data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سرویکل کینسر HIv aids ,HPV کی طرح ایک جنسی بیماری ہے یہ عموماً ہم جنس پرستی یا بہت زیادہ اور مختلف لوگوں کے آپس میں جنسی ملاپ کی وجہ سے سروکس cervix رحم کے منہ یا فرج میں پیدا ہونے والے غیر معمولی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والا کینسر ہے۔
HPV human papilloma virus عموماً جنسی تعلقات کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا ہے اور کسی بھی جنسی رابطے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً اعضاء تناسل کا باہم ملاپ یا جلد سے جلد ملاپ۔ فرج، مقعد یا منہ کے ذریعے (اورل سیکس) جنسی فعل۔ سیکس ٹوائز کا استعمال۔ ان تمام ذرائع سے یہ کینسر یا اس کا وائرس آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے اس کا خطرہ اس صورت میں زیادہ بڑھ جاتا ہے جب آپ کا ساتھی مختلف لوگوں کے ساتھ جنسی تعلق میں ملوث ہو یا ہم جنس پرستی کا عادی ہو، جو مرد ہم جنس پرستی کے عادی ہوں یا عورت کے ساتھ بھی مقعد میں دخول کے عادی ہوں تو ان میں بھی یہ وائرس پیدا ہو سکتا ہے یا وہ بھی اس کے متاثرین میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر HPV آپ کے جسم میں داخل ہو جائے تو یہ خطرے کی بات نہیں البتہ مسلسل جنسی تعلق کی وجہ سے سروکس میں ہونے والی تبدیلیاں اسے کینسر بنا سکتی ہیں۔ اس کی جانچ کے لیے اسکریننگ کا طریقہ اپنایا جاتا ہے جہاں ماہر ِ اسکریننگ آپ کے سروکس سے نمونے کے ذرات لیکر ان کا لیباٹری ٹیسٹ کرتے ہیں اور پھر پتا لگاتے ہیں کہ آیا ایچ پی وی وائرس ہے یا نہیں اگر نہیں تو علاج کی ضرورت نہیں اور اگر ہے تو پھر اس کے لیے ویکسین تجویز کی جاتی ہے۔
یہ تو تھی کینسر اور اس کی تشخیص کی معلومات؛ اب آتے ہیں ویکسین کی طرف: ڈبلیو ایچ او جو اقوامِ متحدہ کا ادارہ ہے اس نے تقریباً ۲۰۱۷ میں اس وائرس اور اس کی ویکسین کے بارے میں آگاہی میٹنگ کا انعقاد کیا اور پھر مختلف ممالک میں اس ویکسین کو متعارف کرایا گیا۔ اب تک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ایک اندازے کے مطابق ۱۴۴ ممالک میں اس ویکسین کو متعارف کرا چکی ہے اور پاکستان ۱۴۵ واں ملک ہے۔
ہم نیو ورلڈ آڈر کے بارے میں اچھے سے جانتے ہیں کہ یہ تیسری دنیا کے ترقی پزیر خصوصاً مسلم ممالک پر امریکا، اسرائیل یا دوسرے لفظوں میں دجال کے تسلط کے لیے دیا گیا منصوبہ ہے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت اس ورلڈ آڈر کو ان ممالک پر وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے نافذ کیا جارہا ہے اس کا اصل مقصد ان ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا اور ان کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنا غلام بنانا ہے ہم ان کے کتنے ذہنی غلام ہیں اس کا اندازہ تو ہمارے سوشل میڈیا اکائونٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے مگر جب اس قسم کی ویکسین کا پروپیگنڈہ سامنے آتا ہے اور پاگلوں کی طرح حکومت سے لیکر عوام تک سب اس کے پیچھے لپکتے ہیں تو اس سے حقیقی غلامی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
ہم ویکسین کیوں لگوائیں: سوال یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں ہم جنس پرستی عام نہیں، جنسی تعلقات کی بے راہ روی بھی اس لیول پر نہیں تو ہم یہ ویکسین کیوں لگوائیں؟ اور صرف بچیوں کو کیوں لگوائیں بچوں کو کیوں نہیں؟ جب کہ یہ بیماری مردوں میں بھی اسی طرح عام ہے جس طرح خواتین میں بلکہ یہ تو ٹرانس جینڈرز میں بھی ہو سکتی ہے اگر وہ جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوں۔ جن ممالک میں اب تک دی گئی ہے وہاں بھی بالغ بچوں کو ہی دی گئی تو ہمارے ملک میں اتنی چھوٹی عمر کی بچیوں کو کیوں؟ میرے ذاتی اندازے اور اب تک کے تجربے کے مطابق یہ ہم پر دشمن کا ایک اور وار ہے بالکل اسی طرح جیسے کورونا میں ہوا تھا ہمیشہ جب دشمن میدانِ جہاد میں ہمارے خصوصاً پاکستان کے مقابلے پر منہ کی کھاتا ہے تو بائیو لاجیکل ویپنز کا استعمال شروع کر دیتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ نسل کشی کا اور طریقہ اس کے پاس نہیں یہ حربہ شروع ہی سے یہود کا خاصہ رہا ہے نبی کریمؐ پر جادو کا حملہ ایک یہودی نے کیا تھا، آپ کو زہر بھی یہودی عورت نے ہی دیا، میدان جہاد میں عین فتح کے قریب مسلمانوں میں وباؤں کا پھوٹنا بھی خلفاء راشدین کے دور سے چلا آ رہا ہے اس میں اللہ کی طرف سے حکمت یہ ہے کہ نا صرف ایمان کی جانچ ہورہی ہوتی ہے بلکہ دشمن کی عیاری اور سازش بھی بے نقاب ہوتی ہے خلافت ِ عثمانیہ میں بھی یہ سب ہوتا آیا ہے یا تو مال سے یا عورت سے یا وباؤں سے حکمرانوں کو قابو کیا جاتا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اسی طرح ہر دور میں بے وقوف بنتے رہیں گے؟ میڈیا کے اس وسیع دور میں بھی ہم اسی طرح مار کھا رہے ہیں بلکہ اس سے زیادہ ہی کھارہے ہیں جیسی پچھلے ادوار میں کھائی تھی اس کی ایک وجہ تو ایمان اور علم لدنی کی کمی ہے اور دوسری اس کی وجہ ہماری سستی کاہلی اور ہر وقت میڈیا پر ان رہنا ہے، اسی میڈیا نے یہودی ایجنٹوں کے حق میں راہ ہموار کی، اسی میڈیا نے ہمیں ذہنی و جسمانی غلام بنایا، اسی میڈیا کی وجہ سے ہم اس قدر کاہل ہوئے کہ ہل کر پانی بھی نہیں پی سکتے کسی دشمن کا با ضابطہ مقابلہ تو کیا کریں گے۔ بائیو لاجیکل ویپنز اور میڈیا وار کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے، ایک مفلوج سوچ کا شکار مفلوج قوم جو صرف طفیلیہ ہے بس اور کچھ نہیں کھانے کو بھی بیٹھے بیٹھے مل جائے سونے کے لیے بستر بھی کوئی اور لگادے ورنہ جہاں موبائل لیے پڑے ہیں وہیں لیٹے لیٹے سوجائیں گے، کسی کا مقابلہ کیا اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے یہ قوم۔
ہماری نسل کشی یو این کے چارٹر کا بھی حصہ ہے اور نیو ورلڈ آڈر کا بھی اس لیے ہم اس پر آنکھ بند کر کے بھروسا نہیں کر سکتے تو و یکسین کیوں لگوائیں؟ کورونا کو ہم بھگت چکے جن کو نہیں ہوئی تھی ان کو بھی ویکسین کے بعد یہ بیماری لاحق ہوئی الحمدللہ مجھے اللہ اور اپنی امیونٹی پر بھروسا تھا نہ ویکسین لگوائی نہ ہی کبھی کووڈ ہوا الحمدللہ ثم الحمدللہ ہذا من فضل ِ ربی۔
ہر سال ڈینگی ہمارے ملک میں آتا ہے اس کی ویکسین کیوں ایجاد نہیں ہوئی اگر ہوئی تو ہمیں کیوں فری نہیں دی جاتی؟ جو بیماری ابھی آئی نہیں اس کی اتنی فکر کیوں ہے؟ اس کا کیا چانس ہے کہ ویکسین کے بعد بیماری نہیں ہوگی کیا ویکسین ایجاد کرنے والا خدا ہے؟ نعوذ باللہ۔ یا اس شک کی گنجائش نہیں کہ ہمیں ایکٹویٹڈ کینسر وائرس ہی انجیکٹ کیا جا رہا ہو، جو ٹرانس جینڈر کو فروغ دے سکتا ہے کیا وہ ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کرنے کے لیے یہ ویکسین عام نہیں کر سکتا کہ ویکسین لگواؤ اور جو دل چاہے جب چاہے جہاں چاہے کرتے پھرو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ کیا ہم قومِ لوط کی طرح بے حس تو نہیں ہوتے جارہے کہ کبھی برستے اولے، برستی بارش اور سیلاب بھی ہمیں جگانے کے لیے ناکافی ہیں؟ مختلف موبائل کمپنیز کے مفت نائٹ پیکیجز اور ان کی اشتہار بازی میں لڑکا لڑکی کی دوستی اور گپ شپ چہ معنی دارد؟ ڈراموں میں بڑھتی بے باکی اور بے راہ روی کا فروغ کس لیے؟ کیا یہ سب دیکھنے کے بعد بھی ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں؟
کرنے کا کام: • پہلے دشمن اور اس کی حکمت ِ عملی سمجھیں، عوام کو آگاہی دیں۔ • اگر کینسر ویکسین ضروری ہے تو پہلے اسکریننگ کی سہولت ہونی چاہیے۔ • جس میں جراثیم پائے جائیں اسے ہی دی جائے سب کو نہیں۔ • صرف ۹ سے ۱۵ سال کی بچیوں کو کیوں ان میں تو سرویکل کی پروبلم ہونی ہی نہیں چاہیے کجا یہ کہ کسی جنسی بیماری کے چانسز ہوں۔ • ہم حکومت پر بھروسا نہیں کر سکتے جب کہ وہ خود ان ہی کی کٹھ پتلی ہے جو بائیو لاجیکل ویپنز استعمال کر رہے ہیں اس لیے پہلے اپنی تسلی کے لیے تحقیق ضروری ہے۔ • بچیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسکریننگ بھی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں ایک طبقہ چھوٹے لڑکوں کے ساتھ بد فعلی میں بھی مبتلا ہے جو ٹرانس جینڈرنگ کے حق میں بھی بہت آواز بلند کرتا ہے ان سے ہم غفلت نہیں برت سکتے۔
• ساتھ ہی فتنوں سے بچنے کی قرانی و مسنون دعاؤں کا اہتمام۔ • اللہ سے گناہوں کی بخشش کی طلب • استغفار کی کثرت اور اس کے فضائل اور برکات پر دروس کا اہتمام۔ • اسلامی اقتدار اور شریعت کے نفاذ کی اعلیٰ سطحی کوششیں اور دعائیں۔ • نمازوں کی پابندی۔ • فجر کے بعد قرآن کا اہتمام۔ • بچوں کی تنہائیوں پر نظر۔ • اپنی سوچوں کی حفاظت۔ • منفی رویوں سے اجتناب۔ • اجتماعیت سے جڑنے کی کوشش خصوصاً اسلامی اجتماعیت۔ • قطع رحمی سے اجتناب۔ • قنوتِ نازلہ اور دعائے نیم شب اور آہِ سحر گاہی کا اہتمام۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے اور دور فتن کے ابھرنے والے تمام فتنوں سے ہمیں محفوظ رکھے، آمین ثم آمین یاربّ العالمین۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہم جنس پرستی ویکسین کی کا اہتمام کی وجہ سے سکتا ہے کرنے کے کو کیوں میں بھی کے ساتھ ا ہے اس ہے اور اور اس رہا ہے بھی اس کی طرح کے بعد کے لیے
پڑھیں:
’پنوتی!‘۔۔۔ ایم بی اے چائے والا کو ایچ ون بی ویزا فیس میں اضافے کی وجہ کیوں کہا جارہا ہے؟
کیلیفورنیا کے گوگل ہیڈکوارٹرز کے باہر ایم بی اے چائے والا کے بانی پرافُل بِلورے کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ حال ہی میں بلورے نے ایک تصویر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کی جس کے کیپشن میں لکھا، ’ہیلو فرام گوگل ہیڈکوارٹرز گوگل پلیکس، ماؤنٹین ویو، کیلیفورنیا، یونائیٹڈ اسٹیٹس۔‘
تصویر سامنے آتے ہی صارفین نے اسے امریکی حکومت کی اچانک نئی پالیسی سے جوڑ دیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایچ-1 بی ویزا کے لیے ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 2 کروڑ 82 لاکھ پاکستانی روپے) کی بھاری فیس کا اعلان کیا، جس کے بعد انٹرنیٹ پر مذاقاً یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ اس فیصلے کے پیچھے ’وجہ‘ پرافُل بِلورے ہی ہیں۔ کچھ صارفین نے ایک بار پھر اُنہیں ’پنوتی‘ کا لقب دے دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بلورے میمز کی زد میں آئے ہوں۔ رواں سال آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران انہوں نے بلے باز سوریہ کمار یادو کے ساتھ ایک سیلفی پوسٹ کی تھی، جس کے بعد یادو کی خراب کارکردگی کو لے کر میمز بنے اور بلورے کو منحوس قرار دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلورے نے خود بھی ان میمز کا حصہ بن کر مذاق کو آگے بڑھایا اور اپنی تصویریں جنوبی افریقی کھلاڑیوں کے ساتھ ایڈٹ کر ڈالیں۔
یاد رہے پرافُل بِلورے ایک بھارتی انٹرپرینیور اور نوجوان کاروباری شخصیت ہیں جنہیں عام طور پر ’ایم بی اے چائے والا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی ایکٹیو ہیں اور اپنی مزاحیہ پوسٹس اور پبلک اسپیکنگ کے باعث اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔ اور اب ایک بار پھر وہ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی تفریح کا مرکز بنے ہوئے ہیں، لیکن اس بار معاملہ کرکٹ نہیں بلکہ امریکی ویزا پالیسی سے جُڑا ہے۔
Post Views: 1