کراچی:

گرومندر کے قریب ایمبولینس میں آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کرتے ہوئے پوری ایمبولینس کو اپنی لپٹ میں لے لیا۔

فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ آگ ریسکیو 1122 کی ایمبولینس میں لگی تھی جس کی اطلاع پر فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پالیا جبکہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگنے کا بتایا جا رہا ہے۔

ایمبولینس میں آگ لگنے کے دوران خوش قسمتی سے کوئی جان نقصان نہیں ہوا گاڑی میں دھوان بھرتے ہی ڈرائیور باہر نکل آیا جبکہ ایمبولینس میں کوئی مریض نہیں تھا ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایمبولینس میں

پڑھیں:

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

 کوئی بھی مرض یک دم شدت اختیار نہیں کرتا، بلکہ ابتدائی علامات میں ظاہر ہوتا ہے جسے ایک عام شخص طبیعت کی معمولی ناسازی سمجھ کرگھریلو ٹوٹکوں سے اپنے علاج کا آغازکرتا ہے۔ افاقہ نہ ہونے پر پھر ارد گرد کے لوگ یا قریبی رشتے دار اسے علاج کے مفت مشورے دینا شروع کردیتے ہیں کہ نظر بد لگ گئی ہے، فلاں مولوی سے دم کروا لو۔کوئی کہتا ہے کہ صدقہ دو، آسیب کا معاملہ ہے جن اترواؤ۔ وغیرہ وغیرہ اس چکر میں بندہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ بے تحاشا رقم خرچ ہو جاتی ہے اور مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ادھر مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اچھا بھلا تندرست انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے، پھر مشوروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر ماہر ہے، اس سے علاج کروائو۔ کوئی حکیمی توکوئی ہومیو پیتھک علاج کرانے کا کہتا ہے۔ 

 خود ساختہ مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد مریض بستر مرگ کی حالت تک پہنچ جاتا ہے، تب کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی دور میں مسیحا ڈاکٹر ملنا خوشی بختی والی بات ہوگی ورنہ قدم پر قدم قصائی نما ڈاکٹرز اپنی دکانیں سجا کر بیٹھے ہیں جن کی نظریں مریض کے مرض پرکم جیب پر زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ڈاکٹر باتوں باتوں میں مریض کی مالی پوزیشن پر تحقیق کر لیتا ہے کہ ’’مرغا‘‘ مالی طور پر تگڑا ہے کہ کمزور وہ اسی حساب سے اپنی چھری تیزکر لیتا ہے۔ مریض سے ڈاکٹر بھاری بھرکم فیس وصول کرکے علاج کا آغاز کرتے ہیں اور من پسند لیبارٹریوں سے مختلف ٹیسٹ کروانے سے لے کر من پسند میڈیکل اسٹورز سے دوائیاں خریدنے سے ہوتا ہوا علاج کا ڈراپ سین ڈاکٹر کے ان الفاظ پر ہوتا ہے۔ مریض کی کنڈیشن بہت ہی خراب ہے، اسے فورا سول، جناح یا پھر عباسی اسپتال میں داخل کرا دو۔ 

عزیز و اقارب کے مشورے شروع ہوجاتے ہیں کہ فلاں فلاں اسپتال میں مریض کو داخل کیا جائے، وہاں اچھا علاج ہوتا ہے۔ بچارے مریض کے گھر والے جوکہ مریض کے ساتھ ساتھ خود بھی آدھے مریض بن چکے ہوتے ہیں۔ پریشانی کی حالت میں ایمبولینس منگوا کر اپنی استطاعت کے مطابق مریض کو لے کر کسی اسپتال کی جانب رواں دواں ہوجاتے ہیں۔
 اگر سرکاری اسپتال ہوا تو ان الفاظ کے ساتھ مریض کا استقبال کیا جاتا ہے کہ’’ اس وقت کوئی بیڈ خالی نہیں ہے۔ فی الحال مریض کو یہ دوائیاں دیتے رہو، اس سے تکلیف میں آرام آجائے گا۔کچھ دنوں بعد کوئی بیڈ خالی ہوا تو مریض کو داخل کرلیا جائے گا،گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔‘‘

یوں مریض گھرکی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور اس وقت انھیں جو بھی دعا یا قرآنی آیات یاد ہوتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ مریض زندہ بچ جاسکے، مگرگھر پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں مریض سانس کی آخری ہچکی لے لیتا ہے، قصہ تمام۔ صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ عزیز و اقارب تسلیاں دینے آجاتے ہیں اورکہنا شروع کردیتے ہیں کہ اللہ کو یہی منظور تھا۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات فرضی نہیں ہیں۔ ہم اور آپ جس بے حس معاشرے میں سانسیں لے رہے ہیں وہاں یہ معمول ہیں۔ اب ذرہ ان حالات و واقعات کو الٹ تصورکرتے ہوئے شہرکراچی کے ناگفتہ بہ حالات سے موازنہ کریں، تو بہت کچھ آشکار ہوجائے گا۔ بند عقل کے تالے کھل جائیں گے، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائے گی اور خود کوکوستے رہ جائیں گے، آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔ 

