Express News:
2025-11-07@12:23:30 GMT

بُک شیلف

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد
آئین کی تاریخ اور ایک عہد کی دستاویز

اردو صحافت اور فکری دنیا میں الطاف حسن قریشی ایک ایسا نام ہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصے سے قاری کے ذہن و دل کو جلا بخش رہا ہے۔ معروف ’اردو ڈائجسٹ‘ کے توسط سے انہوں نے صحافت میں ایک انقلاب برپا کیا اور نئی نسلوں کو علمی و فکری سرمایہ عطا کیا۔ اب ان کی تازہ تصنیف ’میں نے آئین بنتے دیکھا‘ اردو کے قارئین کے لیے آئینی و سیاسی تاریخ کا قیمتی خزانہ ہے۔

یہ کتاب دراصل ایک سلسلہ کتب کی پہلی جلد ہے جس میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکمرانی کے دور سے لے کر 1857 کی ناکام جنگِ آزادی اور پھر انگریزوں کے جبر و استبداد تک کے حالات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد 24 ابواب میں مسلمانوں کی آئینی و سیاسی جدوجہد کے اہم سنگِ میل سامنے آتے ہیں — سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک، تقسیمِ بنگال، مسلم لیگ کا قیام، جداگانہ انتخابات، 1919ء کی اصلاحات، تحریکِ خلافت، سائمن کمیشن، اقبال کا خطب آلہ آباد، گول میز کانفرنس، قرارداد پاکستان، شملہ کانفرنس، کابینہ مشن، تین جون کا منصوبہ اور بالآخر قیام پاکستان تک۔

الطاف صاحب محض مؤرخ نہیں، وہ خود اس عہد کے عینی شاہد اور فکری رہنما بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا بیان محض روایتی تاریخ نہیں بلکہ ایک زندہ تجربے کی بازگشت ہے۔ وہ پروپیگنڈے کی گرد میں دبے حقائق کو ٹھوس دلائل اور مستند حوالوں کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان محض انگریزوں کے عطیے سے نہیں بنا بلکہ یہ ایک عظیم جدوجہد، قربانی اور نظریے کی کوکھ سے وجود میں آیا۔

کتاب میں انگریز دور کی قانون سازی اور کانگریس کے پس منظر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ کانگریس کے قیام کا مقصد ہی دراصل مسلمانوں کے حقوق کو دبانا اور انگریزوں کے خلاف ممکنہ بغاوت کی ہوا نکالنا تھا۔ اسی پس منظر میں 1935 کے ایکٹ اور دیگر اصلاحات کو مسلمانوں نے مجبوری کے تحت قبول تو کیا مگر اپنی جدوجہد آزادی ترک نہ کی۔ یہی جدوجہد بالآخر پاکستان کی بنیاد بنی۔

کتاب کی ایک ایک سطر نظریہ پاکستان کی محبت اور آئین و قانون کی بالادستی کی اہمیت سے معمور ہے۔ مصنف نے جس عرق ریزی سے ماضی کے اعداد و شمار اور دستاویزی شواہد یکجا کیے ہیں، وہ اسے ایک تحقیقی اور حوالہ جاتی دستاویز بناتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اسلوب کی شگفتگی اور بیانیے کی روانی کتاب کو خشک تاریخی نوشتوں کے بجائے ایک دلچسپ اور جاذبِ نظر مطالعہ بنا دیتی ہے۔ ’میں نے آئین بنتے دیکھا‘ محض ایک کتاب نہیں بلکہ آئینی شعور کی بیداری کا پیغام ہے۔ یہ کتاب یاد دلاتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل آئین اور قانون کی بالادستی سے وابستہ ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جسے اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ کتاب ہمارے ماضی کو روشن کرتی ہے، حال کو سمجھاتی ہے اور مستقبل کے لیے سمت متعین کرتی ہے۔ 

یہ کتاب طلبہ، وکلاء ، صحافیوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں سب کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہے۔ تاریخ اور آئینی ارتقاء کے حوالے سے یہ ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر پاکستان کے مستقبل کا فکری و سیاسی شعور استوار ہو سکتا ہے۔ اہل علم کے نزدیک یہ کتاب کلاسیکی کاموں کا تسلسل محسوس ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ ہر پاکستانی کے کتب خانے میں موجود ہونی چاہیے۔ کتاب 264 صفحات پر مشتمل ہے، مضبوط جلد اور اعلیٰ معیارِ طباعت کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ قیمت دو ہزار روپے ہے جو عام قاری کے لیے کچھ زیادہ محسوس ہوسکتی ہے، مگر اس کے علمی وزن اور فکری قدروقیمت کے مقابلے میں یہ معمولی ہے۔ کتاب ’قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘، بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ (03000515101) سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

