Express News:
2025-09-26@00:14:38 GMT

بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

پاکستانی حکمرانی کے نظام کی شفافیت کا ایک بڑا بحران اچھی طرز حکمرانی سے جڑا ہوا ہے ۔تمام اہل دانش اور سنجیدہ افراد اسی نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے اپنے حکمرانی یا گورننس سے جڑے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دینی ہوگی۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گورننس کے نظام کو موثر بنانے کے لیے سخت گیر اقدامات کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ گورننس کے نظام میں اصلاحات اور بہتری لائے بغیر ہم اپنی معاشی ترقی کے اہداف مکمل نہیں کرسکیں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ گورننس کے نظام کی اصلاح اور جدید ترین یا سخت گیر سطح کی اصلاحات کے لیے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔کیونکہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں کسی بھی صورت میں گورننس کے نظام کی اصلاح کے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس نظام میں موجود غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے مقابلے میں گورننس کے نظام کو موثر اور جدید تقاضوں سمیت عوامی مفادات کے تابع کرنے کی اہم اور بڑی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔لیکن صوبائی حکومتیں بھی ان معاملات میں نہ صرف سیاسی کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہیں بلکہ انھوں نے بھی صوبائی مرکزیت کا نظام قائم کیا ہوا ہے۔اس نظام کے تحت صوبائی حکومتیں کسی بھی صورت میں اپنے ہی صوبہ میں خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کے خلاف ہیں اور اس نظام کی مضبوطی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی صوبائی حکومتیں ہیں جو سیاسی ،انتظامی اور مالی کنٹرول خود تک محدود رکھنا چاہتی ہیں۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود صوبائی حکومتوں کا ایجنڈا گورننس کے نظام کی بہتری کے برعکس نظر آتا ہے ۔صوبائی حکومتوں کا یہ طرز عمل گورننس سے جڑے مسائل کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔گورننس کے نظام کی بہتری میں ہمیں جو رابطہ کاری یا مشاورت پر مبنی نظام وفاقی ، صوبائی یا مقامی انتظامی اداروں کے درمیان نظر آنا چاہیے تھا اس کا گہرا فقدان نظر آتا ہے ۔اس کی بجائے ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں یا ایک دوسرے پر ناکامی کا بوجھ ڈالنے کے عمل کو زیادہ غلبہ نظر آتا ہے ۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل نے مقامی انتظامی ڈھانچوں کو بری طرح تباہ کیا ہے ۔ ہم ان اداروں کو آئینی اور قانون کی بنیاد پر چلانے کی بجائے اس پورے انتظامی ڈھانچے کو ذاتی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر چلارہے ہیں ۔یہ انتظامی ڈھانچے قانون کی حکمرانی کے تابع کم اور افراد یا حکمرانوں کے زیادہ تابع بن کر رہ گئے ہیں جو گورننس کے نظام کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

ایک طرف ارکان قومی، صوبائی اور مقامی سیاسی طاقت ور اشرافیہ اور بیورورکریسی کی مداخلت، اقرباپروری اور کرپشن کے نظام نے گورننس کے نظام میں بگاڑ پیدا کردیا ہے ۔سب سے بڑا المیہ قومی ترجیحات کے تعین میں عدم شفافیت پر مبنی نظام ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکمرانی کے نظام کو بنیاد بنا کر ہم اصلاح کا سیاسی راستہ تلاش نہیں کرسکیں گے۔وفاقی ،صوبائی اور مقامی سطح پر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سالانہ ترقی کے روڈ میپ میں حکمران طبقات اور عوامی ترجیحات میں بڑی واضح خلیج دیکھنے کو ملتی ہے ۔

اس گورننس کے نظام میں کسی بھی سطح پر عوامی مشاورت کا فقدان ہے اور لوگوں کی بنیادی نوعیت کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ہم گورننس کے نظام میں بہتری پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔حالیہ سیلاب کے بحران میں ہمیں متاثرہ علاقوں میں صوبائی ، مقامی سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں کی ایک مکمل کہانی دیکھنے کا موقع ملا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے پاس ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی نہ تو پہلے سے کوئی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی ان حالات کو نمٹنے میں ہماری صلاحیت میں شفافیت نظر آتی ہے۔ ہم نے سالانہ بنیادوں پر یا 2015-30تک پائیدار ترقی کے جو اہداف طے کر رکھے ہیں اس میں بھی ہمیں ناکامی کا سامنا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جب عالمی سطح پر موجود ادارے سماجی ترقی کے تناظر میں ہماری عالمی رینکنگ کرتے ہیں تو ہم پچھلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

گورننس کے نظام کی ایک بڑی ناکامی وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ایک بڑے انتظامی ڈھانچوں اور اداروں کی موجودگی ہے ۔ پہلے سے موجود اداروں کی موجودگی اور ان کی کارکردگی کو موثر بنانے کی بجائے ان اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل پر حکومتی وسائل کا ضیاع ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے پاس عملی سطح پر گورننس کے نظام کی اصلاح کا کوئی مربوط ایجنڈا نہیں ہے۔اسی طرح سیاسی سطح پر وفاقی، صوبائی حکومتوں میں وزرا ،مشیروں اور معاونین کی فوج در فوج اور پھر ان کے لیے بڑی مراعات نے اقرباپروری کا بدنما منظر پیش کیا ہوا ہے۔

جو ترقیاتی منصوبے اور ایجنڈا ہے اس میں ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بڑے بڑے تضادات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ فریق اپنی اپنی مرضی کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں اور کوئی کسی کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی اور ترجیحات کے تعین کے لیے تیار نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا گورننس کا نظام ایک مضبوط اور مربوط ڈھانچے کی بنیاد پر نہیں کھڑا اور اس میں آج کے جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کی کوئی بڑی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے یا ان کو جدید تقاضوں کا ادراک بھی نہیں ہے کہ ہمیں عوامی مفادات کی بنیاد پر گورننس کے نظام کو کیسے چلانا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان گورننس کے نظام میں جہاں ٹکراو نظر آتا ہے وہیں ایک بڑی خلیج بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ جو ہمارا روائتی سیاسی اورانتظامی ڈھانچہ ہے اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور ایک بڑی تبدیلی یا سخت گیر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ۔

اصل چیلنج یہ ہے کہ ریاست اور عوام کے مفادات کو بنیاد بنا کر نظام کی درستگی یا اس میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں کیونکہ ہم ترقی کو محدود طبقوں یا طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں ۔یعنی حکمران طبقہ جب نظام میں اصلاحات کرتا ہے تو اس کی توجہ کا عملًا بڑا مرکز عوام نہیں بلکہ طاقت ور طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے عام آدمی کو اس طاقت ور حکمران طبقات کی اصلاحات کے کھیل میں بھی اپنا استحصال نظر آتا ہے ۔

ہم عالمی دنیا اور عالمی اداروں سے جو بڑی مالیاتی امداد یا منصوبے عام آدمی کی حالت کو بدلنے کے لیے لیتے ہیں ان کا بھی احتساب ہوناچاہیے کہ یہ عالمی امداد کہاں گئی،کس پر خرچ ہوئی اور کس نے اس میں مالیاتی کرپشن کی، یہ حقایق بھی عوام کے پاس آنے چاہیے۔اس لیے اگر واقعی ہم نے حکومت کے نظام میں اچھی حکمرانی یا گورننس کے نظام کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہے تو یہ عمل روائتی طور طریقوں سے ممکن نہیں ہوگا ۔یہ جو ہمیں گورننس کے نظام کی سطح پر غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اس کا علاج بھی غیر معمولی اور سخت گیر تقاضوں کے مطابق ہی ممکن ہوگا۔لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ہے جو خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گورننس کے نظام میں گورننس کے نظام کی گورننس کے نظام کو وفاقی اور صوبائی صوبائی حکومتوں صوبائی حکومتیں یہ ہی وجہ ہے کی بنیاد پر نظر آتا ہے کی اصلاح ترقی کے کرتا ہے سخت گیر

پڑھیں:

موجوہ نظام کو ہائبرڈ یا ون پیج سے منسوب کرنا غلط ہے،رانا ثنا اللہ

وزیراعظم کے مشیر سیاسی امور و بین الصوبائی رابطہ سینیٹر رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ دنیا میں سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا کسی بھی ریاست کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر ریاست کی ضرورت ہے۔
اردو نیوز کودیئے گئے انٹرویو میں   رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’ہمارے ہاں اسے ’ون پیج‘ اور ہائبرڈ کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ریاست کے تمام ستون، فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور سیاست مل کر چلیں تو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں عسکری اور سیاسی قیادت ایک ساتھ چلتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی کئی جہتوں میں ہوتی ہے، چاہے وہ معاشی ہو، مقامی سطح پر ہو، انتظامی ہو یا دفاعی۔ اگر خدا نہ خواستہ کوئی بڑا معرکہ پیش آ جائے تو یہ صرف فوج نے نہیں لڑنا ہوتا، بلکہ پوری قوم کو ساتھ دینا پڑتا ہے۔ جب قوم ساتھ دیتی ہے تو پھر وہ عزت اور کامیابی ملتی ہے جو آج پاکستان کو پوری دنیا میں حاصل ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی لیے دفاعی پہلو جتنا اہم ہے، سیاسی پہلو بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ انتظامیہ اپنی جگہ پر اہم ہے، عدلیہ جس کا کام معاشرے میں انصاف قائم کرنا ہے وہ بھی اتنی ہی اہم ہے۔ لہٰذا ریاست کے تمام ستونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی کسی بھی ملک کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس حقیقت کو اگر مثبت انداز میں بیان کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔
ن لیگ کی صوبائی کابینہ اور سندھ کی کابینہ ارکان کے درمیان نوک جھونک پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ دراصل کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، لیکن اپنے وجود کا احساس دلانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس وزارت ہے اور وہ بالکل بات ہی نہ کرے تو اس کا وجود نظر ہی نہیں آئے گا۔ اس لیے کچھ نہ کچھ کہنا پڑتا ہے تاکہ لوگ سنیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو ان دونوں جماعتوں میں موجودہ نظام کو چلانے پر مکمل اتفاق موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت دونوں جماعتیں اس نظام کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ ہیں۔ کامیاب عمل کے لیے ضروری ہے کہ یہ نظام دو، تین یا چار سال تک مسلسل چلتا رہے تاکہ ایک بہتر انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسی انڈرسٹینڈنگ میں بلاول بھٹو کا وزیرِاعظم بننا بھی شامل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ نظام کا تسلسل برقرار رہے۔ باقی جب انتخابات ہوں گے تو اس وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ کس پارٹی کا عوام پر زیادہ اثر ہے اور وہی اقتدار میں آئے گی۔ فی الحال جو انڈرسٹینڈنگ ہے وہ یہی ہے کہ نظام جاری رکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ البتہ دوسرے یا تیسرے درجے کے سیاستدان یا وزراء کو اگر کسی بات پر اعتراض یا اختلاف ہو تو وہ اظہار کر دیتے ہیں۔ سیاسی کارکن اکثر اپنی جماعتوں میں تنقید بھی کرتے ہیں اور گفتگو بھی۔ یہ سب معمول کی بات ہے۔ سیاسی جماعت کوئی فوجی رجمنٹ نہیں ہوتی کہ ہر بات مکمل خاموشی سے مان لی جائے۔ چھوٹی موٹی باتیں ہو جاتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے کچھ کہا گیا یا ہماری طرف سے کوئی بات زیادہ سخت ہو گئی تو اس میں پریشان ہونے والی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
رانا ثناءاللہ نے پشاور میں پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے کہا کہ تحریک انصاف جتنا مرضی بڑا جلسہ کر لے وہ اپنا ہی نقصان کرے گی، عمران خان کو جلسوں اور احتجاج سے ریلیف نہیں ملنے والا۔
رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ جلسوں سے سیاسی تقویت نہیں ملتی۔ تحریک انصاف والے ملک میں انارکی چاہتے ہیں وہ ملک میں فساد چاہتے ہیں وہ سیاست نہیں کر رہے اور جمہوری رویہ بھی نہیں اپنا رہے۔
انھوں نے کہا سیاست میں یہ تصور ہی موجود نہیں ہے کہ آپ بات چیت، مذاکرات سے دور بھاگیں اور ڈیڈ لاک پیدا کریں۔  یہ کون سا جمہوری رویہ ہے آپ چار سال حکومت کریں اور قائد ایوان یعنی وزیراعظم اپوزیشن سے ایک بار بھی بات ہی نہ کریں، فون بھی نہ کرے ہاتھ بھی نہ ملائے اس طرح سے کبھی جمہوریت چل سکتی ہے۔ ان کا یہ رویہ جمہوریت کے خلاف ہے سیاست کے خلاف ہے۔‘
رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ 24 اور 25 نومبر کو جو کچھ یہ اسلام آباد میں کرنا چاہتے تھے وہ فساد کو انارکی کو اور فتنے کو جنم دیتا ہے۔ جلسہ جو وہ کرنے جا رہے ہیں وہ جلسہ بڑا ہو جائے چھوٹا ہو جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہاں سے ان کی حکومت ہے بڑا جلسہ کرنا کوئی معنی نہیں کرتا۔ سرکاری وسائل خرچ کریں گے سرکاری ملازم کو جمع کریں گے ساتھ اپنے لوگوں کو اکٹھا کریں گے تو بہت بڑا جلسہ ہو جائے گا لیکن اس سے ان کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ اس سے ان کی سیاست میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے لوگ بالکل غلط راستے پہ چل رہے ہیں۔ اس راستے پہ جب تک وہ چلتے رہیں گے وہ ہمیں بھی نقصان پہنچائیں گے ملک کا بھی نقصان کر رہے ہیں لیکن وہ سب سے بڑا نقصان اپنا کریں گے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں کی نظر ثانی کریں اور بیٹھ کر جو بھی مسائل ہیں ان پر بات کریں۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ نومبر میں تحریک انصاف کے کارکنان ڈی چوک پہنچ گئے تھے کیا یہ وزیر داخلہ کی ناکامی نہیں ہے؟ اس پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’میں براہ راست اس کا حصہ نہیں تھا لیکن جلوس کو روکنے کی حکمت عملی میں تھوڑا جھول ہوا جس وجہ سے وہ ڈی چوک پہنچ گئے۔ اس مرتبہ بھی تین جگہ رکاوٹیں لگائی گئی تھیں لیکن بظاہر موثر نہیں ثابت ہو سکیں ورنہ یہ 15 20 ہزار لوگ تھے کوئی اتنا بڑا مجمع بھی نہیں تھا۔ لاکھوں میں نہیں تھا۔ ان کو روکا جا سکتا تھا۔ ہم نے 25 مئی کو ان کو روک کے دکھایا تھا۔ اس وقت عمران خان خود لیڈ کر رہے تھے تو ہم نے روک دیا تھا۔‘
’تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگ گالم گلوچ گینگ سے ڈرتے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعت دراصل عمران خان صاحب کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ انہوں نے اسے ایک حقیقی ادارہ نہیں بنایا اور نہ ہی کوئی اپنا نائب پیدا کیا۔ یہ صرف عمران خان صاحب ہیں جن کے گرد پارٹی کھڑی ہے۔ ان کے ساتھ کئی اچھے اور باصلاحیت لوگ بھی موجود ہیں، بہت سے تجربہ کار اور میچور رہنما بھی ہیں جنہوں نے مختلف حیثیتوں میں کام کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ لوگ کسی قابل نہیں یا غیر سنجیدہ ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے انہیں کسی مؤثر مقام یا فیصلہ سازی میں جگہ نہیں دی۔ وہ لوگ بیچ میں اپنی رائے اور معاملات رکھتے تو ہیں، لیکن ان کی کوئی حیثیت یا وزن نہیں بنتا۔
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگ آپ سے ملاقات کریں گے، اپنی بات کریں گے، لیکن ان کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عملی طور پر پارٹی کے فیصلے عمران خان کے ہاتھ میں ہیں۔ یوں ایک طرف عمران خان ہیں، دوسری طرف وہ تمام خیر خواہ اور حمایتی ہیں، لیکن وہ سب بے بس ہیں کیونکہ گالم گلوچ گینگ ایک فائٹنگ فورس کی طرح ہیں۔ اگر پارٹی میں کوئی شخص ذرا سا بھی مختلف رائے یا سمجھداری کی بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کی فوراً مخالفت کر دی جاتی ہے اور اس کے لیے پارٹی میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔

نواز شریف کی قومی امور سے عملاً لاتعلقی اور خاموشی سے متعلق سوال پر رانا ثناءاللہ نے کہا کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیرِاعظم نامزد کیا تھا، اور اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے الیکشن سے پہلے ہی بھرپور انداز میں یہ کہہ دیا تھا کہ میں اپنی پارٹی کی اکثریت کے بغیر وزیراعظم نہیں بنوں گا۔ مخلوط حکومت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اتحادی اور اپنی جماعت کی حکومت کا تجربہ مختلف ہے اور یہ وہ چیز ہے جس پر شہباز شریف کو عبور حاصل ہے۔ انہیں اس تجربے میں ایک طرح کی ’پی ایچ ڈی‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ جب مسلم لیگ ن سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی تو اس وقت یہ فیصلہ پارٹی کے اندرونی اتفاقِ رائے کے تحت ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر اب بھی حکومتوں کے بنیادی فیصلے نواز شریف کی مشاورت اور مرضی سے ہوتے ہیں۔ البتہ نواز شریف نے اپنے اوپر خود سے ایک پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ ان معاملات میں میڈیا پر کوئی بیان نہیں دیں گے اور نہ ہی میڈیا سے کوئی گفتگو کریں گے۔
’اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف بات کریں گے تو پھر شہباز شریف اور مریم نواز کو کون سنے گا۔ تاہم اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی جماعت اور حکومت سے لاتلقی اختیار کر رکھی ہے۔ جو حقیقت نہیں ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • موجوہ نظام کو ہائبرڈ یا ون پیج سے منسوب کرنا غلط ہے،رانا ثنا اللہ
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام وفاقی نوعیت کا ہے، سیلاب زدگان کی مدد صوبائی سطح پر ہوگی۔رانا ثنا اللہ
  • بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام وفاقی نوعیت کا ہے، سیلاب زدگان کی مدد صوبائی سطح پر ہوگی: رانا ثناء اللّٰہ
  • اقوام متحدہ کے نظام کی قانونی حیثیت میں ہی اے آئی گورننس کی بنیاد ہونی چاہیے: خواجہ آصف
  • پختونوں کی سرزمین پر ڈالری جنگ مسلط کرکے امن و امان کو داو پر لگادیا گیا ہے، عبد الواسع
  • پاکستان کی معیشت سنگین موڑ پر، سیلاب اور سرمایہ کے انخلا نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • پنجاب گورننس کانیاماڈل پیش کرنے والاپہلاصوبہ بن گیاہے،وزیر اعلیٰ پنجاب
  • سانحہ تیراہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں‘ عبد الواسع
  • پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سکھ برادری کو وزیر بنایا؛یہاں اقلیتیں محفوظ ہیں ؛ صوبائی وزیر رمیش سنگھ اروڑہ