Jasarat News:
2025-09-21@23:42:34 GMT

کے فور منصوبے میں تاخیر، آڈٹ رپورٹ

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی برسوں سے پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ آبادی تیزی سے بڑھتی رہی، صنعتیں پھیلتی گئیں لیکن پانی کے ذرائع اور سپلائی سسٹم اسی پرانے ڈھانچے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔ اس وقت شہر کو روزانہ تقریباً 1200 ملین گیلن پانی درکار ہے جبکہ فراہمی بمشکل 650 ملین گیلن تک محدود ہے۔ یہی پس منظر تھا جس میں کے فور منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ لیکن افسوس، یہ منصوبہ دو دہائیوں بعد بھی اپنی تکمیل کو ترس رہا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ اس حقیقت کو مزید بیان کرتی ہے کہ کے فور منصوبے میں بدانتظامی، تاخیر اور وسائل کے ضیاع نے کراچی کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر منصوبہ بروقت مکمل نہ ہوا تو 2025-26 میں کراچی میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق کے فور کے فیز ون کو 8 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مگر اب تک صرف 45 فی صد تک کام مکمل ہوسکا ہے۔ تین فلٹریشن اسٹیشنوں پر صرف 25 فی صد پیش رفت، پمپنگ اسٹیشن پر محض 26 فی صد اور پائپ لائن بچھانے کے دو حصوں میں 50 فی صد سے کچھ زیادہ ترقی۔ یہ کارکردگی ایسے وقت میں سامنے آئی جب اس منصوبے کو فروری 2024 تک مکمل ہونا تھا۔ مزید یہ کہ تاخیر کے باوجود پروجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے چھے کروڑ روپے کی چار لگژری گاڑیاں خریدی گئیں۔ انتظامیہ نے جواز دیا کہ یہ غیر ملکی ماہرین کی سہولت کے لیے تھیں، مگر آڈیٹر جنرل نے اس وضاحت کو ناکافی اور غیر قانونی قرار دیا۔ یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ عوامی ضرورت کے اس اہم منصوبے کو بھی بیوروکریسی اور ٹھیکیداری سیاست نے ایک بار پھر تختۂ مشق بنا ڈالا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 2021 میں کراچی کو ’’پیرس بنانے‘‘ کا وعدہ کیا تھا۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ کے- فور جیسے زندگی کے لیے ناگزیر منصوبے کے لیے وفاقی بجٹ میں محض 3.