قافلے دل کے چلے
مصنف: الطاف حسن قریشی، قیمت: دو ہزار روپے
ناشر:’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا)‘
ملنے کا پتہ: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ(0300-0515101)

جناب الطاف حسن قریشی کا پہلا سفر حرمین شریفین ۱۹۶۷ میں ہوا، جب سعودی حکومت کی دعوت پر وہاں گئے۔ یہ پہلا سفر کئی اعتبار سے یادگار رہا۔ گھر سے کراچی اور وہاں سے سعودی عرب کی طرف اڑان بھرنے تک، انھیں جن حالات و واقعات سے گزرنا پڑا، وہ پڑھنے والے کی آنکھیں کھول دیتے ہیں۔یہ جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ دلچسپ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ سعودی عرب کی دعوت پر حج کے لیے جانے والے کو بھی، پاکستانی حدود سے نکلنے تک، ہر ایک قدم پر رشوت دینا پڑی۔ اگر وہ یہ زائد پیسے ادا نہ کرتے تو کبھی سرزمین مقدس تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ انھیں سعودی عرب میں بھی، بعض مقامات پر کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ سفرنامہ نگار نے کمال خوبصورتی کے ساتھ لطیف طنز سے کام لیتے ہوئے اس نظام کی ساری کہانی بیان کی۔

جناب الطاف حسن قریشی نے حج کے تمام ارکان کی ادائیگی اور بعد ازاں مسجد نبویؐ میں حاضری کا احوال ایمان افروز انداز میں بیان کیا ہے۔ پڑھتے ہوئے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا جو لکھنا چاہتا ہے، عشق کی وارفتگی میں لکھ نہیں پا رہا۔ ہاتھ کپکپاتے ہیں، اور زبان کو بھی کم مائیگی کے احساس کا سامنا ہوتا ہے۔ دراصل حج کا تجربہ ہی اس قدر عظیم الشان ہوتا ہے کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس کے شایانِ شان الفاظ اور جملے بہ آسانی میسر نہیں آتے۔ البتہ اس تجربے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

سفرنامہ نگار کو حج کے آٹھ ماہ بعد شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا انٹرویو لینے اور سعودی عرب میں ایک ماہ سے زائد قیام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران انھیں سعودی عرب کی حکومتی شخصیات کے علاوہ عام لوگوں سے بات چیت کے مواقع میسر آئے۔ ان میں اساتذہ بھی تھے، صحافی بھی اور سعودی معاشرے کے دیگر ممتاز لوگ بھی۔

الطاف صاحب کو مزید کئی بار حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کا مختصر لیکن جامع احوال بھی اسی کتاب میں شامل ہے۔ ان تمام اسفار مقدسہ میں انہوں نے سعودی عرب کے وہ علاقے بھی دیکھے جہاں کم ہی لوگ گئے ہوں گے۔

پہلے سفر حج سے واپسی پر الطاف صاحب نے کویت و اردن کا راستہ اختیار کیا۔ اردن کے فلسطینی کیمپ میں بھی گئے۔ وہاں کے مناظر بھی بیان کیے جو روح کو تڑپاتے ہیں۔ کتاب کے آخری ابواب میں جناب الطاف حسن قریشی نے نظام حج میں بنیادی اصلاحات بھی تجویز کی ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے 

’پاکستان کو ملائیشیا جیسا حج ماڈل اپنانا چاہیے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ طویل مدت سے وہاں ایک حج فاؤنڈیشن قائم ہے جو پوری طرح آزاد ہے۔ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین اس کے نام پر حج فاؤنڈیشن میں ایک مقررہ رقم جمع کروانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ رقم کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ فاؤنڈیشن اس جمع ہونے والے سرمائے سے کاروبار کرتی ہے جس کا منافع رقم کے ساتھ ساتھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ بالعموم بیس، بائیس برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اس کے نام اتنا سرمایہ جمع ہوتا ہے جس سے نوجوانی ہی میں فریضہ حج ادا کرلیتا ہے۔‘

