وفاقی وزیرِصحت نے اپنی بیٹی کو ایچ پی وی ویکسین لگوا کر منفی پروپیگنڈہ رد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 ستمبر2025ء) وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفیٰ کمال نے ایچ پی وی ویکسین کے حوالے سے پھیلائے جانے والے تمام منفی پروپیگنڈے کو مؤثر طریقے سے رد کرتے ہوئے اپنی کمسن بیٹی کو ایچ پی وی ویکسین لگوا کر نہ صرف قوم کو یقین دہانی کروائی بلکہ ایک واضح پیغام دیا کہ یہ ویکسین بالکل محفوظ ہے اور اس سے متعلق پھیلائی جانے والی افواہیں بے بنیاد ہیں۔
وزیرِ صحت نے ایک خصوصی تقریب کے دوران میڈیا کے سامنے ویکسینیشن کے عمل کا مشاہدہ کروایا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر یہ ویکسین نقصان دہ ہوتی تو کیا ہم اسے اپنے ہی بچوں کو لگواتے؟ ہم صرف عوام سے توقع نہیں رکھتے، بلکہ خود بھی اس مہم میں سب سے آگے ہیں۔ سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایچ پی وی ویکسین دنیا کے 125 سے زائد ممالک میں استعمال ہو رہی ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ چکے ہیں۔(جاری ہے)
پاکستان میں بھی ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں مستقبل میں مہلک بیماریوں سے محفوظ رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت عوام کی صحت سے متعلق کسی بھی اقدام کو سیاسی یا مذہبی رنگ دینے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے میڈیا، والدین، اساتذہ اور علما سے اپیل کی کہ وہ آگے بڑھ کر سچائی کو عام کریں اور معاشرے کو افواہوں سے پاک کریں۔ ماہرین صحت، عالمی ادارہ صحت اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے واضح طور پر اس ویکسین کو محفوظ اور ضروری قرار دیا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایچ پی وی ویکسین
پڑھیں:
وزیر صحت سندھ کا ایچ پی وی ویکسین کیخلاف منفی پروپیگینڈا پھیلانے والوں کو انتباہ
صوبائی وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ایچ پی وی ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی افواہیں پھیلانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سائبر کرائم کو خط لکھ کر ویڈیوز فراہم کردی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ سندھ میں 41 لاکھ بچیوں میں سے اب تک 57 فیصد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ جس سیاسی جماعت نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ہے، وہ صحت جیسے معاملے کو سیاست سے بالاتر رکھ کر سوچیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کلب ممبران کی بچیوں کو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کیلئے دو روزہ کیمپ کی افتتاحی تقریب میں کیا۔ تقریب میں ماہرین امراضِ نسواں پروفیسر نگہت شاہ، ڈاکٹر حلیمہ یاسمین اور ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر خالد شفیع بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے خطاب میں کہا کہ سندھ میں 9 تا 14 سال کی 41 لاکھ بچیاں ہیں جنہیں ایچ پی وی وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر ایچ پی وی ویکسین کے حوالے سے منفی تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ یہ مانع حمل کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جارہی، یہ وائرس کے خلاف اثر انگیزی رکھتی ہے اور 2006 سے دنیا بھر میں لگائی جارہی ہے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا تھا کہ اگر یہ ویکسین مہم کامیاب رہی تو ہم دیگر امراض سے بچاؤ کے لیے مزید ویکسین متعارف کروائیں گے۔ یہ تیرہویں ویکسین ہے جو ای پی آئی کا حصہ بن رہی ہے۔ ڈاکٹر حلیمہ یاسمین نے کہا کہ میں گائنی آنکولوجی کی سرجری کرتی ہوں۔ ایک ایک گانٹھ یا ٹیومر نکالنے پر اس رات تھکن نہیں جاتی۔ ایسے عورت سے آنے والی بدبو سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کو سروائیکل کینسر ہے بائیوپسی سے بھی پہلے۔ ہم اسی دن الگ الگ مراکز میں ریڈیو تھراپی کی بکنگ بھیجتے ہیں۔ میرا شوہر میری بیٹیوں کو لگوانے کے لیے فکر مند ہے کیونکہ میری بیٹیاں چودہ سال سے بڑی ہیں۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں اب تک اس مہم کے ذریعے 41 لاکھ میں 57 فیصد بچیوں کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ میں نے سیاسی افراد، ایم این اے اور ایم پی ایز کو کہا ہے کہ یہ افراد دیگر سیاسی جماعتوں سے ہی کیوں نہ ہوں، میں کہتی ہوں ساتھ دیں۔ ایک سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے، اس سے کہوں گی کہ ایسا نہ کریں۔ میں نے وزیر اعظم کو خط لکھا، میں نے کہا کہ ہم زرِمبادلہ خرچ کر رہے ہیں، ہم کیوں ویکسین خود مینوفیکچر نہیں کرتے؟ اس کی انڈسٹری لگانے میں بہت بڑا بجٹ چاہیے۔ میں نے کہا ان کو قرض ہی دے دیں۔ حکومت ویکسین خرید رہی ہے لیکن انڈسٹری بنانا وفاقی حکومت کا معاملہ ہے۔ ہم کینسر رجسٹری بنا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور وزیر اعلیٰ سندھ صحت کے امور پر بہت کام کر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں بہتری کی گنجائش ہے تو وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے جراثیم کش اسپرے کروا رہے ہیں۔ ہم اسپتالوں میں بستر بھی مہیا کر رہے ہیں۔ شہری بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہم دوا ڈال کر لاروا کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کینسر سروائور سمعہ زیبر نے کہا کہ جب مجھے سروائیکل کینسر ہوا تو پہلے نہیں پتہ چل رہا تھا کہ کیا ہوا۔ میں مختلف نجی کلینکس کے دھکے کھانے کے بعد جناح اسپتال کے شعبہ امراض نسواں گئی۔ علاج کا ہر مرحلہ دردناک تھا۔ میرے تین بیٹے ہیں لیکن اس مرض کے سبب مجھے جلدی مینوپاز ہوگیا۔ اگر ایک ویکسین ہے تو اسے لگوائیں۔
پروفیسر نگہت شاہ نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کو تب ویکسین لگوائی جب یہ آسانی سے دستیاب نہیں تھی، اس وقت تین ڈوز لگی تھیں۔ ماضی میں ہم نے نعرہ بنایا کہ جہیز نہ دو مگر یہ ویکسین لگاؤ۔ کینسر کا نام ہی متاثر فرد کی آدھی موت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ ڈیڑھ سال قبل سے طبی ماہرین نے غوروفکر کیا، تحقیق ہوئی کہ سنگل ڈوز ویکسین مؤثر ہے۔ اگر اس کمیٹی نے فیصلہ کیا تو بچیوں کی بہتری کے لیے ہم نے اپنی بچیوں کو پہلے سے لگائی۔ یہ 41 لاکھ بچیاں بھی ہماری بیٹیاں ہیں۔ کینسر کے علاج میں لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔ اگر یہ بانجھ پن کرتی تو کیا میں اپنی بیٹی کو لگواتا؟ غیر تصدیق شدہ مواد کو فارورڈ نہ کریں۔