ویتنام اور پاکستان کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہد ہ جلد ہو گا ‘سفیر
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (کامرس ڈیسک) ویتنام کے سفیر فام انہ توان نے کہا ہے کہ ویتنام اور پاکستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ کے مذاکرات جلد شروع ہونگے تاکہ باہمی تجارتی و معاشی تعلقات کو مزید مستحکم کیا جاسکے۔انہوں نے یہ بات لاہور چیمبر ا?ف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوزر شاد، سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان اور پاکستان میں ویتنام کے اعزازی قونصل رضوان فرید نے بھی خطاب کیا جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان سید سلمان علی، کرامت علی اعوان، محمد عمران سلیمی اور وقاص اسلم بھی موجود تھے۔ سفیر نے کہا کہ جولائی 2025 میں ہنوئی میں ہونے والے جائنٹ ٹریڈ کمیٹی کے اجلاس میں دونوں ممالک نے 2025 میں ترجیحی تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ویتنام کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافہ ایک خوش ا?ئند ہے۔ سال 2024 میں دونوں ممالک کی دوطرفہ تجارت کا حجم 850 ملین ڈالر تک پہنچ گیا تھا جبکہ توقع ہے کہ 2025 میں یہ حجم 1 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(کامرس ڈیسک)معروف تاجر رہنما شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی عالمی سیاسی غیر یقینی نئے دفاعی و تجارتی اتحاد اوربھارت اور افغانستان پر بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ سے پاکستان کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت فوری طور پر تجارتی پالیسی پر نظرِثانی کرے۔ جب عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست تیزی سے بدل رہی ہو تو پاکستان پرانی پالیسیوں پر قائم نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کی تجارتی مسابقت بات پر منحصر ہے کہ اس کی تجارتی حکمتِ عملی نئے حقائق سے کس حد تک ہم آہنگ ہے۔کاروباری برادری سے خطاب کرتے ہوئے شاہد رشید بٹ نے کہا کہ پاکستان کو درپیش تجارتی مسائل صرف محصولات میں ردوبدل سے حل نہیں ہو سکتے بلکہ یہ ایک وسیع تر عالمی تناظر سے جڑے ہوئے ہیں۔ کاروباری طبقے میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ برآمدات بڑھانے اور علاقائی تجارتی راہداریوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جڑی مالیاتی شرائط طویل عرصے سے پاکستان کی تجارتی پالیسی پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ محصولات میں اضافہ اور درآمدی پابندیاں زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے نام پر نافذ کی گئیں مگر یہ اقدامات صرف وقتی حل ہیں اور ان سے طویل مدتی ترقی ناممکن ہے ۔دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی حکمت عملی پر نظرِثانی کر رہے ہیں۔ بھارت جو خطے کی بڑی معیشت ہیامریکہ کی جانب سے ٹیکنالوجی رسائی تجارتی مراعات اور ویزوں کے حصول رکاوٹوں کا سامنا کر رہا ہے جس سے اسکی چالیس ارب ڈالر کی ترسیلات متاثر ہو رہی ہیں۔ خلیجی ممالک نئے معاشی و دفاعی اتحاد بنا رہے ہیں جبکہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے جس سے پاکستان کے لیے پائیدار تجارتی شراکت داریوں کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ درآمدات پر ضرورت سے زیادہ انحصار مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔درامدات روکنے توانائی کی قیمت اورمحصولات بڑھانے نے عوام اور معیشت کو متاثر کیا ہے اور اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے جس پر توجہ دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ وقتی اقدامات سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح کرتے ہیں۔ ہمیں واضح برآمدی اہداف مقرر کرنے، مصنوعات کی بنیاد وسیع کرنے اور نئے تجارتی معاہدے کرنے کی ضرورت ہیکیونکہ پاکستان کی ترقی، روزگار اور مہنگائی براہِ راست تجارت سے جڑے ہوئے ہیں۔