اسی طرح کچھ دیگر تجاویز بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ پاکستانی حکومت کے لیے ہیں اور کچھ سعودی عرب کی حکومت کے لیے۔ حج کے سفرنامے پر قلم اٹھانا ہمیشہ دشوار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہوتا ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک خاص تعلق کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ پھر اگر تحریر کا خالق الطاف حسن قریشی جیسا استادالاساتذہ ہو تو تبصرہ مزید نازک مرحلہ بن جاتا ہے۔ تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ’قافلے دل کے چلے‘ محض ایک سفرنامہ نہیں بلکہ ایمان، دردِ دل، تاریخ اور اصلاحی فکر کا حسین امتزاج ہے۔ یہ کتاب قاری کے لیے نہ صرف روحانی سرور کا سامان فراہم کرتی ہے بلکہ اسے یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے اجتماعی نظام کو کس طرح زیادہ شفاف، آسان اور بامقصد بنا سکتے ہیں۔

سفرنامہ حج کا انتساب نہایت پر اثر اور ایمان افروز ہے:

’ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی دعا کے نتیجے میں مبعوث ہونے والے خاتم النبیین حضرت محمدؐ کے نام! جن کی زندگی قرآن حکیم کی عملی تفسیر تھی اور جنھوں نے بنی نوع آدم کو انسانی حقوق کا سب سے پہلا عالمی منشور عطا کیا۔‘

یادداشت کی گرہیں کھولنے والی کتاب

جناب ڈاکٹر فاروق عادل سے تعارف کو عشرے بیت چلے ہیں، شاید یہ یکطرفہ محبت جیسا تعلق تھا۔ البتہ پہلی ملاقات قریباً ایک عشرہ پہلے ہوئی۔ تب سے اب تک بے شمار ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ کراچی یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی، کراچی ہی میں صحافت سے وابستہ ہوئے، ایک طویل عرصہ رسائل و جرائد اور پھر ٹیلی ویڑن چینلز سے وابستہ رہے۔ مرحوم صدر ممنون حسین کے مشیر بھی رہے، آج کل ’رحم اللہ العالمین و خاتم النبین ؐاتھارٹی‘ کے رکن ہیں۔ اس سارے سفر کے دوران وہ تحقیق و تصنیف کا کام بھی کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلی بار ملتے ہوئے جو تاثر قائم ہوا، وہ ہر ملاقات میں قائم رہا اور اب تک قائم ہے۔ اور ان کی ہر تحریر، ہر کالم اور ہر کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی وہی تاثر قائم رہا۔ جس انداز اور اسلوب سے لکھتے ہیں، اسی انداز اور اسلوب سے بولتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر لکھیں یا تاریخ پر یا پھر شخصیات پر، وہاں سسپنس کسی ہوش ربا کہانی جیسا موجود ہوتا ہے۔ پڑھنے والا قدم قدم پر ٹھٹھکتا ہے۔ اور پھر ایک نئی حقیقت سے روشناس ہوتا ہے۔

یا پھر ان کے اسلوب کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی تحریر میں ہر اگلے لمحہ ایک نئی گرہ کھول رہے ہوتے ہیں۔ اور خوب کھولتے ہیں۔ وہ ایک معمار جیسا کام کرتے ہیں، دلیل کی ایک اینٹ کے بعد دوسری اینٹ رکھتے چلے جاتے ہیں، یوں ایک مضبوط دیوار کھڑی کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زیر نظر کتاب ’ہم نے جو بھلا دیا، دراصل تاریخ پاکستان کے گم شدہ اوراق کا مجموعہ ہے جو ایک ناول جیسا مزہ دیتا ہے۔ ذرا دیکھیے تو سہی، آغاز کس قدر فسوں خیز ہے:

’دو میل کی پہاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے سورج کا نظارہ دیدنی ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے جب دھوپ اپنا رنگ بدل کر منظر کا حصہ بنتی ہے تو دیکھنے والا مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت پرتھوی ناتھ وانچو پر طاری ہوئی۔ یہ نوجوان ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کا ایک اہلکار تھا جو معمول کے دورے پر یہاں پہنچا اور فطرت کی دل کشی کو دل دے بیٹھا۔ وہ ابھی اس منظر میں کھویا ہوا ہی تھا کہ اسے خوف میں ڈوبی ہوئی ایک چنگھاڑ سنائی دی: ’ دشمن اگیا، دشمن آگیا‘

یہاں سے تاریخ پاکستان کا پہلا گم شدہ ورق شروع ہوتا ہے اور پھر کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ منزلیں ٹاپتی چلی جاتی ہے۔ پہلے باب میں بہت سے ایسے حقائق پڑھنے کو ملتے ہیں جو اس سوال کا جواب ہیں کہ تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان کو کیوں نہ مل سکا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی تردید سرحد پار کے مورخین بھی نہیں کرسکتے۔ دوسرے باب میں اس سوال کا جواب ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے ماسکو کی بجائے واشنگٹن کو کیوں اہمیت دی؟

