکھوں سی جان کو ہم نے مصروفیت کے تانوں بانوں میں الجھاکر ایسا توڑا مروڑا ہے کہ ہماری اصلی صورت ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔ یہ وقت سے پہلے آتا ہوا بڑھاپا، یہ بالوں میں سفیدی، ماتھے پر شکنیں، نظر میں دھندلاہٹ، ٹانگوں میں درد، سب شکستہ عمارت کی وہ نشانیاں، جو حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے ہم نے پائی ہیں۔ سب کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں آج عمر کی اس منزل پر آئینہ کیسے آپ کے حالت زار کی چغلی کھا رہا ہے۔ جن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تم نے زندگی بتادی۔  خوار ہوتے رہے ، ریشم و اطلس کے خواب دیکھتے رہے۔آج تمہاری دسترس سے دور تمہارے لیے بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ تم میں اب نہ وہ جان ہے نہ وہ ہمت ہے کہ ان سے لطف اندوز ہو سکو ۔

آنکھوں میں وہ دم نہیں، ٹانگوں میں بھاگنے کی جان نہیں، دوائیوں اور گولیوں سے فرار ناممکن، وہ ہی اب آپ کی ہم دَم و ساتھی۔ اگر نہ ملیں تو کیسے کیسے مرض حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دواؤں کا ایسا عادی بنایا، جس کے بغیر جینا محال ہوگیا۔ سوچو تو بہت کچھ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ، زندگی کی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر کے اپنی عمر کو صحت مند بنائیں۔ فرصت نہ ملنے کا رونا روکر اسے داؤ پر مت لگائیں، سُکھ، چین، شانتی، سکون سے بیٹھ کر ہر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہر چیز کو ذہن پر سوار مت کریں کہ یہ نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا، ایسے نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ صحت مند ہوں گے تو سب کچھ ہوجائے گا۔ ہر کام پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

عمر کی وہ نقدی، یوں بے دریغ انتھک لٹاتے خرچ کرتے ہوئے ہم اس احساس سے ہی عاری ہوگئے کہ جانے زندگی کے کتنے پل باقی ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں۔ کاش ہم کبھی فرصت کے چند لمحوں میں کبھی اپنے لیے بھی تو جیتے۔‘‘ اپنی زندگی تو جیتے، اپنے آپ کو آئینے کے سامنے سنوارتے ہوئے کبھی اپنے اندر تو جھانکتے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ وہ قیمتی لمحات زندگی کے جو بیت گئے واپس نہیں آئیں گے۔ آسائش آپ خرید سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں خرید سکتے۔ زندگی کے آخری اوور کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی خالی کشکول میں کوئی چند سکے بھی زندگی کے، آپ کو ادھار نہیں دے سکتا۔

اس لیے فرصت کا رونا روکر اپنی زندگی کو گہن مت لگائیے، جو آپ کے پاس ہے اسے غنمت جانیے کہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔ اسی میں آپ کے آج کا سکھ و چین ہے اور کل کی طویل العمری کی نوید ہے۔ اپنے آج کو کل کے لیے قربان مت کریں جیب میں جتنی بھی فرصت کے پل ملیں، انھیں استعمال کیجیے کیوں کہ کل یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کھوٹے سکے بن کر آپ کے کسی کام نہ آئیں گے۔ کسی سے ملنا ہے، کسی کا حال پوچھنا ہے، کسی کی تیمار داری کرنی ہے تو اپنی مصروفیت کا دامن جھٹک کر ’’وقت‘‘ نکالیے۔ زندگی اتنی ارزاں شے نہیں کہ اسے یوں توڑ مروڑ دیا جائے۔ قدرت کے اس ان مول عطیے سے فیض اٹھاتے ہوئے، پل پل زندگی اپنے لیے جیتے ہوئے، یہ مت کہیے کہ فرصت نہیں ملتی بلکہ یوں کہیے کہ وقت نکالنا پڑتا ہے تو پھرآج ہی سے اپنے لیے وقت نکالیے۔ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیں گویا کہ آہیں بھرتے ہی رہ جائیں کہ ہمیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے کارن تم نے اپنی زندگی کے بے بہا فرصت کے لمحات گنوادیے۔ آج ہم تو وہیں کھڑے ہیں، لیکن تم نے اس اپنی تمام عمر کی تگ و دو میں کیا حاصل کیا ’’صرف دو گز زمین کا ٹکڑا‘‘ اب تو سمجھ جائیں، زندگی آپ سے کیا مانگتی ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رک جائے، کھڑی ہو جائے تو بے کار، دوسروں کے لیے بوجھ ،جینا مشکل و دوبھر ، اس لیے اسے چلتا رکھنے کے لیے فراغت و فرصت کا تیل ضرور دیجیے ورنہ زنگ آلود گاڑی تو دھکا دینے سے بھی نہیں چلتی اور دنیا کیا اپنے بچوں پر بھی بوجھ بنی نظر آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمنی کا شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعلان
  • سونے کی قیمت میں بڑی کمی، فی تولہ قیمت کتنی ہو گئی؟
  • سندھ حکومت کا خواتین کیلیے پنک اسکوٹیز پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا فیصلہ
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن
  • چالان کی رقم 14 دن میں جمع کروانے پر کتنی رعایت؟ ٹریفک پولیس نے خوشخبری سنادی
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • وزیراعظم آزادیِ صحافت کے تحفظ، صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم