Express News:
2025-11-19@05:59:08 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

غزل
آتے جاتے سلام کرتے ہیں 
اس کا جینا حرام کرتے ہیں 
بات جب جب ہو پارسائی کی
پیش ہم اس کا نام کرتے ہیں
ہاتھ کانوں سے جا کے لگ جائیں 
لوگ ایسے بھی کام کرتے ہیں
دیکھ کر جس کو چین ملتا ہو 
اس کے حجرے میں شام کرتے ہیں
نفرتیں پھول دے کے ہم جیسے
ختم یہ انتقام کرتے ہیں
ہم سے آوارا لوگ بھی اب تو 
صبح سے شام کام کرتے ہیں 
آپ وارث ہیں پھر یہ ڈر کیسا
ایسی باتیں غلام کرتے ہیں
پھونکتا ہے جو پتھروں میں جان 
چل کے اس سے کلام کرتے ہیں
ختم کرتے ہیں اس کی ناراضی 
آج قصہ تمام کرتے ہیں
(عظیم کامل۔ جام پور)

۔۔۔
غزل
میں پوچھتا ہوں مگر پوچھنا نہیں بنتا 
بنے گا کون اگر میں ترا نہیں بنتا
مجھے تو چھوڑ رہی ہے مگر یہ دھیان رہے 
کسی کو بیچ سڑک چھوڑنا نہیں بنتا 
تمام لوگ کہیں بے وفا، تو کہتے رہیں 
یہ بات کرنا مگر آپ کا نہیں بنتا
اگر میں سیدھ میں چلتا تو جیسی دنیا تھی 
مرے چہار طرف دائرہ نہیں بنتا 
مرا بھی باپ اگر لینڈ لارڈ ہوتا تو
کبھی تمہارے لیے مسئلہ نہیں بنتا
جو مجھ سے دور گئے تھے، قریب آنے لگے
تمہی بتاؤ کہ اب قہقہہ نہیں بنتا 
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)

۔۔۔
 غزل
درونِ دل ہے جو وحشت اُسے قرار نہیں
یہ رتجگے ہیں مری آنکھ میں،خمار نہیں
خوشی منائیں جنہیں اختیار ہے اِس کا
ہمیں تو خیر کسی شے پہ اختیار نہیں 
وہ ایک شخص جو مل ہی نہیں رہا مجھ کو
سو مجھ کو اپنے مقدر پہ اعتبار نہیں
تمہارے واسطے کرنا ہے اختیار سفر
وگرنہ شہر کے حالات سازگار نہیں
حنا یہ لوگ مجھے رائیگاں سمجھتے ہیں
کسی قطار میں یعنی مرا شمار نہیں
(حناکوثر۔ منڈی بہاؤ الدین)

۔۔۔
غزل
سکونِ دل کا وہی انتظام کر دے گا
گمان ہے کہ جو نیندیں حرام کر دے گا
وطیرہ عاجزی کو تم اگر بناؤ گے
کریم ربّ ہے وہ اونچا مقام کر دے گا
وہ آدمی تو بڑا سخت گیر لگتا ہے
مگر میں فون کروں گا تو کام کر دے گا
اسی کے ہاتھ میں انسان کا ہے خیر و شرور
جو چاہے پل میں ہی قصّہ تمام کر دے گا
تجھے لعین کی چالوں سے بچ کے رہنا ہے
یہ تجھ کو نفس کا آخر غلام کر دے گا
میں اس کے شہر میں اترا ہوں اس یقین کے ساتھ
وہ انتظامِ طعام و قیام کر دے گا
ہوئی ہے بھول وہ انجان درد پالا ہے
کرے گا دق جو ہمیں صبح، شام کر دے گا
ملن کے وقت کوئی آنکھ بھر کے دیکھے گا
دل و نظر کے کشادہ صمام کر دے گا
کوئی گیا ہے مرض لا علاج دے کے رشیدؔ
معالجے کا کوئی اہتمام کر دے گا
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
آخری سانس کی ہے بات سمجھ
ہونے والی ہے مجھ کو مات سمجھ
بدلے تیور سے لگ رہا ہے مجھے 
یار لوگوں کی ہے یہ گھات سمجھ
نقش سب مٹ چکے ہیں جینے کے
غور سے دیکھ میرا ہاتھ سمجھ
تو نے سمجھا نہیں ہے دنیا کو
میں نے سمجھی ہے کائنات سمجھ 
میرے مرنے کے بعد یہ دنیا
اک فسانہ لگے گی بات سمجھ
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)

۔۔۔
غزل
یہی نہیں کہ فقط آشیانہ چھوٹے گا
تمہارے عشق میں پھر آب و دانہ چھوٹے گا 
تمہاری دید اگر ہو تو شرک کیا معنی 
میں شرک چھوڑوں تو وہ آستانہ چھوٹے گا
اس ایک ڈر نے ہی سادات کا کیا ہے غلام
خدا بھی چھوٹے گا گر یہ گھرانہ چھوٹے گا
اگر وہ چھوٹ گیا مجھ سے دین دار سا شخص
تو اس کے بعد یہ سارا زمانہ چھوٹے گا 
ترے سخن نے ہے ارباب ؔزندگی بخشی
ہزار شکر کہ اب جاں سے جانا چھوٹے گا
(ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
پہلے آنکھوں کو اشکبار کیا 
دل نے پھر صبر اختیار کیا
کچھ ہوا سے مری عداوت تھی
کچھ چراغوں نے شرمسار کیا
یہ ستاروں کے سوگ میں کس نے 
پیرہن شب کا تار تار کیا
کچھ نے تو خون پر سیاست کی 
کچھ نے لاشوں پہ کاروبار کیا
ایک آنسو کا سامنا تھا مجھے 
ایک دریا کو میں نے پار کیا
جانے کب بارشوں کے دن آئیں
جن کا پیڑوں نے انتظار کیا 
زندگی کے یہ دن گنے میں نے 
پھر ترے ہجر کا شمار کیا
(راشد انصر۔ پاکپتن )

۔۔۔
غزل
کون بیٹھا ہے مرے خوابوں میں گھر کے سامنے
رقص کرنے لگ گئے ہیں خواب در کے سامنے
منصفی بکنے لگی ہے تاجور کے سامنے
بولتا کوئی نہیں اب فتنہ گر کے سامنے
وہ دلوں کو توڑتا ہے توڑ کر ہنستا بھی ہے
ٹک سکا ہے کب کوئی اس کے ہنر کے سامنے
کیا عجب موسم ہے سائے بھی چٹخنے لگ گئے
ہر گھڑی کچھ ٹوٹتا ہے ہر نظر کے سامنے
روشنی بھی سہم کر پیچھے ہٹی ہے بار بار
جب سے آیا ہے وہ سایہ بام و در کے سامنے
داستانِ ضبط کا کر دار ہونا پڑ گیا 
ہر سوال اب جرم ٹھہرا راہبر کے سامنے
روزنِ دل میں پڑی ہیں آہٹیں کچھ بے قرار
کچھ دعائیں چیختی ہیں خود اثر کے سامنے
نقش بے معنی سا لگنے لگ گیا افضل صفیؔ
عکس کیوں خاموش ہے آئینہ گر کے سامنے
(افضل صفی ۔فتح پور، لیہ )

۔۔۔
غزل
اِس کارِ محبت میں تجارت نہیں کی ہے
حاصل کوئی اِس فن میں مہارت نہیں کی ہے
کب تک ترے دیدار کو ترسیں گی یہ آنکھیں
اک عرصہ ہوا تیری زیارت نہیں کی ہے
اس خاک نے ملنا ہے اسی خاک میں اک دن
یہ سوچ  کے مٹّی سے حقارت نہیں کی ہے
دل جان سے حاکم جو تجھے دل کا بنایا
پھر حکم عدولی کی جسارت نہیں کی ہے
دوچار کرے رنج و الم سے جو کسی کو
جیون میں کبھی ایسی شرارت نہیں کی ہے
اُلفت کا سبق دے کے اُتارا تھا زمیں پر
سب سے کی محبت ہی حقارت نہیں کی ہے
جھوٹے ہیں ترے وعدے یہ معلوم تھا راحلؔ
سو جھوٹ پہ تعمیر عمارت نہیں کی ہے
( علی راحل۔ بورے والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل
کب کسی شخص کا ہم لوگ برا مانگتے ہیں
مانگتے ہیں تو محبت کی دعا مانگتے ہیں
یہ تعجب ہے گھڑی بھر کو محبت کرکے
لوگ توفیق سے آگے کا صلہ مانگتے ہیں
ہم کبھی شام میں جائیں جو زیارت کرنے
اپنے مرقد کے لئے کرب و بلا مانگتے ہیں
تیری سطوت سے بھلا ہم کو شکایت کیسی
ہم فقط شہر کے بھوکوں کی غذا مانگتے ہیں
ہمیں یہ لوگ بتاتے ہیں کہ ہجرت کر لو
ہم ترے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا مانگتے ہیں
تیرے بدخواہوں سے نسبت نہیں اپنی فیضیؔ
ہم تو ہر حال میں بس تیرا بھلا مانگتے ہیں
( سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)

۔۔۔
غزل
گھر سے نکلی، کہا سہیلی کا
پھول ہمراہ تھا چنبیلی کا
بالا خانے سے چیخ اٹھتی تھی
اور در بند تھا حویلی کا
وقت فرمانروائے دلّی ہے
اور میں بخت ہوں بریلی کا
اس نے دستِ طلب دراز کیا
چھید ظاہر ہوا ہتھیلی کا
وقت کولہو ہے اور ہم سب بیل 
منفرد ہے نظام تیلی کا 
(عقیل عباس۔ منڈی بہاؤالدین)

۔۔۔
غزل
مرے یاروں میں وہی جذبۂ ماضی نہیں تھا
ایک بھی طرزِسلف کا متقاضی نہیں تھا
اپنی خواہش تھی کہ حق بات پہ قدغن نہ رہے
حاکمِ وقت اسی بات پہ راضی نہیں تھا
عدل کی اس سے توقع میں بھلا کیا رکھتا
اونچی مسند پہ جو بیٹھا تھا وہ قاضی نہیں تھا
آج وہ لوگ جہاں پر ہیں مسلّط جن کا
کوئی حصّہ بھی جہاں بھر میں اراضی نہیں تھا
(محبوب الرّحمان محبوب۔سینے،میاندم،سوات)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مانگتے ہیں نہیں کی ہے نہیں بنتا نہیں تھا کرتے ہیں کے سامنے کر دے گا کوئی ا

پڑھیں:

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں: پاکستان

—فائل فوٹو

پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ غزہ میں تنازع کے خاتمے کے لیے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں، امن معاہدے سے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہوا ہے۔

سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان نے غزہ منصوبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

سلامتی کونسل سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ بنیادی مقصد غزہ میں معصوم فلسطینوں کے قتل عام کی روک تھام ہے، غزہ سے اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلاء چاہتے ہیں۔

سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور

قرار داد میں غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی اور غزہ میں عبوری حکومت کے قیام کے نقاط بھی شامل ہیں۔

عاصم افتخار کا کہنا ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ہمارا مقصد ہے، فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔

قرارداد کے حق میں پاکستان سمیت 13 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

قرارداد میں غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی اور غزہ میں عبوری حکومت کے قیام کے نقاط بھی شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیکنالوجی کے بےتاج بادشاہ: ایلون مسک اور جیف بیزوس آمنے سامنے، آپس میں نوک جھونک
  • ٹیکنالوجی کے دو بے تاج بادشاہ آمنے سامنے؛ ایلون مسک اور جیف بیزوس کی نوک جھونک
  • شہزاد اقبال نے شہباز گل کے الزامات پر حقائق سامنے رکھ دیے
  • اہلیہ کی سوشل میڈیا پر معنی خیز پوسٹ، سلمان آغا کا ردعمل سامنے آگیا
  • ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں: پاکستان
  • عرب ممالک بھی ''فلسطینی ریاست کا قیام'' نہیں چاہتے، نیا اسرائیلی دعوی
  • ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل قومی ٹیم کے کپتان سلمان آغا اہم بیان
  • ’شیخ حسینہ کو نہیں بھارتی بالادستی کو سزائے موت سنائی گئی‘، بالآخر تاریخ کا فیصلہ سامنے آگیا
  • پارلیمنٹ جب چاہے گی آئین میں ترمیم کرے گی، طلال چوہدری کا ججز کو واضح پیغام