تیسرا باب ’ سندھی مہاجر کشمکش کی پہلی اینٹ‘ ہے۔ اس باب سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے حکومت سندھ کو کراچی سے نکل جانے کو کیوں کہا؟ نئی مرکزی حکومت شہر کے نواح بالخصوص ملیر میں اپنے دفاتر قائم کرنے کے بجائے سندھ حکومت کو شہر سے نکالنے پر کیوں بضد تھی؟ حالانکہ قائد اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ کراچی میں مرکزی حکومت عارضی طور پر قائم کی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ مرکزی حکومت ہمیشہ کے لیے سندھ حکومت کو کراچی سے نکال باہر کرنا چاہتی تھی۔

اسی کشمکش کا ایک مظہر ماڑی پور ایئر پورٹ پر کھڑے چھ سیبر طیارے بھی تھے جنھیں وزیر اعظم لیاقت علی خان بھارت کے حوالے کرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ سندھ نے ماڑی پور ایئر بیس پر پولیس تعینات کردی کہ طیارے بھارتی حکام کے حوالے نہ کیے جاسکیں۔

تیسرے باب کا تعلق بھی پاکستان کے ابتدائی برسوں سے ہے جب آٹے کا بحران پیدا ہوا اور پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین ’ ہاضم الدین‘ پکارے جانے لگے۔ یہ انہی دنوں کا قصہ ہے جب ایک طرف بھارت کی قیادت چاہتی تھی کہ پاکستان کے قیام کا فیصلہ غلط قرار پائے، دوسری طرف ہمارے ہاں حسن تدبیر کے بجائے بے تدبیری غالب تھی۔

یہی کتاب بتاتی ہے کہ پنجاب کی ایسی تقسیم جس کی وجہ سے آزادی کے وقت بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی، قتل و غارت گری ہوئی، کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ ہوا، اور جو آج بھی خونچکاں داستانیں رقم کر رہا ہے، اس کے پیچھے باؤنڈری کمیشن تھا، اور اس کمیشن کے ایک رکن جسٹس منیر تھے۔ وہی جسٹس منیر جو قیام پاکستان کے بعد بار بار آئین اور انصاف کا خون کرتے رہے۔کتاب میں ون یونٹ کی کہانی بھی بیان کی گئی کہ کیسے ایک کام جو علاقائیت کے خاتمے کے لیے کیا گیا تھا، وہ علاقائیت پرستی کا ایسا طوفان لایا۔ کتاب میں گوادر کا قصہ بھی ہے، اس روز کا تذکرہ بھی ہے جب ایوان پارلیمان لہولہان ہوا تھا، اسپیکر قومی اسمبلی کو قتل کردیا گیا تھا۔

اب اگلے ابواب کے عنوانات ملاحظہ فرمائیے: پہلی جلاوطنی، بس اتنی سی بدعنوانی؟ کیا یہ کشمیر کا درد تھا؟ تاشقند کی بلی، پہلا یوم دفاع، عشرہ ترقی سے چینی چوری تک، بے گناہ خون کا انتقام، ان کہی ہی رہ گئی جو بات، جب ٹوٹ گیا سلسلہ تکلم کا، تحریک آزادی یا بغاوت؟ حیدر آباد کے اسیر، لٹنا سجی سجائی دکان کا، انتشار میں مخفی پھندا، فوج آتی ہے تو آنے دو، تلاوت ہوئی کہ نہیں ہوئی؟ ناکام تحریک کی کامیابی، اعتماد کا ووٹ، تنہا سپاہی کی جنگ، ایوان اقتدار میں لینڈنگ، ضلعی انتظامیہ کا قتل، مہنگائی کا راز، 22 نہیں 31 خاندان، یہ توہم کا کارخانہ ہے۔۔۔۔۔ یہ سب ابواب تاریخ کی دلچسپ اور چونکا دینے والی نئی تعبیر و توضیح ہے۔

’ہم نے جو بھلا دیا‘ ان لوگوں کے لیے بہ طور خاص ہے جو مطالعہ پاکستان کا ازسر نو مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب صحافت کے طلبہ و طالبات کو بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کسی واقعے کا سراغ لگانا، تحقیق کرنا، غیرجانبدار ہوکر ایسے دلچسپ انداز میں پیش کرنا کہ پڑھنے والا خود ہی نتیجہ پر پہنچ جائے۔

چار سو چونتیس صفحات کی مجلد کتاب محض 1600 روپے میں قلم فاؤنڈیشن بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ(رابطہ: 0300-0515101) سے مل سکتی ہے۔

