ڈکیتی کیس میں گرفتار 2 ملزمان کو 7 سال قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
ایڈیشنل سیشن عدالت شرقی نے کورنگی صنعتی ایریا میں ڈکیتی کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر 2 ملزمان کو 7 برس قید بامشقت کی سزا سنادی۔
ایڈیشنل سیشن عدالت شرقی نے کورنگی صنعتی ایریا میں ڈکیتی کے مقدمے کا فیصلہ سنادیا۔ ملزمان میں سمیع اور ایمان شامل ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، کوئی بھی شہری بے رحم لٹیروں کے ہاتھوں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا، گواہان کے بیانات میں معمولی تضاد کی بنیاد پر ملزمان کو بری کرنا معاشرے کی بہتری کے لئے مناسب نہیں ہوگا۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نے معاشرے میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے، کئی معصوم شہری اپنی جان یا قیمتی اشیا سے محروم ہوچکے ہیں۔
پراسیکیوشن کے مطابق ملزمان نے جنرل اسٹور پر ڈکیتی کے دوران مدعی سے موبائل فون چھینا، ملزمان نے موبائل میں ماوجود مائیکرو فنانسنگ ایپ سے 2 لاکھ 88 ہزار روپے نکالے، ملزمان کو مدعی مقدمہ نے شناخت کیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملزمان کو
پڑھیں:
ملٹری کورٹ سے سزایافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کاحکم:تحریری فیصلہ جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کے خلاف حکومتی انٹرا کورٹ اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے اور اس مقصد کے لیے حکومت کو 45 دن میں قانون سازی کا حکم دیا گیا ہے۔
ملٹری ٹرائل کے خلاف حکومتی انٹرا کورٹ اپیلوں کا 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا۔ آئینی بینچ نے ملٹری ٹرائل کے خلاف 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں اور ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔
جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، اور جسٹس شاہد بلال نے اضافی نوٹ سے اتفاق کیا تھا، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دے دی تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے اور اس سلسلے میں حکومت کو 45 دن میں قانون سازی کرنے کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود مگر عام شہریوں کیلئے مناسب اپیل فورم کا فقدان ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا، پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے ۔
فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آزاد حق اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کیلئے آئینی طور پر مکمل نہیں، حق اپیل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی سے مداخلت کی ضرورت ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور پارلیمان حق اپیل کیلئے 45 دن میں قانون سازی کریں۔ سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں، ملٹری ٹرائل میں بھی مگر آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاسداری ہونی چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم نہیں، آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے وجودکی نفی نہیں کرتا، پانچ رکنی بنچ نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی تھی۔
خیال رہے کہ رواں سال 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے مختصر فیصلہ سنا دیا تھا اور تفصیلی فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج جاری کیا گیا۔