ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250921-03-7
شاہنواز فاروقی
پاکستانی اخبارات کے کالم نویس اندھوں میں کانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسئلہ بیان کرتے ہیں، کبھی کبھی مسئلے کا تجزیہ بھی کرتے ہیں مگر وہ یہ کبھی نہیں بتاتے کہ مسئلہ کس نے پیدا کیا۔ مثلاً اکثر کالم نگار پاکستان کے سیاسی بحران پر لکھتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ یہ بحران جرنیلوں اور ان کے آلہ کار سیاست دانوں کا پیدا کردہ ہے۔ اکثر کالم نگار بتاتے ہیں کہ ملک میں آزادی رائے موجود نہیں، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ آزادی رائے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے غائب کیا ہے۔ یاسر پیرزادہ روزنامہ جنگ کے کالم نویس ہیں اپنے ایک حالیہ کالم میں انہوں نے اس بات کا ماتم کیا ہے کہ پاکستان کے مذہبی لوگوں کے قول و فعل میں گہرا تضاد پایا جاتا ہے مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے مذہبی لوگوں کے قول و فعل میں تضاد کیوں موجود ہے۔ اس سلسلے میں یاسر پیرزادہ نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’پرانی بات ہے، دو صاحبان میرے دفتر تشریف لائے، دونوں کی وضع قطع شرعی تھی، پانچ وقت کے نمازی تھے، رمضان کے روزے رکھتے تھے، ایک سے زائد مرتبہ حج کر چکے تھے اور عمروں کی ادائیگی کا کوئی حساب ہی انہیں یاد نہیں تھا۔ انہوں نے سفارش کی کہ ان کے کسی جاننے والے کو اسلام آباد کے فلاں سرکاری اسپتال میں ہائوس جاب کی اجازت دے دی جائے۔ اس اسپتال کے ایم ایس سے میری شناسائی تھی، میں نے اسے فون کیا تو اس نے بتایا کہ ہائوس جاب کے لیے اسپتال نے میرٹ پر مبنی ایک شفاف نظام بنایا ہوا ہے، جن صاحب کی سفارش ہے وہ میرٹ پر پورا نہیں اُترتے۔ یہ بات سن کر میں نے ایم ایس کا شکریہ ادا کیا اور فون بند کرکے ان صاحبان سے معذرت کر لی۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اِس میرٹ کی تعریف کریں گے مگر وہ الٹا مجھ سے ناراض ہو گئے اور یہ کہہ کر چل دیے کہ ایک معمولی سا کام آپ سے نہیں ہو سکا۔
اِس قسم کے واقعات معمول ہیں، پہلے مجھے ایسی باتوں پر غصہ آجایا کرتا تھا، اب نہیں آتا، اب صرف حیرت ہوتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب کوئی ’’با عمل مسلمان‘‘ ایسی حرکت کرتا ہے۔ اگر اِس واقعے میں دو با عمل مسلمانوں کی جگہ دو ملحد کردار ہوتے تو پھر یہ واقعہ لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ مذہبی لوگوں کے نزدیک ملحد کا تو کوئی اخلاقی پیمانہ ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے آپ کسی بھی غیر اخلاقی رویے کی توقع کر سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ مفروضہ سراسر غلط ہے، تاہم فی الحال یہ سوال زیر ِ بحث نہیں، ابھی موضوع بحث یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کی دی ہوئی اخلاقیات کے تابع ہیں وہ اِس قدر اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی شرمندگی اور احساسِ جرم کے، قانون کی خلاف ورزی پر کیسے آمادہ ہو جاتے ہیں؟ پاکستان میں چپے چپے پر مساجد ہیں اور الحمدللہ آباد ہیں، ہر سال ہم پورے احترام کیساتھ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، حج اور عمرے کرتے ہیں، دس محرم کو امام حسینؓ کا سوگ مناتے ہیں اور 12 ربیع الاوّل کی شان و شوکت کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فجر کی اذان کے ساتھ صبح کا آغاز کرنے والے اور عشا کے تین وتر پڑھ کر شب بخیر کہنے والے، اپنا پورا دن کسی بے دین کی طرح گزارتے ہیں؟ وہ قوم جو شریعت کی پابندی کا دم بھرتی ہے، وہ اپنے ہی ملک کے دستور اور قوانین کو اتنی آسانی سے نظر انداز کیوں کر دیتی ہے؟ یہ کروڑوں مسلمان جو ہمہ وقت دین کی عزت و حرمت پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں، 10سیکنڈ کے لیے ٹریفک کے اشارے کی پاسداری کیوں نہیں کرتے، سڑکوں پر گندگی کیوں پھیلاتے ہیں، وضو کرتے وقت پانی کا ضیاع کیوں کرتے ہیں اور روز مرہ کے دنیاوی اور کاروباری معاملات میں اس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جس کی تعلیم ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے دی ہے؟‘‘ (روزنامہ جنگ، 10 ستمبر 2025ء)
