سجاول:ہیراسماعیل سوہو کی سرویکل کینسر سے بچائو کی مہم میں شرکت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250922-2-10
سجاول(نمائندہ جسارت) ترجمان حکومتِ سندھ و ایم پی اے ہیر اسماعیل سوہو اور ایم پی اے ریحانہ لغاری نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سجاول میں سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی جاری ویکسین مہم میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں بچیوں کو آگہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ مہنگی ویکسین سندھ حکومت کی جانب سے مفت فراہم کی جا رہی ہے، جس کے کوئی نقصانات یا سائیڈ افیکٹس نہیں ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ کسی بھی افواہ پر کان نہ دھریں اور اپنی بیٹیوں کو مستقبل میں کینسر سے بچانے کے لیے ضرور یہ ویکسین لگوائیں۔ انہوں نے کہا کہ سروائیکل کینسر دنیا کی عام بیماریوں میں سے ایک ہے، جبکہ پاکستان میں خواتین میں ہونے والے کینسرز میں یہ تیسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹس کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 3,200 خواتین اس بیماری کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں، حالانکہ اس سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے۔ انہوں نے آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ عالمی ادار? صحت (WHO) کے مطابق 9 سے 14 سال کی ہر لڑکی کو HPV ویکسین لگنی چاہیے تاکہ وہ سروائیکل کینسر سے محفوظ رہ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ویکسین دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کے شیڈول کا حصہ ہے۔ پاکستان میں بھی سندھ حکومت کی جانب سے 15 ستمبر سے 27 ستمبر 2025 تک 13 روزہ مہم شروع کی گئی ہے، جس کے تحت اسکولوں اور صحت مراکز میں بچیوں کو یہ ویکسین مفت فراہم کی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کینسر سے
پڑھیں:
وزیر صحت سندھ کا ایچ پی وی ویکسین کیخلاف منفی پروپیگینڈا پھیلانے والوں کو انتباہ
صوبائی وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ایچ پی وی ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی افواہیں پھیلانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سائبر کرائم کو خط لکھ کر ویڈیوز فراہم کردی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ سندھ میں 41 لاکھ بچیوں میں سے اب تک 57 فیصد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ جس سیاسی جماعت نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ہے، وہ صحت جیسے معاملے کو سیاست سے بالاتر رکھ کر سوچیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کلب ممبران کی بچیوں کو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کیلئے دو روزہ کیمپ کی افتتاحی تقریب میں کیا۔ تقریب میں ماہرین امراضِ نسواں پروفیسر نگہت شاہ، ڈاکٹر حلیمہ یاسمین اور ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر خالد شفیع بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے خطاب میں کہا کہ سندھ میں 9 تا 14 سال کی 41 لاکھ بچیاں ہیں جنہیں ایچ پی وی وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر ایچ پی وی ویکسین کے حوالے سے منفی تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ یہ مانع حمل کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جارہی، یہ وائرس کے خلاف اثر انگیزی رکھتی ہے اور 2006 سے دنیا بھر میں لگائی جارہی ہے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا تھا کہ اگر یہ ویکسین مہم کامیاب رہی تو ہم دیگر امراض سے بچاؤ کے لیے مزید ویکسین متعارف کروائیں گے۔ یہ تیرہویں ویکسین ہے جو ای پی آئی کا حصہ بن رہی ہے۔ ڈاکٹر حلیمہ یاسمین نے کہا کہ میں گائنی آنکولوجی کی سرجری کرتی ہوں۔ ایک ایک گانٹھ یا ٹیومر نکالنے پر اس رات تھکن نہیں جاتی۔ ایسے عورت سے آنے والی بدبو سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کو سروائیکل کینسر ہے بائیوپسی سے بھی پہلے۔ ہم اسی دن الگ الگ مراکز میں ریڈیو تھراپی کی بکنگ بھیجتے ہیں۔ میرا شوہر میری بیٹیوں کو لگوانے کے لیے فکر مند ہے کیونکہ میری بیٹیاں چودہ سال سے بڑی ہیں۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں اب تک اس مہم کے ذریعے 41 لاکھ میں 57 فیصد بچیوں کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ میں نے سیاسی افراد، ایم این اے اور ایم پی ایز کو کہا ہے کہ یہ افراد دیگر سیاسی جماعتوں سے ہی کیوں نہ ہوں، میں کہتی ہوں ساتھ دیں۔ ایک سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے، اس سے کہوں گی کہ ایسا نہ کریں۔ میں نے وزیر اعظم کو خط لکھا، میں نے کہا کہ ہم زرِمبادلہ خرچ کر رہے ہیں، ہم کیوں ویکسین خود مینوفیکچر نہیں کرتے؟ اس کی انڈسٹری لگانے میں بہت بڑا بجٹ چاہیے۔ میں نے کہا ان کو قرض ہی دے دیں۔ حکومت ویکسین خرید رہی ہے لیکن انڈسٹری بنانا وفاقی حکومت کا معاملہ ہے۔ ہم کینسر رجسٹری بنا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور وزیر اعلیٰ سندھ صحت کے امور پر بہت کام کر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں بہتری کی گنجائش ہے تو وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے جراثیم کش اسپرے کروا رہے ہیں۔ ہم اسپتالوں میں بستر بھی مہیا کر رہے ہیں۔ شہری بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہم دوا ڈال کر لاروا کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کینسر سروائور سمعہ زیبر نے کہا کہ جب مجھے سروائیکل کینسر ہوا تو پہلے نہیں پتہ چل رہا تھا کہ کیا ہوا۔ میں مختلف نجی کلینکس کے دھکے کھانے کے بعد جناح اسپتال کے شعبہ امراض نسواں گئی۔ علاج کا ہر مرحلہ دردناک تھا۔ میرے تین بیٹے ہیں لیکن اس مرض کے سبب مجھے جلدی مینوپاز ہوگیا۔ اگر ایک ویکسین ہے تو اسے لگوائیں۔
پروفیسر نگہت شاہ نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کو تب ویکسین لگوائی جب یہ آسانی سے دستیاب نہیں تھی، اس وقت تین ڈوز لگی تھیں۔ ماضی میں ہم نے نعرہ بنایا کہ جہیز نہ دو مگر یہ ویکسین لگاؤ۔ کینسر کا نام ہی متاثر فرد کی آدھی موت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ ڈیڑھ سال قبل سے طبی ماہرین نے غوروفکر کیا، تحقیق ہوئی کہ سنگل ڈوز ویکسین مؤثر ہے۔ اگر اس کمیٹی نے فیصلہ کیا تو بچیوں کی بہتری کے لیے ہم نے اپنی بچیوں کو پہلے سے لگائی۔ یہ 41 لاکھ بچیاں بھی ہماری بیٹیاں ہیں۔ کینسر کے علاج میں لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔ اگر یہ بانجھ پن کرتی تو کیا میں اپنی بیٹی کو لگواتا؟ غیر تصدیق شدہ مواد کو فارورڈ نہ کریں۔