پنتالیس سال پہلے کراچی کے بھلے حالات کس طرح معمولی خرابی کی وجہ سے بڑھتے بڑھتے انتہائی حد تک ناگفتہ بہ ہوتے رہے، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، جن کو مسیحا سمجھا وہی قاتل نکلے۔ 

 ایک مرض کے بطن سے مختلف امراض جنم لیتے رہے ہیں۔ ان جملہ امراض کے خاتمے کے لیے کیسی کیسی تدبیریں اپنائی گئی۔ کیسی کیسی تجاویز پیش کی گئیں۔ حتیٰ کہ مرض کو قابو کرنے کے لیے پرہیزگاری بھی کی گئی۔آپریشن و سرجری کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ معالج تبدیل کیے گئے، اسپتال بدلے گئے، لیکن سب کچھ بے سود ثابت ہوتے رہے ہیں، جب کہ مریض نیم پاگل ہوچکا تھا۔ بالآخر مرض بڑھتے بڑھتے ناسور ہوگیا اور اس کو بدن سے کاٹنا آخری چارہ سمجھا گیا، سو اس پر بھی عمل کیا گیا۔ 

بظاہر ناسور تو ختم ہوگیا، لیکن ناسورکی وجہ سے بدن کے مختلف حصوں پر جو مضر صحت اثرات مرتب ہوچکے تھے اب انھیں کم کرنے کے لیے یا ختم کرنے کے لیے پھر نئے نئے نسخے آزمائے گئے، لیکن حاصل جمع خرچ کے سوا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اب کراچی کا مرض ایک ناسور کا روپ دھار چکا ہے۔

 اب کراچی کا علاج اس ڈنڈے سے کیا جا رہا ہے جس سے چیخ بھی نہیں نکلتی۔ کراچی کو جیتے جاگتے لوگوں کا قبرستان بنا دیا گیا ہے۔ جہاں زندہ ہرچند کے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا شوشا پرانا ہے، لیکن ایک مرتبہ پھر اس پرانے شوشا پرگزارا کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی اجرک والی نمبر پلیٹ کا ٹوپی ڈرامہ رچایا جاتا ہے تو کبھی نیا صوبہ بنانے کا شوشا چھوڑا جاتا ہے۔ 

 کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں روا رکھا جاتا رہا ہے؟ کیوں جنوبی ایشیاء کے خوب صورت شہرکراچی کو سندھ کا ایک پسماندہ ترین شہر میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوششیں کی جارہی ہیں؟

کراچی کا مال کھانے میں سب کو مزا آتا رہا ہے۔ بہت سے اترے ہوئے۔ مرجھائے ہوئے چہروں پر مراعات کا نور اب بھی چمک دھمک کے ساتھ جلوہ گر ہے، لیکن کراچی میں بسنے والے مسکین کچلے ہوئے غریب عوام اور تباہ حال کراچی کے وجود پر رحم کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ سب کے سب کراچی کے نام کو استعمال کر کے کراچی کا استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی کا کوئی سچا والی وارث نہیں۔ کراچی لاوارث شہر بن چکا ہے، احساس محرومی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ 

خدارا، ہوش کے ناخن لیں۔ دلوں کو صاف رکھا جائے۔ کراچی کو پاکستان کا حصہ سمجھا جائے۔ کراچی کے دم سے ہمارے پیارے پاکستان کی معیشت رواں دواں ہے۔ معیشت کے شہ رگ کراچی کو انسانوں کے رہنے کے لیے قابل بنایا جائے۔کراچی کو نفرت کی نہیں، محبت کی ضرورت ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • کراچی: الآصف اسکوائر کے قریب پولیس اور بھتہ خوروں کے درمیان فائرنگ، دو ملزمان ہلاک
  • مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
  • کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں 2 افراد جاں بحق
  • درہ آدم خیل، کوئلہ کان میں دبنے والے ریسکیو 1122 کے 2 اہلکار شہید
  • کراچی: گلبائی پُل پر گاڑی کی ٹکر سے 2 موٹرسائیکل سوار جاں بحق
  • سوئس ائر لائن کے طیارے میں ٹیک آف سے قبل آگ بھڑک اٹھی
  • سوئس ائر طیارے میں اچانک آگ بھڑک اٹھی
  • چترال: برساتی ریلے میں مسافر گاڑی پھنس گئی، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
  • موسلادھار بارشوں کے بعد سیلاب، گرم چشمہ تا چترال روڈ مختلف مقامات سے بند