اگر امریکا ایک دن سر سے ہاتھ اٹھا لے
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
امریکا انیس سو اڑتالیس سے اب تک اسرائیل کو لگ بھگ چار سو ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔اس میں سے پچاس ارب ڈالر اقتصادی اور ساڑھے تین سو ارب ڈالر عسکری مد میں شامل ہیں۔ اسرائیل کے لیے سالانہ تین اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر کا وظیفہ الگ سے بندھا ہوا ہے جب کہ سب سے بڑی عرب فوج کے مالک مصر کو بھی بطور گڈ بوائے اسرائیل کے لیے دردِ سر نہ بننے کے عوض ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ ملتے ہیں۔
جب سے غزہ کا نسل کش بحران شروع ہوا۔ اسرائیل کو لگ بھگ چودہ ارب ڈالر کا اضافی اسلحہ اور گولہ بارود بھی پہنچایا جا چکا ہے۔فارن ملٹری سیلز گرانٹ کے قانون کے تحت عسکری امداد کی لازمی شرط یہ ہے کہ سامان امریکی کمپنیوں سے ہی خریدا جائے گا۔مگر اسرائیل کو استثنٰی ہے کہ وہ امریکی گرانٹ سے اپنی مقامی اسلحہ ساز کمپنیوں سے بھی سامان خرید سکتا ہے۔
بظاہر اسرائیل اور امریکا کے درمیان مشترکہ دفاع کا کوئی رسمی معاہدہ نہیں اور اسرائیل کو بھی چند منتخب ممالک کی طرح امریکا نے ناٹو سے باہر کے قریب ترین اتحادی کا درجہ دے رکھا ہے۔مگر اس درجے میں بھی کئی ذیلی درجے ہیں۔جیسے قطر کو بھی یہی درجہ ملا ہوا ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہوا ؟ اسرائیل ناٹو سے باہر کا واحد امریکی اتحادی ہے جسے ہنگامی ضرورت میں امریکی فوج کے لیے مختص اسلحے کے زخیرے میں سے بھی سامانِ حرب فراہم کیا جا سکتا ہے۔
مزید براں امریکی ٹیک کمپنیوں کو اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ ہر طرح کے حساس اشتراک کی کھلی چھوٹ ہے۔کوئی بھی امریکی شہری اسرائیلی فوج میں کسی بھی طرح کی خدمات انجام دے کر بھی امریکی شہریت برقرار رکھ سکتا ہے۔
دیگر اتحادیوں کو دفاعی و اقتصادی امداد کی منظوری دیتے ہوئے امریکی کانگریس یہ بھی دیکھتی ہے کہ آیا یہ مدد انسانی حقوق کی پامالی یا جارحانہ کارروائی کے لیے تو استعمال نہیں ہو گی۔اس بابت پاکستان سمیت کئی امریکی اتحادی سوال و جواب کے پلِ صراط سے متعدد بار گذر چکے ہیں۔ جب اسرائیل کا معاملہ درپیش ہو تو بھلے وائٹ ہاؤس ہو یا کانگریس۔انسانی حقوق کی پامالی اور جارحیت کے معانی دونوں جگہ آسانی سے بدل دیے جاتے ہیں۔
امریکا اسرائیل کی بھرپور سفارتی ڈھال بھی ہے بھلے وہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا معاملہ ہو یا بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا جنگی جرائم کی عالمی عدالت کی قانونی آرا اور فیصلوں کی تپش سے اسرائیل کو محفوظ رکھنے کا مشن ہو۔
سوال یہ ہے کہ اب جب کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں موڈ بدل رہا ہے اور رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق لگ بھگ آدھے امریکی ووٹرز امریکا کی ااندھا دھند اسرائیل نوازی سے بیزار دکھائی دے رہے ہیں۔فرض کریں کسی دن امریکا اسرائیل کے سر سے ہاتھ اٹھا لے تو کیا ہو گا ؟
سرکردہ اسرائیلی صحافی اوری گولڈبرگ کہتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوا تو وہ یورپی ممالک جو اپنی اسرائیل نواز پالیسی پر نظرِ ثانی کا سوچنے سے پہلے امریکا کی جانب دیکھتے ہیں انھیں بھی اپنی نگاہیں تیزی سے بدلنے میں آسانی ہو جائے گی۔حتی کہ جرمنی جو پچھلے آٹھ عشروں سے یہودی نسل کشی کے احساسِ جرم اور اسرائیل کی جذباتی بلیک میلنگ کا قیدی ہے ، پہلی فرصت میں پالیسی بدلے گا۔
امریکا کے یو ٹرن لیتے ہی سلامتی کونسل اقوامِ متحدہ کنونشن کے باب سیون کے تحت فلسطینی تنازعے کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر اس میں مسلح مداخلت ایران کی طرز پر اسرائیل کے معاشی مقاطعے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔اوری گولڈ برگ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کا اقتصادی و دفاعی انحصار امریکا پر ہے مگر امریکی پالیسی بدلنے کے اگلے ہی دن اسرائیل گھٹنوں کے بل نہیں جھکے گا۔
