Express News:
2025-09-21@00:08:05 GMT

تبدیلی کا خلاصہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

’’ تبدیلی‘‘ چھ حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر جب یہ کسی انسان کی زندگی میں رونما ہوتی ہے، تو اُس کے وجود کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ تبدیلی کی نوعیت مثبت ہو یا منفی، دونوں حالتوں میں ہی اس کو تسلیم کرنا، انسان کے لیے کافی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ تبدیلی دراصل فطرت کا مزاج ہے اورکائنات میں مسلسل اس کا عمل جاری رہتا ہے، اس دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں ہے جو تبدیلی سے مُبرا ہو۔

تبدیلی انسانی اعصاب پر دباؤ پیدا کرتی ہے، ویسے تو انسان ہر طرح کے ماحول کا عادی ہو جاتا ہے مگر اُس عادی ہونے کی حالت تک پہنچنے میں اُسے کافی دقت پیش آتی ہے۔ ایک بار انسان کسی طرزِ عمل کا مُعتاد ہو جائے پھر کوئی تبدیلی اُس کی زندگی میں ظہور پذیر ہو تو وہ چڑچڑا جاتا ہے، زندگی میں بار بار آنے والی تبدیلیاں انسانی مزاج پر مستقل بیزاری کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔ عموماً انسان اپنی زندگی میں تبدیلی کے خواہشمند تو ہوتے ہیں مگر اُس کی آمد اُن میں سے اکثر کے ہاتھ پاؤں پھولا کر رکھ دیتی ہے۔

 ہر تبدیلی انسان سے اُس کا نیا آپ مانگتی ہے اور اسی طرح وہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتا ہے، بدلتے ہوئے حالات انسان کی پرانی طبیعت و چلن کسی طور قبول نہیں کرتے ہیں۔ بدلاؤ کبھی تو انسان کی زندگی میں خوشگواریت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ اُسے ایک گھٹن زدہ اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے، جہاں سے باہر نکلنے کے لیے انسان کسی نئی تبدیلی کا منتظر رہتا ہے بنا اس امر کو زیرِ غور لائے کہ جس تُبادل کا اُس کو انتظار ہے وہ زندگانی کے رنگ و روپ میں پھر سے چھیڑ چھاڑ پیدا کر دیگی جو معاملات میں مزید بگاڑ کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

تبدیلی دو اقسام کی ہوتی ہے، ایک خالقِ انسان کی طرف سے لائی گئی اور دوسری خلق کی اپنی ضد سے پیدا کی گئی، جو تبدیلی منشائے الٰہی ہو اُس کے آگے ابتدا میں سر تسلیمِ خم کرنا دشوار ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ وہ اپنے ثمرات سے انسان کو نہال کردیتی ہے، جب کہ دوسری طرز کی تبدیلی جس کو انسان اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے کی خاطر قدرت کے مخالف جا کر زبردستی حقیقت بناتا ہے، اُس کے مضر و نفی اثرات نہ صرف انسان کی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں بلکہ آخرت کے حوالے سے بھی اُس کے لیے خیر و عافیت کی کوئی اُمید باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔

تبدیلی پل صراط کی مانند ہوتی ہے، آگ کے دریا کے اوپر تعمیر کیا گیا، ایک تنگ راستہ، یہاں فرق محض اتنا ہے کہ پل صراط پر سے بِنا گرے صرف وہی لوگ کامیابی سے گزر جائیں گے، جن کے اعمال میں نیکیوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس کے برعکس تبدیلی کے کھردرے راستے کو (جس کے نیچے آگ کے بھڑکتے شعلوں کی سی تپش موجود ہے) وہی انسان اپنے قدموں میں اعتماد لیے لڑکھڑائے بغیر پار کر لیتے ہیں جن کا اپنے رب پر ایمان پختہ و مضبوط ہو، جن کے اندر ہمت و حوصلے کا فقدان نہ ہو اور جن کی طبیعت میں لچک کا عنصر موجود ہو۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائی گئی بیشتر تبدیلیوں میں اُس کی مخلوق کے لیے کارآمد راز پنہاں ہوتے ہیں۔ منجانبِ غیب سے آنے والی اس طرح کی تبدیلیاں انسان کو بہت کچھ دکھلانے، بتلانے اورکئی انسانی چہروں پر سے پردے ہٹانے کی غرض سے وقوعِ پذیر ہوتی ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کے ظاہر سے متاثر ہوکر اُس کے باطن میں جھانکے بغیر اُسے ’’ اپنا‘‘ مان بیٹھتا ہے جب کہ حقیقت میں اُس کو دکھائے جانے والا جذبہ فریب اور پتلی تماشے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ انسان سے سب سے زیادہ محبت اُس کا رب کرتا ہے جسے کسی طور گوارا نہیں ہے کہ کوئی دوسرا اُس کے محبوب بندے کو بلاوجہ خوار کرے جس کی زندہ جاوید مثال ’’ ابلیس‘‘ کی شکل میں ازلِ انسانی سے موجود ہے۔

انسانی زندگی دراصل تبدیلیوں کا مجموعہ ہے جدھر کبھی بھی، کچھ بھی ایک جیسا نہیں رہتا ہے جہاں انسان بدلاؤ چاہتا ہے لیکن جلد اُس سے خوفزدہ بھی ہو جاتا ہے۔ جب انسان چھوٹا ہوتا ہے تب وہ بڑے ہونے کے لیے بیتاب رہتا ہے لیکن عمر کے پختہ حصے میں پہنچ کر وہ اپنے معصومانہ دورِ زندگی کی یاد میں ہلکان ہوا پھرتا ہے۔ تبدیلی انسان کی طبیعت میں بے قراری کی وجہ بنتی ہے کیونکہ انسان کا سارا قرار یکے بعد دیگرے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

دنیا میں آج کل تبدیلی ماضی کی نسبت زیادہ تیزی سے رونما ہو رہی ہے، ہر چیز ہی ٹھہراؤ کے معنی سے انجان ہوئی بیٹھی ہے۔ قدرت نے تو اپنے اندر بدلاؤ کے عمل کو اتنا تیز کر لیا ہے کہ اس کی رفتار سے قدم نہ ملانے والا انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور جس پر آگے آنے کے لیے کانٹوں سے لیس دشوار گزار راستوں پر دوڑ لگانا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ اس کٹھن امتحان میں فتح یاب ہونے والے انسان کی بقیہ زندگی چین و سکون سے کٹ جاتی ہے جب کہ ناکامی اپنے مقدر میں لکھوانے والا تبدیلی کے انبار میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زندگی میں کی زندگی انسان کی تبدیلی ا ہوتا ہے رہتا ہے جاتا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری

لاہور ( نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے ڈاکٹر ضیاء اللہ خان بنگش کی اہلیہ اور صحافی فیضان بنگش کی والدہ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ وہ تعزیت کیلئے مرحومہ کے اہل خانہ سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہنچیں اور مرحومہ کے بلند درجات کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر پارلیمانی سیکرٹری شازیہ کامران بھی وزیر اطلاعات کے ہمراہ تھیں۔ ماں کا سایہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔ والدہ کی جدائی اہل خانہ کے لیے ناقابلِ تلافی صدمہ ہے اور ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ 

متعلقہ مضامین

  • جوائنٹ فیملی سسٹم زوال پذیر کیوں؟
  • مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
  • آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن
  • بدقسمتی سے آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن
  • ایف بی آر کا شاہانہ لائف اسٹائل دکھانے والے امیروں کیخلاف گھیرا تنگ
  • ارباز خان نے خوشبو خان سے طلاق کی تصدیق کر دی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ’دل کا خانہ خالی ہوگیا‘، اداکار ارباز خان کی خوشبو سے طلاق کی تصدیق
  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری