ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250921-03-7
شاہنواز فاروقی
پاکستانی اخبارات کے کالم نویس اندھوں میں کانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسئلہ بیان کرتے ہیں، کبھی کبھی مسئلے کا تجزیہ بھی کرتے ہیں مگر وہ یہ کبھی نہیں بتاتے کہ مسئلہ کس نے پیدا کیا۔ مثلاً اکثر کالم نگار پاکستان کے سیاسی بحران پر لکھتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ یہ بحران جرنیلوں اور ان کے آلہ کار سیاست دانوں کا پیدا کردہ ہے۔ اکثر کالم نگار بتاتے ہیں کہ ملک میں آزادی رائے موجود نہیں، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ آزادی رائے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے غائب کیا ہے۔ یاسر پیرزادہ روزنامہ جنگ کے کالم نویس ہیں اپنے ایک حالیہ کالم میں انہوں نے اس بات کا ماتم کیا ہے کہ پاکستان کے مذہبی لوگوں کے قول و فعل میں گہرا تضاد پایا جاتا ہے مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے مذہبی لوگوں کے قول و فعل میں تضاد کیوں موجود ہے۔ اس سلسلے میں یاسر پیرزادہ نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’پرانی بات ہے، دو صاحبان میرے دفتر تشریف لائے، دونوں کی وضع قطع شرعی تھی، پانچ وقت کے نمازی تھے، رمضان کے روزے رکھتے تھے، ایک سے زائد مرتبہ حج کر چکے تھے اور عمروں کی ادائیگی کا کوئی حساب ہی انہیں یاد نہیں تھا۔ انہوں نے سفارش کی کہ ان کے کسی جاننے والے کو اسلام آباد کے فلاں سرکاری اسپتال میں ہائوس جاب کی اجازت دے دی جائے۔ اس اسپتال کے ایم ایس سے میری شناسائی تھی، میں نے اسے فون کیا تو اس نے بتایا کہ ہائوس جاب کے لیے اسپتال نے میرٹ پر مبنی ایک شفاف نظام بنایا ہوا ہے، جن صاحب کی سفارش ہے وہ میرٹ پر پورا نہیں اُترتے۔ یہ بات سن کر میں نے ایم ایس کا شکریہ ادا کیا اور فون بند کرکے ان صاحبان سے معذرت کر لی۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اِس میرٹ کی تعریف کریں گے مگر وہ الٹا مجھ سے ناراض ہو گئے اور یہ کہہ کر چل دیے کہ ایک معمولی سا کام آپ سے نہیں ہو سکا۔
اِس قسم کے واقعات معمول ہیں، پہلے مجھے ایسی باتوں پر غصہ آجایا کرتا تھا، اب نہیں آتا، اب صرف حیرت ہوتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب کوئی ’’با عمل مسلمان‘‘ ایسی حرکت کرتا ہے۔ اگر اِس واقعے میں دو با عمل مسلمانوں کی جگہ دو ملحد کردار ہوتے تو پھر یہ واقعہ لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ مذہبی لوگوں کے نزدیک ملحد کا تو کوئی اخلاقی پیمانہ ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے آپ کسی بھی غیر اخلاقی رویے کی توقع کر سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ مفروضہ سراسر غلط ہے، تاہم فی الحال یہ سوال زیر ِ بحث نہیں، ابھی موضوع بحث یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کی دی ہوئی اخلاقیات کے تابع ہیں وہ اِس قدر اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی شرمندگی اور احساسِ جرم کے، قانون کی خلاف ورزی پر کیسے آمادہ ہو جاتے ہیں؟ پاکستان میں چپے چپے پر مساجد ہیں اور الحمدللہ آباد ہیں، ہر سال ہم پورے احترام کیساتھ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، حج اور عمرے کرتے ہیں، دس محرم کو امام حسینؓ کا سوگ مناتے ہیں اور 12 ربیع الاوّل کی شان و شوکت کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فجر کی اذان کے ساتھ صبح کا آغاز کرنے والے اور عشا کے تین وتر پڑھ کر شب بخیر کہنے والے، اپنا پورا دن کسی بے دین کی طرح گزارتے ہیں؟ وہ قوم جو شریعت کی پابندی کا دم بھرتی ہے، وہ اپنے ہی ملک کے دستور اور قوانین کو اتنی آسانی سے نظر انداز کیوں کر دیتی ہے؟ یہ کروڑوں مسلمان جو ہمہ وقت دین کی عزت و حرمت پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں، 10سیکنڈ کے لیے ٹریفک کے اشارے کی پاسداری کیوں نہیں کرتے، سڑکوں پر گندگی کیوں پھیلاتے ہیں، وضو کرتے وقت پانی کا ضیاع کیوں کرتے ہیں اور روز مرہ کے دنیاوی اور کاروباری معاملات میں اس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جس کی تعلیم ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے دی ہے؟‘‘ (روزنامہ جنگ، 10 ستمبر 2025ء)
مذہب انسان کو انسان بنانے والی سب سے بڑی قوت ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کا چرچا جتنا بڑھ رہا ہے معاشرہ اتنا مذہبی نہیں بن پارہا۔ اس کی وجہ ہے قرآن اہل ایمان سے مخاطب ہو کر صاف کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ یعنی ہمارے قول و فعل میں ایک فاصلہ ہے ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق نہیں۔ یعنی ہم نفاق کا شکار ہیں اور نفاق کی حالت میں ہمارا قول اور فعل ہم آہنگ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیرت طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے جو کچھ کہا اسے پہلے خود بسر کرکے دکھایا۔ کہنے کو ہمارے معاشرے میں کروڑوں لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور کروڑوں لوگ رمضان کے پورے روزے رکھتے ہیں۔ مگر ہماری نمازیں اور ہمارے روزے تک ہمارے کردار کو بدلنے میں ناکام ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب صرف ہمارا ’’قال‘‘ ہے مذہب ہمارا ’’حال‘‘ نہیں حالانکہ ہمارے دین کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے قال کو حال بنا کر دکھائو۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں ہورہا اس لیے ہماری نمازیں اور ہمارے روزے بھی بے اثر ثابت ہورہے ہیں۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا اگر تم اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح تو نماز پڑھو گویا خدا تم کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن ہماری نمازوں میں یہ دونوں کیفیات موجود نہیں۔ چنانچہ ہماری نمازیں بھی ہمیں جھوٹ بولنے، دھوکا دینے، حرام کھانے، دوسروں کا حق مارنے اور قانون توڑنے سے نہیں روکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کے بارے میں صاف کہا ہوا ہے کہ مجھے روزے دار کی بھوک پیاس نہیں اس کا تقویٰ پہنچتا ہے مگر کروڑوں لوگ تقوے کے ساتھ روزہ رکھتے ہی نہیں۔ چنانچہ ان کا روزہ کبھی ان کے کردار کو نہیں بدل پاتا۔ ہمارے معاشرے میں ہزاروں لوگ مبلغ بن کر گھوم رہے ہیں مگر ان کی بات کا کسی پر کوئی گہرا اثر نہیں ہوپاتا۔ اس لیے کہ ان مبلغین میں اخلاص موجود نہیں ہوتا۔ مولانا روم کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت اپنے لڑکے کو لے کر مولانا کے پاس آئی اور کہا کہ مولانا یہ لڑکا بہت میٹھا کھاتا ہے۔ آپ اسے تلقین کریں کہ یہ زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دے۔ مولانا نے عورت سے کہا تین ہفتے بعد آنا۔ تین ہفتے بعد وہ عورت پھر آئی تو مولانا نے کہا تین ہفتے بعد آنا۔ وہ عورت تین ہفتے بعد پھر آئی تو مولانا نے عورت کے لڑکے کو تلقین کی کہ تم زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دو۔ عورت نے کہا مولانا یہ بات تو آپ پہلے دن بھی کہہ سکتے تھے۔ مولانا نے کہا کہ اس دن تک تو میں خود زیادہ میٹھا کھا رہا تھا۔ اب میں نے زیادہ میٹھا کھانا چھوڑ دیا ہے تو تمہارے بیٹے کو اسے ترک کرنے کی تلقین کی ہے۔ ہمارے مبلغین کی عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کو وہ خرابیاں چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں جن میں وہ خود مبتلا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ وہ خود اپنے اندر انقلاب برپا کرپاتے ہیں نہ دوسروں کو کسی انقلاب سے ہمکنار کرپاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اقبال بھی ہماری غیر معمولی رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی میں اصل چیز زبان سے نکلا ہوا لفظ نہیں ہے اصل چیز کہی گئی بات سے، پیدا ہونے والا عمل ہے۔ انسان کو جنت ملے گی تو عمل کی بنیاد پر، انسان جہنم میں جائے گا تو عمل کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں اقبال نے ماضی کے مسلمانوں اور حال کے مسلمانوں کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار، وہ کردار، تُو ثابت وہ سیارہ
اقبال حال کے مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں صحابہ، تابعین یا تبع تابعین سے کیا نسبت؟ تم صرف ’’گفتار‘‘ ہو اور تمہارے بزرگ ’’کردار‘‘ تھے۔ تم ایک جامد ستارہ یا Fixed Star ہو اور تمہارے بزرگ اپنے محور پر رواں سیارہ تھے۔ اقبال کے نزدیک عمل اتنا اہم ہے کہ پوری کائنات ’’صاحب ِ عمل‘‘ کا ساتھ دیتی ہے۔
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے
لیکن اقبال ’’مجرّد عمل‘‘ کے قائل نہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا ہے ک اپنے عمل کو ’’عشق مرکز‘‘ بنائو۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ عشق کے بغیر عمل بھی بڑے نتائج پیدا نہیں کرتا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ علم عشق میں کیسے ڈھلتا ہے؟ ہماری مذہبی روایت میں علم کے تین درجے یا تین مرتبے بیان ہوئے ہیں۔
(1) علم الیقین
(2) عین الیقین
(3) حق الیقین
ان مراتب کی آسان تشریح یہ ہے کہ آپ کو کسی شخص نے بتایا کہ یہ جو آپ کے سامنے گھڑا رکھا ہوا ہے اس میں پانی ہے۔ یہ علم الیقین کی منزل ہے۔ آپ نے آگے بڑھ کر گھڑے میں جھانک کر دیکھ لیا کہ گھڑے میں واقعتاً پانی ہی ہے یہ عین الیقین کا مرحلہ ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ نے ایک گلاس میں پانی انڈیل کر پی لیا تو آپ کو تجربے کی سطح پر معلوم ہوگیا کہ گھڑے میں واقعتا پانی ہی تھا اب اگر آپ سے ساری دنیا بھی یہ کہے کہ گھڑے میں پانی نہیں شربت تھا تو آپ ساری دنیا کو مسترد کردیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مذہبیت کبھی ’’علم الیقین‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پائی اور ’’حق الیقین‘‘ کا تجربہ کروڑوں میں دوچار ہی کو ہو پاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو تو اور کیا ہو؟
عالمی منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ صرف مسلم دنیا ہی قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں۔ جدید مغرب جو اس وقت پوری دنیا کا امام ہے مسلمانوں سے کہیں زیادہ قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ جدید مغربی دنیا آزادی کے تصور کو پوج رہی ہے مگر یہ دنیا مسلمانوں کو آزاد نہیں دیکھ سکتی۔ چنانچہ مغرب نے کہیں مسلمانوں پر بادشاہوں کو مسلط کر رکھا ہے کہیں فوجی آمروں کو اور کہیں بدعنوان سول آمروں کو۔ مغربی دنیا جمہوریت کی علمبردار ہے مگر دنیا کے کسی ملک میں اسلامی تحریک جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آجائے تو مغرب اس کے خلاف سازشیں شروع کردیتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ کامیاب ہوا تو مغرب نے اس پر الجزائر کی فوج چڑھا دی۔ مصر میں صدر مرسی اقتدار میں آئے تو یہاں بھی امریکا نے جنرل سیسی کے ذریعے صدر مرسی کی حکومت گرادی۔ حماس نے فلسطین میں جمہوری کامیابی حاصل کی تو اسے اقتدار میں آنے نہیں دیا گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے کالم نویسوں کو مسلمانوں کے تضادات تو نظر آتے ہیں لیکن مغرب کے بھیانک تضادات نظر نہیں آتے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قول و فعل میں تین ہفتے بعد زیادہ میٹھا مولانا نے ہمارے قول انہوں نے کرتے ہیں رکھتے ہی یہ ہے کہ ہی نہیں ہیں اور نہیں ہو رہے ہیں ہیں کہ ا شکار مگر وہ نے کہا نہیں ا ہے مگر
پڑھیں:
جب چاہا مرضی کی ترامیم کر لیں، سپریم کورٹ کے حکم پر کیوں نہ کیں: ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ملٹری عدالت سے سزائوں پر اپیل کا حق نہ دینے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرنے پر وفاقی سیکرٹری قانون کو 25 ستمبر کو طلب کر لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب چاہے اپنی مرضی کی ترامیم کر لی جاتی ہیں، سپریم کورٹ کا حکم ہے ابھی تک ترامیم کیوں نہیں کی گئیں؟ وفاقی سیکرٹری قانون عدالت پیش ہوکر وضاحت دیں، ملزم کے وکیل نجیب فیصل نے موقف اپنایا کہ ملٹری عدالت میں کی گئی کارروائی اور الزامات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا، ملٹری عدالت نے جاسوسی کے الزام میں بارہ سال سزا سنائی، ملٹری عدالت نے سزا سے قبل الزامات کی فہرست پیش نہیں کی۔ الزامات کی فہرست کے بغیر سنائی گئی سزا کی قانونی حیثیت نہیں، استدعا ہے کہ عدالت الزامات کی فہرست طلب کرے۔