ایک اہم سیاسی وصیت

ادب اور سیاست کے سنگم پر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف قلم کی طاقت سے بلکہ اپنے فکری وڑن سے بھی معاشرے پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ قیوم نظامی انہی ممتاز شخصیات میں شامل ہیں۔ سابق وفاقی وزیر مملکت ہیں، سینئر سیاستدان ہیں، معتبر محقق اور ایک بڑے قومی روزنامہ کے معروف کالم نگار ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وطن عزیز پاکستان کے فکری، نظریاتی اور عملی مسائل پر غور و فکر کرتے، اسے زیر بحث لاتے گزارا ہے۔

ان کی تازہ ترین تصنیف ’سیاسی وصیت‘بظاہر ایک مختصر کتاب ہے مگر اپنی معنوی گہرائی اور فکری وسعت کے اعتبار سے نہایت بھرپور ہے۔ اس میں مصنف نے پاکستان کے بنیادی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی مسائل کا نہ صرف تجزیہ کیا ہے بلکہ ان کے حل کے لیے ایک واضح فکری روڈ میپ بھی پیش کیا ہے۔

کتاب کے ابواب میں درج ذیل موضوعات پر خاص طور پر روشنی ڈالی گئی ہے:

٭ پاکستان کی سیاست میں درپیش چیلنجز اور ان کے تاریخی پس منظر، ٭ معاشی و معاشرتی بحرانوں کی جڑیں اور ان کا تدارک، ٭ عسکری قیادت کا کردار اور اس کا ملکی پالیسیوں پر اثر، ٭ حکومتی نظام، آئینی ترامیم، اور ریاست پر جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ گرفت، ٭ قومی اتحاد کی ضرورت اور تعلیمی اصلاحات کی اہمیت

جناب قیوم نظامی کی تحریر کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخ کے سچ کو بیان کرنے میں مصلحت سے گریز کرتے ہیں۔ وہ مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بیان میں سادگی، روانی اور غیر جانبداری جھلکتی ہے۔ ان کی یہ کتاب محض ایک تنقیدی تجزیہ نہیں بلکہ ایک عملی وصیت ہے، ایک فکری پیغام ہے جو خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ہے۔ مصنف کا پیغام دو ٹوک ہے: اگر پاکستان کی موجودہ اور آنے والی نسل اپنی سوچ بدلے، انگریز دور سے ورثے میں ملے بوسیدہ نظام کو ترک کرے، اور متحد ہو کر ترقی و استحکام کی راہ اپنائے، تو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ قلم فاؤنڈیشن نے کتاب کو معیاری طباعت، مضبوط جلد، اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا ہے، جس پر قیوم نظامی کی باوقار تصویر کتاب کی وقعت میں اضافہ کرتی ہے۔ 300 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب، محض 1000 روپے کی قیمت پر، ایک قیمتی فکری سرمایہ ہے۔

اگرچہ یہ کتاب ہر پاکستانی کے لیے پڑھنے کے قابل ہے، لیکن خاص طور پر اساتذہ، طلبہ، محققین، اور پالیسی سازوں کے لیے یہ ایک فکری رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کا مواد تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں شامل ہونا چاہیے تاکہ نوجوانوں تک یہ پیغام وسیع پیمانے پر پہنچے۔ ’سیاسی وصیت‘ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک عہد کی دستاویز ہے۔ الغرض یہ قیوم نظامی کے فکری سفر کا نچوڑ ہے، جو مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن دکھاتا ہے۔ یہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو پاکستان کو ایک بہتر، منصفانہ، اور ترقی یافتہ ملک دیکھنے کا خواب رکھتا ہے۔ 

کتاب حاصل کرنے کے لیے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ(0300-0515101) سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الطاف حسن قریشی قلم فاو نڈیشن سعودی عرب کی نہیں بلکہ ا قیوم نظامی کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کی پاکستان کو بینک سٹاپ اور فکری کتاب میں ہوتا ہے کے ساتھ سکتا ہے کرتی ہے محض ایک اور پھر یہ کتاب یہ ایک کے لیے کیا ہے اور ان اور اس

پڑھیں:

آؤٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما ہوتا تھا‘ اس دور میں فلم کا ٹکٹ حاصل کرنا شیر کی مونچھ کا بال توڑنے سے مشکل ہوتا تھا‘ سینما کے سامنے چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی جس کے سامنے سیکڑوں لوگ قمیضیں اتار کر ایک دوسرے سے بھڑ رہے ہوتے تھے اور جس کا ہاتھ کھڑکی کے اندر پہنچ جاتا تھا وہ مٹھی کھول دیتا تھا‘ اس میں پانچ یا دس روپے کا چڑمڑ نوٹ ہوتا تھا‘ ٹکٹ کیپر نوٹ لے کر مٹھی میں ٹکٹ داب دیتا تھا اور وہ شخص جیسے تیسے ہاتھ کھینچ کر باہر نکال لیتا تھا‘ وہ اس کے بعد قمیض پہنتا تھا اور فاتح کی طرح سینما ہال میں داخل ہو جاتا تھا‘ انتظامیہ ٹکٹ بلیک بھی کرتی تھی‘ یہ اپنے عزیزوں‘ دوستوں یا ملازموں کو پچاس ساٹھ ٹکٹ دے دیتی تھی اور یہ لوگ ہال کے سامنے کھڑے ہو کر ’’دس کا بیس‘‘ کی سرگوشیاں کرتے رہتے تھے۔

 اس کا مطلب ہوتا تھا تم اگر دس روپے کے ٹکٹ کے بیس روپے ادا کردو تو کھڑکی پر ذلیل ہونے کے بجائے آسانی سے ہال میں داخل ہو سکتے ہو‘ صدر آصف علی زرداری پر آج بھی مخالفین ٹکٹ بلیک کا الزام لگاتے ہیں‘ یہ الزام غلط ہے تاہم یہ درست ہے آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کراچی میں بمبینو سینما کے مالک تھے اور یہ اس زمانے میں ایشیا کا سب سے بڑا اور جدید سینما ہوتا تھا‘ آصف علی زرداری حاکم علی زرداری کے اکلوتے صاحب زادے تھے لہٰذا اتنے امیر شخص اور ایشیا کے سب سے بڑے سینما کے مالک کو ٹکٹ بلیک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ الزام بھی دیگر الزامات کی طرح بے بنیاد اور لغو ہے‘ آصف علی زرداری کو بچپن میں اداکاری کا شوق تھا اور انھوں نے1969 میں سالگرہ نام کی فلم میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے کام بھی کیا تھا‘ فلم کا وہ کلپ آج بھی موجود ہے‘ میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔

 لاہوکے اس سینما کے سامنے شائقین کا بے انتہا رش ہوتا تھا‘ ایک بار مقامی اخبار کا کوئی رپورٹر اپنے دوست کو فلم دکھانے لے گیا‘ وہ جیسے تیسے کھڑکی تک پہنچا‘ اس زمانے میں صحافیوں کو اخبار کا کارڈ دکھا کر ٹکٹ میں رعایت ملتی تھی‘ صحافی نے اپنا کارڈ دکھایا لیکن ٹکٹ کیپر نے اسے لفٹ نہیں کرائی‘‘ صحافی کی اس سے توں توں میں میں ہو گئی یہاں تک کہ صحافی کو غصہ آ گیا‘ وہ کھڑکی سے پیچھے ہٹا اور زور زور سے چیخنے لگا ’’تم نے قائداعظم کو گالی کیوں دی؟‘‘ لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پہلے سے ناراض تھے۔

 انھوں نے قائداعظم کا نام سنا تو فوراً اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور اس سے گستاخی کے بارے میں پوچھنے لگے‘ صحافی نے چلاتے ہوئے کہا‘ اس نے میرا نوٹ نیچے پھینک کر کہا‘ اٹھاؤ اپنے قائداعظم کو اور دفع ہو جاؤ‘ میں قائداعظم کی یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا‘ لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور سینما کی انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی‘ انتظامیہ کے غنڈوں نے انھیں دبانے اور دھمکانے کی کوشش کی جس سے معاملہ مزید بگڑ گیا اور لوگوں نے سینما پر حملہ کر دیا‘ہجوم نے آدھ گھنٹے بعد سینما کو آگ لگا دی اور یوں ایک ٹکٹ اور قائداعظم کے حوالے نے لاکھوں روپے (اس زمانے میں یہ رقم کروڑوں کے برابر ہوتی تھی) کے سینما کو جلا کر راکھ کر دیا۔

وہ پرانا زمانہ تھا‘ قائداعظم کا نام اس دور میں مقدس ہوتا تھا‘لوگ قائد سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کوئی بھی شخص ان کا حوالہ دے کر کسی کو بھی گستاخ اور قابل گردن زنی قرار دے سکتا تھا لیکن پھر وقت بدلہ‘ افغان وار شروع ہوئی اور قائداعظم اور بانیان پاکستان پیچھے چلے گئے اور مذہب بطور ہتھیار استعمال ہونے لگا‘ قائداعظم کا پاکستان کس قدر کھلا ڈھلا اور برداشت سے لبالب تھا آپ اس کا اندازہ چند حقائق سے لگا لیجیے‘ آل انڈیا مسلم لیگ سر آغا خان (سوم) کے مشوروں پر بنائی گئی تھی اور یہ اپنے انتقال 1957 تک اس کے تاحیات صدر رہے تھے‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت بریلوی سنی تھی لیکن مسلم لیگ کے 80فیصد لیڈر اہل تشیع تھے۔

 قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ راجہ صاحب محمودہ آباد اور سردار عبدالرب نشتر کے عقائد ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن کسی بریلوی سنی کو ان کے کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان تھے‘ وہ ڈکلیئرڈ قادیانی تھے لیکن پرفارمنس میں آج تک ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا ’’ مسئلہ فلسطین کا حل صرف فلسطینی ریاست ہے‘‘ اقوام متحدہ میں یہ آواز سب سے پہلے سر ظفر اللہ خان نے لگائی تھی اور یہ پاکستانی ڈیسک سے آئی تھی‘ عربوں کی آزادی میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا‘ پاک فوج کے پہلے دو چیف جنرل فرینک میسوری اور جنرل ڈگلس گریسی انگریز اور کرسچین تھے‘ پاکستان ائیرفورس کے پہلے چار چیف عیسائی اور گورے تھے‘ ائیرمارشل اصغر خان 1957 میں ائیرفورس کے پہلے پاکستانی چیف بنے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں پاک فوج ہو یا پاک فضائیہ اس کی بنیاد کرسچین گوروں نے رکھی تھی۔

 پاکستان  کے لیے قانون بنانے کا فریضہ ہندو جوگیندر ناتھ منڈل نے نبھایا تھا‘ یہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون تھے‘ پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس اے آر کارنیلیس تھے‘ یہ 1960سے 1968 تک آٹھ سال چیف جسٹس رہے‘ یہ فلے ٹیز ہوٹل میں رہتے تھے‘ آپ کو پاکستان کے پہلے تین مسلمان چیف جسٹس کے نام یاد نہیں ہوں گے لیکن جسٹس کارنیلیس کا نام آج بھی فلے ٹیز ہوٹل کے اس کمرے کے دروازے پرلکھا ہے جس میں وہ رہائش پذیر رہے تھے‘ پاکستان میں سپارکو کی بنیاد پولش پائلٹ جے ایم تورووچ نے رکھی تھی‘ وہ کراچی میں رہا اور ونگ کمانڈر‘ گروپ کیپٹن‘ ائیرکموڈور اور اسسٹنٹ چیف آف ائیراسٹاف کی حیثیت سے پاک فضائیہ میں خدمات سرانجام دیتا رہا‘ اس کا نک نیم ’’ولادی‘‘ تھا‘وہ 1980 میں روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوا اور کراچی میں مدفون ہوا۔

 اس کی بیوی بھی پوری زندگی پاکستان میں رہی‘ اس کے انتقال کے برسوں بعد پولینڈ کی خفیہ سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا پولش خفیہ ایجنسی نے اسے پاکستان کے خلاف جاسوس بنانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہ صرف انکار کر دیا تھا بلکہ وہ اس آفر کے بعد پولینڈ نہیں گیاتھا‘ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا یہ سب کچھ آج ممکن ہے؟ جی نہیں ‘ یہ صرف قائداعظم کے اس پاکستان میں ممکن تھاجس میں لوگوں کو مذہب‘ عقائد اور مسلک کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا تھا ان کا خلوص‘ نیت اور مہارت دیکھی جاتی تھی لہٰذا اگر کوئی اس زمانے میں سینما کے سامنے کھڑے ہو کرقائداعظم کے نام پر جھوٹ بھی بول دیتا تھا تو لوگ سینما جلا دیتے تھے لیکن پھر پاکستان بدل گیا اور یہاں یونیورسٹی آف نبراسکا کا تیار کردہ دینیاتی نصاب آ گیا‘ ایک ایسا مذہبی نصاب جس میں ہر دوسرا فرقہ کافر ہے اور مسلمان‘ مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں‘جس میں لوگ نماز کے دوران ہاتھ کہاں باندھتے ہیں جیسے تخلیقی اور آفاقی مسائل پر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں۔

 آپ یونیورسٹی آف نبراسکا کے اسکالرز کا کمال دیکھیے‘ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی9اکتوبرکو بھارت جاتے ہیں تو بھارتی حکومت انھیں دارالعلوم دیوبند کا وزٹ کراتی ہے‘ بھارتی حکومت کو کس نے بتایا مسلمان فرقوں میں تقسیم ہیں اور طالبان دیوبندی ہیں‘ یہ سب 1980کی دہائی اور یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کا کمال تھا لہٰذا ہم اگر آج پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ دو حصوں میں تقسیم ملے گی۔

 قائداعظم کا پاکستان اور جنرل ضیاء الحق کا پاکستان‘ آپ اگر میری تھوڑی سی جسارت برداشت کر لیں تو پاکستان میں اسلامی سیاست کے بھی دو ورژن ہیں‘ قائداعظم کا اسلامک ورژن اور جنرل ضیاء الحق کا اسلامک ورژن‘ قائداعظم کے ورژن میں خلوص‘ میرٹ اور سچائی تھی جب کہ جنرل ضیاء الحق کے ورژن نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا جو منافقت‘ نعرے بازی اور جھوٹ کے ستونوں پر کھڑا ہے اور اس پاکستان کے لیے قائداعظم غیر ضروری اور غیر متعلقہ ہو چکے ہیں‘یہ مسنگ اور آؤٹ آف سلیبس ہیں اگر میری بات غلط ہے تو آپ پورے ملک میں قائداعظم کی کوئی ایک عادت یا کوئی ایک روایت دکھا دیجیے جس پر عمل ہو رہا ہو‘ قائداعظم کے ساتھ ہمارے صرف دو تعلق رہ گئے ہیں‘ ان کی تصویر سرکاری دفتروں کی دیوار پر لگتی ہے یا پھر یہ نوٹ پر چھاپی جاتی ہے‘ آپ کو اگر قائد اس کے علاوہ کسی جگہ دکھائی دیں تو پلیز مجھے ضرور اطلاع کیجیے گا۔

 ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اصل پاکستان افغان وار میں ختم ہو گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ایسے پاکستان نے جنم لے لیا تھا جس کی بنیاد یونیورسٹی آف نبراسکا کے ادارے’’سینٹر فارافغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘نے رکھی تھی‘ نبراسکا کے اس کمال کے نتیجے میں 2025 میں دہشت گردی کے چار ہزار تین سو 73 واقعات پیش آئے جن میں 1073 لوگ شہید ہوئے جن میں فوج کے 584 جوان اور افسر ‘ باقی اداروں کے 133 اور 356 سویلین ہیں‘ فوج دہشت گردوں کے خلاف روزانہ 208 آپریشن کرتی ہے‘ سال میں کل 62 ہزار ایک سو 13 آپریشن ہوئے‘ ان میں 1667 دہشت گرد مارے گئے۔

 ان میں 128 افغان شہری تھے اور یہ تمام حملے (4373) افغانستان سے کیے گئے تھے اور ان میں طالبان حکومت براہ راست ملوث تھی لیکن طالبان اس کے باوجود ہمارے بھائی‘ مجاہد اور اسلام کے سپاہی ہیں‘ پشاور میں30 جنوری 2023 کو پولیس لین کی مسجد پر حملہ ہوا جس میں 93پولیس اہلکار اور افسرنماز پڑھتے ہوئے شہید ہو گئے لیکن مارنے والے مجاہد اورمرنے والے اہلکاروں کوطالبان کیا کہتے ہیں، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ‘ یہ اسلام کا کون سا ورژن ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر قائداعظم کا اسلام کیا تھا؟اور اگر قائداعظم غلط تھے تو پھر ہم ان کی جگہ ملاعمر یا ملاہیبت اللہ کی تصویر کیوں نہیں لگا دیتے تاکہ ہم کم از کم آئیڈیالوجی کے بحران سے تو باہر آ جائیں‘ہم کتنے باکمال لوگ ہیں‘ ہم لاکھ لاشیں اٹھانے کے بعد بھی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ واہ کیا بات ہے!

متعلقہ مضامین

  • ای چالان اور ہیروئنچیوں کی غیرت قومی
  • کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟
  • آؤٹ آف سلیبس
  • نیویارک سٹی کے میئرکی حیثیت سے ظہران ممدانی کے پاس کیا اختیارات ہوں گے،حکومت سازی کا عمل کب مکمل ہوگا؟
  • “ہر آغاز کا ایک انجام ہوتا ہے” رونالڈو نے ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے دیا
  • افسوس ہوتا ہے جو حکومت قربانی دے کر بنائی، وہی ہمارے مقدمات میں جواب جمع نہیں کر رہی: شیر افضل مروت
  • 2025 کا سب سے بڑا چاند کب آسمان پر چمکتا نظر آئے گا
  • کتاب ہدایت 
  • دینی اجتماعات میں شرکت سے قلب کا سکون حاصل ہوتا ہے، عرفات عطاری
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان