الگ اور آزاد ریاست کا قیام فلسطینی عوام کا بنیادی حق ہے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ الگ اور آزاد ریاست کا قیام فلسطینی عوام کا بنیادی حق ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاری فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام کوئی انعام نہیں بلکہ ایک مسلمہ حق ہے اور اس حق سے انکار دراصل انتہا پسندوں کو ایک تحفہ دینے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے ایک بار پھر دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہی واحد راستہ ہے کہ دو خود مختار اور آزاد ریاستیں ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور عالمی برادری کا حصہ بنیں۔
سیکرٹری جنرل نے مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع کو ناقابل جواز قرار دیتے ہوئے فوری طور پر اس عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بستیوں کی توسیع کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، یہ امن کی باقی امیدوں کو بھی ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے جنگ بندی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ الحاق کے خطرات اور آبادکاروں کے تشدد میں شدت کو فوراً روکا جانا چاہیے تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔
یاد رہے کہ فلسطین کانفرنس کی صدارت فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کر رہے ہیں۔ کانفرنس کے دوران فرانسیسی صدر نے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
افغانستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن چکا ، اقوام متحدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-01-8
اسلام آباد ( آن لائن) دوحا امن معاہدے کے باوجود طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ عالمی رپورٹس اور سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغان سرزمین سے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف منظم دہشت گرد کارروائیاں جاری ہیں، جس سے خطے کے امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ معاہدہ کے تحت افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، تاہم عملی طور پر یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں جبکہ طالبان حکومت اور القاعدہ کے تعلقات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