2 ارب روپے مختص کیے گئے، جب کہ اصل ضرورت 40 ارب روپے کی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے اس زیادتی پر آواز بلند کی اور وزیراعظم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ فوری طور پر 40 ارب روپے فراہم کیے جائیں۔ اس موقع پر کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان مرحوم کی خدمات کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ انہوں نے 2001 سے 2005 تک اپنے دور میں شہر کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کیے۔ انہی کے دور میں کے-تھری منصوبہ مکمل ہوا، جس سے شہر کو 100 ملین گیلن پانی اضافی ملا۔ کے-تھری کا شمار کراچی کے واحد بڑے آبی منصوبے میں ہوتا ہے جو بروقت مکمل ہوا۔ نعمت اللہ خان کے دور میں کے-فور منصوبے کا PC-II 2003 میں تیار ہوا اور اس کی ابتدائی فزیبلٹی پر پیش رفت شروع کی گئی۔ اگر ان کے بعد آنے والی حکومتیں اور انتظامیہ اسی جذبے اور سنجیدگی سے کام کرتیں تو آج کراچی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے بعد آنے والی قیادت نے یا تو اس منصوبے کو سیاست کی نذر کیا یا پھر بدانتظامی کی وجہ سے اسے بار بار التوا میں ڈالاہوا ہے۔ نعمت اللہ خان مرحوم کے وژن کا یہ پہلو نمایاں تھا کہ وہ شہر کے مسائل کو صرف کاغذی وعدوں میں نہیں، عملی منصوبہ بندی میں دیکھتے تھے۔ ان کی قیادت میں ماسٹر پلان تیار ہوا، نالی نالوں کی صفائی اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ شہری سہولتوں پر توجہ دی گئی۔ آج بھی کے-فور کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نعمت اللہ خان کی پالیسیوں کو تسلسل ملتا تو کراچی پانی کے بحران سے بچ جاتا۔ کے-فور کی تاخیر دراصل حکومتی ترجیحات کا عکاس ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو پاکستان کی معیشت کا انجن ہے لیکن یہاں کے عوام روزانہ پانی کے حصول کے لیے ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ بعض علاقوں میں لوگ پینے کے پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، بعض اوقات ٹینکر کی قیمت ہزاروں روپے تک جا پہنچتی ہے۔ یہ بحران صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ سماجی ناانصافی بھی ہے۔ غریب عوام لائنوں میں کھڑے ہو کر پانی کے ڈرم بھرنے پر مجبور ہیں جبکہ صاحب ِ حیثیت طبقہ ٹینکروں سے اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے جو پیش گوئی کی ہے، وہ الارمنگ ہے: اگر منصوبہ بروقت مکمل نہ ہوا تو 2025-26 میں کراچی میں پانی کا شدید بحران ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ صنعتوں کی پیداوار متاثر ہوگی، عوامی زندگی اجیرن بن جائے گی اور ٹینکر مافیا مزید طاقتور ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں عوامی بے چینی میں اضافہ اور سماجی انتشار کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کے-فور منصوبہ ایک امتحان ہے حکومت، اداروں اور سیاسی قیادت کے لیے۔ یہ منصوبہ کراچی کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر اسے مزید تاخیر کا شکار کیا گیا تو آنے والے برسوں میں اس کے نتائج نہ صرف شہر بلکہ پورے ملک کی معیشت پر بھاری پڑیں گے۔ نعمت اللہ خان مرحوم نے ایک مثال قائم کی تھی کہ نیت صاف ہو اور عوامی خدمت کا جذبہ ہو تو بڑے سے بڑا منصوبہ بھی مکمل ہوسکتا ہے۔ آج کراچی کے عوام اسی جذبے اور عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ وعدوں اور دعوؤں سے نہیں، بلکہ بروقت منصوبوں کی تکمیل سے ہی یہ شہر اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے فور منصوبے نعمت اللہ خان کراچی کے پانی کے کے لیے

پڑھیں:

این ڈی آر ایم ایف کے 6.5 ارب روپے کے منصوبے مکمل، قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ

نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف) نے 2018 سے 2024 کے دوران پاکستان بھر میں 16 بڑے منصوبے مکمل کیے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 6.5 ارب روپے سے زائد ہے۔

یہ منصوبے ملک کو قدرتی آفات خصوصاً سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، خشک سالی اور دیگر موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ صوبائی و ضلعی سطح پر ریسکیو اور ایمرجنسی خدمات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا انسان کبھی قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکے گا؟

سرکاری دستاویزات کے مطابق منصوبوں میں ڈھانچہ جاتی اقدامات جیسے حفاظتی بندوں کی تعمیر اور بحالی کے ساتھ غیر ڈھانچہ جاتی اقدامات بھی شامل تھے، جن میں ابتدائی وارننگ سسٹمز، کمیونٹی کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی تربیت اور آگاہی پروگرام شامل ہیں۔

منصوبے کہاں مکمل ہوئے؟

یہ تمام منصوبے قومی و بین الاقوامی شراکت دار اداروں کے تعاون سے بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے پسماندہ اور حساس اضلاع میں مکمل کیے گئے۔بلوچستان میں 20 کروڑ 19 لاکھ روپے کے منصوبے کوئٹہ اور چاغی میں سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے ڈھانچے مضبوط بنانے کے لیے مکمل کیے گئے۔

ضلع قلعہ سیف اللہ میں 40 کروڑ 7 لاکھ روپے کی لاگت سے کمیونٹی کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا گیا۔ آزاد کشمیر میں ایک ارب روپے سے زائد مالیت کے منصوبے پونچھ، نیلم، باغ، جہلم اور ہٹیاں بالا اضلاع میں لینڈ سلائیڈنگ روکنے اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: مون سون کے دوران کتنی اموات اور کیا کیا نقصانات ہوئے؟ این ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں

سندھ میں 68 کروڑ 50 لاکھ روپے کے منصوبے سیلابی حفاظتی اقدامات کے لیے مختص کیے گئے، جن کے تحت ضلع لاڑکانہ میں ہاجی پور اور آگانی اسپرس سمیت مختلف حفاظتی بندوں کی مرمت اور بحالی کی گئی تاکہ دریائی علاقوں میں رہنے والے عوام کو بچایا جا سکے۔

پنجاب میں اقدامات

پنجاب میں 65 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبوں کے تحت نارووال میں بین نالہ اور جلیالہ حفاظتی بند جبکہ شیخوپورہ میں ڈی ای جی نالہ کی بحالی کی گئی۔سب سے اہم منصوبوں میں سے ایک خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں ریسکیو 1122 خدمات کی توسیع تھی۔

اس مقصد کے لیے 2 ارب 26 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبے مکمل کیے گئے جن کے تحت جی بی کے 10 اضلاع اور کے پی کے 35 اضلاع بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایمرجنسی رسپانس نظام کو جدید بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی: اس کا مطلب اور فائدہ کیا ہے؟

اس میں گاڑیوں کی فراہمی، ریسکیو آلات کی خریداری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے تاکہ ہنگامی حالات میں فوری اور مؤثر ردعمل یقینی بنایا جا سکے۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے لیے تقریباً 98 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے شمالی پاکستان میں مربوط پہاڑی تحفظ کے منصوبے کے دو مرحلے مکمل کیے گئے۔

آغا خان ایجنسیاں اس منصوبے کو نافذ کرنے میں پیش پیش رہیں، جس کے تحت عمارتوں کی مضبوطی، مقامی سطح پر آفات سے نمٹنے کی تیاری اور ابتدائی وارننگ سسٹمز نصب کیے گئے۔

یہ منصوبے نہ صرف آفات سے نقصانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے بلکہ زرعی اراضی، اہم انفراسٹرکچر اور مقامی آبادی کو موسمیاتی جھٹکوں سے بچا کر ملکی معیشت کو بھی مضبوط کیا۔

خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے لاکھوں شہری براہِ راست مستفید ہوں گے

ریسکیو 1122 کی توسیع سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے لاکھوں شہری براہِ راست مستفید ہوں گے، جہاں ایمرجنسی کے دوران بروقت ریسکیو، جان بچانے والی سہولتوں کی فراہمی اور اقتصادی نقصانات میں کمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

یہ تمام منصوبے این ڈی آر ایم ایف کے فریم ورک کے تحت وفاقی حکومت کی معاونت سے ملکی و غیر ملکی وسائل کو بروئے کار لا کر مکمل کیے گئے ہیں تاکہ پاکستان کو مستقبل میں قدرتی آفات کے خطرات کے مقابلے کے لیے مزید مضبوط بنایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news این ڈی آر ایم ایف خیبرپختونخوا سیلاب قدرتی آفات گلگت بلتستان نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ

متعلقہ مضامین

  • ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ، کیا خواب رہے گا؟
  • جماعتِ اسلامی نے ہمیشہ الزام تراشی کی سیاست کی: ترجمان سندھ حکومت مصطفیٰ بلوچ
  • این ڈی آر ایم ایف کے 6.5 ارب روپے کے منصوبے مکمل، قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ
  • ریڈ لائن منصوبے کی تکمیل کی واضح تاریخ دی جائے، منعم ظفر خان
  • کراچی والوں کو سہولیات دینا چاہتے ہیں،میئر کو گرین لائن منصوبے کے ٹھیکیدار پر اعتراض ہے، وفاقی حکومت
  • میئر کراچی نے ریڈ لائن منصوبہ آئندہ 10 سال تک مکمل نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا
  • بی آرٹی ریڈ لائن منصوبے پر کام مکمل طور پر روک دیا گیا
  • ریڈ لائن منصوبہ تین سال بعد بھی تعطل کا شکار، بے ضابطگیوں پر ڈونرز نے ہاتھ کھینچ لیا
  • میئر کراچی نے ریڈ لائن منصوبہ 2035 تک مکمل نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا