امریکا نے نیویارک کی سڑکوں پر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے میں شرکت پر کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو کا ویزا منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کولمبیا کے صدر نے احتجاج میں امریکی فوجیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو نہ مانیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر جاری بیان میں کہا کہ پیٹرو کے غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز اقدامات کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:غزہ میں نسل کشی کے باوجود امریکا اسرائیل کو 6.

4 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کو تیار

پیٹرو نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے باہر فلسطین نواز مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایک ایسی عالمی مسلح فورس تشکیل دینا ہوگی جس کی اولین ترجیح فلسطینیوں کو آزادی دلانا ہو۔ ان کا کہنا تھا یہ فورس امریکا سے بھی بڑی ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یہاں نیویارک سے امریکی فوجیوں سے کہتا ہوں کہ اپنی بندوقیں عوام کی طرف نہ کریں۔ ٹرمپ کے احکامات نہ مانیں، انسانیت کے احکامات مانیں۔

واضح رہے کہ پیٹرو، جو کولمبیا کے پہلے بائیں بازو کے صدر ہیں، اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران بھی ٹرمپ کو غزہ میں نسل کشی کا شریک جرم قرار دے چکے ہیں اور امریکی میزائل حملوں پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

دریں اثنا فلسطینی صدر محمود عباس کو بھی امریکی حکومت نے نیویارک کا ویزا دینے سے انکار کر دیا، جس پر فلسطینی حکام نے کہا کہ یہ اقدام 1947 کے اقوام متحدہ ہیڈکوارٹر معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے یرغمالیوں کی واپسی کی شرط رکھ لی

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں مغربی ممالک پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اقدامات یہ پیغام دیتے ہیں کہ یہودیوں کا قتل فائدہ مند ہے۔

واضح رہے کہ غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 65 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا غزہ فلسطین کولمبیا

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا فلسطین کولمبیا

پڑھیں:

امریکا کا ٹونی بلیئر کی سربراہی میں غزہ کا عبوری انتظامی ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ

امریکا غزہ میں حکومت کی تبدیلی اور نئی انتظامیہ کے قیام سے متعلق ایک نیا اور حیران منصوبہ سامنے لایا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اس منصوبے کی سربراہی برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کے سپرد کر رہا ہے۔ جسے غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (جیٹا) کا نام دیا گیا ہے۔

یہ ادارہ پانچ سال تک غزہ کی اعلیٰ سیاسی اور قانونی اتھارٹی کے طور پر کام کرے گا اور فلسطین اتھارٹی کا نعم البدل بھی ہوسکتا ہے جب کہ اس میں حماس کا بھی کوئی کردار نہیں ہوگا۔

برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق یہ ماڈل تیمور لیستے اور کوسوو جیسے خطوں میں بننے والی عبوری حکومتوں سے متاثر ہے۔

ابتدائی طور پر جیٹا کا ہیڈکوارٹر مصر کے شہر العریش میں ہوگا، بعد ازاں یہ اقوام متحدہ کی منظوری اور ایک کثیر القومی امن فورس کے ہمراہ غزہ میں داخل ہوگی۔

جیٹا کا انتظامی ڈھانچہ

 

جیٹا کا بورڈ سات سے دس ارکان پر مشتمل ہوگا، جن میں ایک فلسطینی نمائندہ، ایک اعلیٰ اقوام متحدہ کا افسر اور نمایاں مسلم شخصیات شامل ہوں گی۔

ایگزیکٹو سیکریٹریٹ میں 25 ارکان ہوں گے، جن میں پانچ کمشنرز کلیدی شعبوں جیسے انسانی امور، تعمیر نو، قانون سازی، سکیورٹی اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) سے روابط سنبھالیں گے۔

ایک خصوصی "پراپرٹی رائٹس یونٹ" قائم ہوگا تاکہ فلسطینیوں کی جائیداد کے حقوق محفوظ رہیں اور نقل مکانی کی صورت میں واپسی یقینی ہو۔

جیٹا کسی فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کرے گا۔

سیاسی ردعمل اگرچہ امریکا اس تجویز کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقوام متحدہ کے نیویارک ڈیکلریشن کے درمیان ایک "سمجھوتہ" قرار دے رہا ہے، مگر اس نے خطے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت امن فورس میں حصہ ڈالیں گے جب فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح اور ناقابل واپسی روڈمیپ دیا جائے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ ٹونی بلیئر کا منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ نہیں کھولتا بلکہ اسرائیل کے لیے نرم قبضے کا ایک نیا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔

تنازع اور تحفظات ٹونی بلیئر ماضی میں بھی خطے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ایلچی رہ چکے ہیں، لیکن ان کی شخصیت متنازع سمجھی جاتی ہے۔ عراق جنگ کی حمایت اور فلسطینی ریاست کے قیام میں مبینہ رکاوٹ کے باعث کئی فلسطینی اور عرب رہنما ان پر اعتماد نہیں کرتے۔

دوسری جانب، بعض مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کی مدت پانچ سال سے کم ہو کر دو سال تک بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے نفاذ کو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے مشروط کیا جا رہا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کا موقف فلسطینی صدر محمود عباس نے جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ حماس کو جنگ کے بعد غزہ کے نظم و نسق میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ ریاستِ فلسطین کا لازمی حصہ ہے اور ہم وہاں حکومت اور سکیورٹی کی مکمل ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا نے جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل محمود عباس کا ویزا منسوخ کر دیا تھا، جس کے باعث وہ نیویارک میں موجود نہیں تھے۔

ٹرمپ کا بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں عرب اور مسلم رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ناقابل قبول ہوگا۔

 

متعلقہ مضامین

  • امریکا کی کولمبین صدرکو فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے پر ویزا منسوخی کی دھمکی
  • بھارت کو ایک اور دھچکا ،امریکا نے ادویات پر 100 فیصد ٹیرف عاید کردیا
  • امریکا کا ٹونی بلیئر کی سربراہی میں غزہ کا عبوری انتظامی ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ
  • چین نے 6 امریکی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا، تجارتی کشیدگی میں اضافہ
  • چین نے نوجوان سائنسدانوں اور ماہرین کے لیے نیا ’کے‘ ویزا متعارف کرادیا
  • پاک امریکا سربراہ ملاقات ختم، شہباز شریف وائٹ ہاؤس سے نیویارک روانہ ہو گئے, فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی ہمراہ تھے
  • ایچ-1 بی ویزا کی لاگت میں غیر معمولی اضافہ، 8 امریکی متبادل ورک ویزے کونسے؟
  • امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟
  • اسرائیلی فوج نے غزہ پر بمبار ی اور فائرنگ:ایک ہی دن میں 63 فلسطینی شہید