مذہب انسان کو انسان بنانے والی سب سے بڑی قوت ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کا چرچا جتنا بڑھ رہا ہے معاشرہ اتنا مذہبی نہیں بن پارہا۔ اس کی وجہ ہے قرآن اہل ایمان سے مخاطب ہو کر صاف کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ یعنی ہمارے قول و فعل میں ایک فاصلہ ہے ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق نہیں۔ یعنی ہم نفاق کا شکار ہیں اور نفاق کی حالت میں ہمارا قول اور فعل ہم آہنگ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیرت طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے جو کچھ کہا اسے پہلے خود بسر کرکے دکھایا۔ کہنے کو ہمارے معاشرے میں کروڑوں لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور کروڑوں لوگ رمضان کے پورے روزے رکھتے ہیں۔ مگر ہماری نمازیں اور ہمارے روزے تک ہمارے کردار کو بدلنے میں ناکام ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب صرف ہمارا ’’قال‘‘ ہے مذہب ہمارا ’’حال‘‘ نہیں حالانکہ ہمارے دین کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے قال کو حال بنا کر دکھائو۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں ہورہا اس لیے ہماری نمازیں اور ہمارے روزے بھی بے اثر ثابت ہورہے ہیں۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا اگر تم اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح تو نماز پڑھو گویا خدا تم کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن ہماری نمازوں میں یہ دونوں کیفیات موجود نہیں۔ چنانچہ ہماری نمازیں بھی ہمیں جھوٹ بولنے، دھوکا دینے، حرام کھانے، دوسروں کا حق مارنے اور قانون توڑنے سے نہیں روکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کے بارے میں صاف کہا ہوا ہے کہ مجھے روزے دار کی بھوک پیاس نہیں اس کا تقویٰ پہنچتا ہے مگر کروڑوں لوگ تقوے کے ساتھ روزہ رکھتے ہی نہیں۔ چنانچہ ان کا روزہ کبھی ان کے کردار کو نہیں بدل پاتا۔ ہمارے معاشرے میں ہزاروں لوگ مبلغ بن کر گھوم رہے ہیں مگر ان کی بات کا کسی پر کوئی گہرا اثر نہیں ہوپاتا۔ اس لیے کہ ان مبلغین میں اخلاص موجود نہیں ہوتا۔ مولانا روم کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت اپنے لڑکے کو لے کر مولانا کے پاس آئی اور کہا کہ مولانا یہ لڑکا بہت میٹھا کھاتا ہے۔ آپ اسے تلقین کریں کہ یہ زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دے۔ مولانا نے عورت سے کہا تین ہفتے بعد آنا۔ تین ہفتے بعد وہ عورت پھر آئی تو مولانا نے کہا تین ہفتے بعد آنا۔ وہ عورت تین ہفتے بعد پھر آئی تو مولانا نے عورت کے لڑکے کو تلقین کی کہ تم زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دو۔ عورت نے کہا مولانا یہ بات تو آپ پہلے دن بھی کہہ سکتے تھے۔ مولانا نے کہا کہ اس دن تک تو میں خود زیادہ میٹھا کھا رہا تھا۔ اب میں نے زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دیا ہے تو تمہارے بیٹے کو اسے ترک کرنے کی تلقین کی ہے۔ ہمارے مبلغین کی عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کو وہ خرابیاں چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں جن میں وہ خود مبتلا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ وہ خود اپنے اندر انقلاب برپا کرپاتے ہیں نہ دوسروں کو کسی انقلاب سے ہمکنار کرپاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اقبال بھی ہماری غیر معمولی رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی میں اصل چیز زبان سے نکلا ہوا لفظ نہیں ہے اصل چیز کہی گئی بات سے، پیدا ہونے والا عمل ہے۔ انسان کو جنت ملے گی تو عمل کی بنیاد پر، انسان جہنم میں جائے گا تو عمل کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں اقبال نے ماضی کے مسلمانوں اور حال کے مسلمانوں کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار، وہ کردار، تُو ثابت وہ سیارہ
اقبال حال کے مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں صحابہ، تابعین یا تبع تابعین سے کیا نسبت؟ تم صرف ’’گفتار‘‘ ہو اور تمہارے بزرگ ’’کردار‘‘ تھے۔ تم ایک جامد ستارہ یا Fixed Star ہو اور تمہارے بزرگ اپنے محور پر رواں سیارہ تھے۔ اقبال کے نزدیک عمل اتنا اہم ہے کہ پوری کائنات ’’صاحب ِ عمل‘‘ کا ساتھ دیتی ہے۔
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے
لیکن اقبال ’’مجرّد عمل‘‘ کے قائل نہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا ہے ک اپنے عمل کو ’’عشق مرکز‘‘ بنائو۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ عشق کے بغیر عمل بھی بڑے نتائج پیدا نہیں کرتا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ علم عشق میں کیسے ڈھلتا ہے؟ ہماری مذہبی روایت میں علم کے تین درجے یا تین مرتبے بیان ہوئے ہیں۔
(1) علم الیقین
(2) عین الیقین
(3) حق الیقین
ان مراتب کی آسان تشریح یہ ہے کہ آپ کو کسی شخص نے بتایا کہ یہ جو آپ کے سامنے گھڑا رکھا ہوا ہے اس میں پانی ہے۔ یہ علم الیقین کی منزل ہے۔ آپ نے آگے بڑھ کر گھڑے میں جھانک کر دیکھ لیا کہ گھڑے میں واقعتاً پانی ہی ہے یہ عین الیقین کا مرحلہ ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ نے ایک گلاس میں پانی انڈیل کر پی لیا تو آپ کو تجربے کی سطح پر معلوم ہوگیا کہ گھڑے میں واقعتا پانی ہی تھا اب اگر آپ سے ساری دنیا بھی یہ کہے کہ گھڑے میں پانی نہیں شربت تھا تو آپ ساری دنیا کو مسترد کردیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مذہبیت کبھی ’’علم الیقین‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پائی اور ’’حق الیقین‘‘ کا تجربہ کروڑوں میں دوچار ہی کو ہو پاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو تو اور کیا ہو؟
عالمی منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ صرف مسلم دنیا ہی قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں۔ جدید مغرب جو اس وقت پوری دنیا کا امام ہے مسلمانوں سے کہیں زیادہ قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ جدید مغربی دنیا آزادی کے تصور کو پوج رہی ہے مگر یہ دنیا مسلمانوں کو آزاد نہیں دیکھ سکتی۔ چنانچہ مغرب نے کہیں مسلمانوں پر بادشاہوں کو مسلط کر رکھا ہے کہیں فوجی آمروں کو اور کہیں بدعنوان سول آمروں کو۔ مغربی دنیا جمہوریت کی علمبردار ہے مگر دنیا کے کسی ملک میں اسلامی تحریک جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آجائے تو مغرب اس کے خلاف سازشیں شروع کردیتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ کامیاب ہوا تو مغرب نے اس پر الجزائر کی فوج چڑھا دی۔ مصر میں صدر مرسی اقتدار میں آئے تو یہاں بھی امریکا نے جنرل سیسی کے ذریعے صدر مرسی کی حکومت گرادی۔ حماس نے فلسطین میں جمہوری کامیابی حاصل کی تو اسے اقتدار میں آنے نہیں دیا گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے کالم نویسوں کو مسلمانوں کے تضادات تو نظر آتے ہیں لیکن مغرب کے بھیانک تضادات نظر نہیں آتے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قول و فعل میں تین ہفتے بعد زیادہ میٹھا مولانا نے ہمارے قول انہوں نے کرتے ہیں رکھتے ہی یہ ہے کہ ہی نہیں ہیں اور نہیں ہو رہے ہیں ہیں کہ ا شکار مگر وہ نے کہا نہیں ا ہے مگر
پڑھیں:
بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
راولپنڈی کے علاقے گلبرگ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں موجود گھر کے صحن میں قدم رکھتے ہی ایک چھوٹی مگر جاندار دنیا نے میرا استقبال کیا۔ کالی، بھوری، سفید اور سرمئی رنگ کی بلیاں صحن میں چھلانگیں لگاتیں، ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتیں اور کبھی کھیل کے نشے میں ایک دوسرے پر جھپٹتی نظر آئیں۔ ہر بلی کی حرکات میں ایک الگ شخصیت چھپی ہوئی تھی۔
کچھ بلیاں میری طرف لپکیں، جیسے یہ مجھے برسوں سے جانتی ہوں، اور کچھ اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں میں مصروف، جیسے دنیا کی ہر خوشی ان کی آنکھوں میں بسی ہو۔
مزید پڑھیں: بلیاں گھاس کیوں کھاتی ہیں؟ طویل تحقیق کے بعد حیران کن وجہ سامنے آگئی
ایک سرمئی بلی ایک کونے میں بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، بالکل جیسے صحن کی نگرانی کررہی ہو، اور ہر چھوٹی حرکت پر نظر رکھ رہی ہو۔ ایک سفید بلی معصومیت کی حد تک کھیل رہی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے قدم، نرم چھلانگیں اور بے ساختہ حرکات دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ لمحہ اس کے لیے وقت کا سب سے بڑا تحفہ ہو۔
اور پھر وہ لمحہ آیا جب ایک بلی میرے قریب آئی، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش رفاقت تھی، ایک ایسا تعلق جو برسوں کی پہچان کی طرح محسوس ہوا۔ اس کے نرم لمس اور پرسکون انداز نے مجھے یہ یاد دلایا کہ بلیاں صرف جانور نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے احساسات اور یادوں کی حامل ایک جاندار دنیا ہیں۔
اس صحن میں قریباً 25 بلیاں موجود تھیں، لیکن ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ شخصیت تھی، ہر بلی کی حرکات، انداز اور کھیلنے کا طریقہ مختلف تھا۔ کچھ شرارتی اور چلبلی، کچھ معصوم اور پرسکون، اور کچھ بالکل خود میں مگن۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرا کہ آخر وہ کون سی بلیاں ہوتی ہیں جو انسانوں کی سب سے جلدی دوست بن جاتی ہیں؟
’ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی‘کیونکہ یہ واضح تھا کہ ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ سب بلیاں برابر فرینڈلی یا محبت بھری نہیں ہوتیں۔ یقیناً کچھ بلیاں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے قریب آنا پسند کرتی ہیں۔
کیونکہ کچھ اپنی دنیا میں مگن تھیں، اور میرے لاکھ چاہنے اور قربت دکھانے پر بھی کسی قسم کی نرمی برتنے کو تیار نہیں تھیں۔
ڈاکٹر قرۃ العین شفقت جو ان بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے، اسی طرح جانوروں کے رویے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ بلیاں فرینڈلی ہوتی ہیں۔ اور کچھ فرینڈلی نہیں ہوتیں۔
’کسی کو ٹچ کرنا اچھا لگتا ہے، اور کسی بلی کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ کسی کو گھلنا ملنا اچھا لگتا ہے، اور کسی کو زرا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ تو اس طرح ہر بلی کی اپنی پرسنالٹی ہوتی ہے۔ کسی کو صرف دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی بلی انسان دوست ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسی لیے جب کوئی ہمارے پاس بلی اڈاپٹ کرنے آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں بلی دے دیں۔ ہم انہیں کبھی بھی یوں نہیں دیتے بلکہ یہ بولتے ہیں کہ آپ آئیے ان کے ساتھ وقت گزاریں، جو بھی بلی آپ کے ساتھ گھل مل رہی ہے، ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔
’ہر نسل کی بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے‘انہوں نے مزید کہاکہ کسی ایک بریڈ کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بریڈ ہیومن فرینڈلی ہے، کیونکہ ہر بریڈ کی ہر بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک بریڈ کی بلی آپ کے ساتھ فوراً گھل مل گئی ہے، تو اس کا یہ ہرگرز مطلب نہیں ہے کہ اس بریڈ کی باقی بلیاں بھی اتنی ہی فرینڈلی ہونگی۔
’لوگ کہتے ہیں کہ ’جنجر کیٹس‘ فوراً آ جاتی ہیں، جبکہ بلیک کیٹس ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتیں، جبکہ ہمارے ہاں بلیک اور جنجر کیٹس دونوں ہیں۔ کچھ جنجر کیٹس بڑی خطرناک ہیں، جبکہ کچھ بلیک کیٹس بہت ہی زیادہ فرینڈلی، ہر کسی کی اپنی پرسنالٹی ہے، اور اسی بنیاد پر کوئی آپ کو ہاتھ لگانے دیتا ہے اور کوئی نہیں، ان کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔‘
بلیوں کی نسل اور ان کی شخصیت کے درمیان تعلق پر کئی سائنسی مطالعات موجود ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلسنکی کے محققین نے قریباً 5 ہزار 700 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا اور پایا کہ مختلف نسلوں کی بلیوں میں سرگرمی، شرمیلاپن، جارحیت اور سماجی میل جول میں واضح فرق ہوتا ہے۔
یہ فرق جزوی طور پر موروثی بھی ہیں، یعنی نسلوں کے درمیان یہ خصوصیات جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہیں۔
ایک اور مطالعہ، جو ’جرنل آف ویٹرنری بیہیویئر‘ میں شائع ہوا، میں 14 مختلف نسلوں کی 129 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بعض نسلیں انسانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور رفاقتی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سفنکس (Sphynx) نسل کی بلیاں سب سے زیادہ فرینڈلی پائی گئی ہیں، جبکہ مین کوون (Maine Coon) اور پرسین (Persian) نسلیں بھی انسانوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے میں مشہور ہیں۔
’بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش کا گہرا اثر ہوتا ہے‘عام طور پر انسان دوست اور فرینڈلی بلیوں میں سفنکس، مین کوون، پرسین، برمی اور سیامی شامل ہیں۔ سفنکس بلیاں اپنی محبت اور توجہ کے لیے مشہور ہیں، مین کوون بڑی اور نرم مزاج ہونے کے باوجود اپنے مالک کے ساتھ گہرا رشتہ قائم کرتی ہیں، جبکہ پرسین پرسکون اور آرام پسند بلی ہے۔ برمی اور سیامی نسلیں بھی انسانی تعلقات میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور مالک کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔
لیکن قرۃ العین کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف نسل ہی ہیومن فرینڈلی بلی کی ضمانت نہیں دیتی، بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش، اس کے بچپن سے سماجی تربیت اور انسانوں کے ساتھ تجربات بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا بلیاں بو سونگھ کر مالک اور اجنبی میں فرق کرسکتی ہیں؟
’لہٰذا، ایک فرینڈلی اور محبت کرنے والی بلی حاصل کرنے کے لیے نسل کے ساتھ ساتھ محبت اور مناسب تربیت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان بلیوں کی فیملی ہسٹری بھی بہت زیادہ معنی رکھتی ہے، کہ اس نے بچن سے بڑے ہوتے تک کیا کچھ دیکھا اور اس معاشرے میں محسوس کیا، یہ اس کی پرسنالٹی کا حصہ بن جاتا ہے، جس کو مد نظر رکھنا نہایت اہم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انسان دوست بلیاں بلیاں راولپنڈی قرۃ العین گلبرگ وی نیوز