حالیہ برسوں میں اسرائیل سائنسی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں خاصا آگے بڑھ گیا ہے اور اسرائیلی کمپنیاں دفاعی اور دیگر ٹیکنالوجیز کے کئی میدانوں میں امریکا کی مدد سے سبقت حاصل کر کے اچھا خاصا زرِ مبادلہ کما رہی ہیں۔اگر امریکی سرپرستی سے محرومی کے نتیجے میں اسرائیلی معیشت بتدریج بحران اور بے روزگاری کی چپیٹ میں آتی ہے اور اس کی عسکری طاقت علاقائی سبقت کھونے لگے تب سمجھا جائے گا کہ اسرائیل کو واقعی تکبر کی سیڑھی سے اتار لیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے ایک سابق مشیر ڈینیل لیوی کہتے ہیں کہ فلسطینیوں سے آج جو سلوک ہو رہا ہے۔ امریکا اسرائیل پر سے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس سلوک کی ماہیت بدل جائے گی۔اس معاملے پر خود اسرائیلی سماج میں دائیں بازو کے کٹر مذہبی آبادکاروں اور لبرلز میں ایک خلیج پیدا ہو رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ گہری ہو کر بالاخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر سکتی ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک روسی کیپ سے منسلک محقق ایچ اے ہیلر کا خیال ہے کہ امریکا ہاتھ اٹھا لے تب ہی اسرائیل اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پرامن اور نارمل طریقے سے رہنے کے بارے میں سنجیدہ ہو گا۔ شاید اسرائیل کے لاشعور میں بھی ایسا ہی کوئی خدشہ ہے۔چنانچہ ایسا کوئی وقت آنے سے پہلے اسرائیل اپنے اہداف تیزی سے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ بدلے ہوئے حالات میں بھی سودے بازی کے لیے کچھ مضبوط پتے ہاتھ میں ہوں۔
اسرائیل اٹھہتر برس سے مغرب کو چورن بیچ رہا ہے کہ اسے عرب ہمسائیوں اور فلسطینیوں سے بقائی خطرہ لاحق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ لبنان ، شام ، اردن حتی کہ مصر بھی امریکی سرپرستی سے اسرائیل کی ممکنہ محرومی کے کئی برس بعد تک کسی بڑی مہم جوئی کے قابل نہیں ہوں گے ۔ اصل بقائی خطرہ ہمسائے نہیں بلکہ عظیم تر اسرائیل کا نظریہ ہے۔
اے ایچ ہیلر کا کہنا ہے کہ اگر امریکا ہاتھ اٹھا لیتا ہے تو اسرائیل کو ویسی ہی بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو ایک زمانے میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے جنوبی افریقہ کی گوری حکومت پر لگائی گئی تھیں اور بالاخر وہاں اپارتھائیڈ کا خاتمہ ہوا۔
ایک عرب دفاعی ماہر حمزہ عطار کا خیال ہے کہ اگر کل امریکا اسرائیل سے الگ تھلگ ہو جائے تو اسرائیل پھر بھی غزہ جیسی کارروائی کم ازکم ایک برس تک جاری رکھ سکتا ہے۔ بدلتے حالات شاید اسے رفتہ رفتہ سمجھا دیں کہ غزہ میں استعمال ہونے والی ہر گولی اس کی بقائی دفاعی ضرورت کو کمزور کر رہی ہے۔
اسرائیل کا آئرن ڈوم اور ایرو دفاعی نظام بڑی حد تک امریکی تعاون پر انحصار کرتا ہے۔امریکی مصنوعی سیارے علاقے میں حریفوں پر نظر رکھنے کے لیے اسرائیل کی آنکھوں اور کانوں کا کام کرتے ہیں۔ان سہولتوں سے محرومی کے بعد اسرائیل کی عسکری برتری کا خاتمہ ہو جائے گا اور حریف ممالک بھی اسرائیل کے اندر ویسے ہی باآسانی جھانک سکیں گے جیسے ان دنوں اسرائیل جھانک سکتا ہے ۔
امریکی ہتھیاروں کی عدم دستیابی کی صورت میں اسرائیل لامحالہ یورپ سے رجوع کرے گا مگر یورپ خود روس کے مقابلے میں اپنے دفاعی شگاف بھرنے میں مصروف ہے۔ یورپ سے ہتھیار ملے بھی تو مفت امریکی ہتھیاروں کے بجائے نقد پیسے سے ملیں گے۔چنانچہ اسرائیل کو اپنی جیب دیکھتے ہوئے شاپنگ لسٹ پر بارہا نظرِ ثانی کرنا پڑے گی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کے اسرائیل کا اسرائیل کی ہاتھ اٹھا ارب ڈالر سکتا ہے ہے کہ ا اور اس کے لیے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان کی امریکا کو پسنی پورٹ ٹرمینل میں سرمایہ کاری کی پیشکش
پاکستان نے امریکا کو بحیرہ عرب کے ساحل پر نیا پورٹ بنانے کی پیشکش کی ہے۔
برطانوی مالیاتی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے مشیروں نے امریکی حکام کو تجویز دی ہے کہ امریکی سرمایہ کار بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں ٹرمینل تعمیر اور آپریٹ کریں تاکہ پاکستان کی اہم معدنیات تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانی فیلڈ مارشل بہت اہم شخصیت ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی جنرل عاصم منیر کی پھر تعریف
میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ پیشکش اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ نے گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں وزیراعظم نے امریکی کمپنیوں کو زراعت، ٹیکنالوجی، توانائی اور مائننگ کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ امریکی فوجی اڈوں کے لیے نہیں بلکہ صرف تجارتی مقاصد کے لیے ہے۔ اس کا مقصد ترقیاتی سرمایہ کاری کے ذریعے پسنی پورٹ کو معدنی وسائل سے مالا مال مغربی صوبوں سے ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے منسلک کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں پاکستان نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے‘
تاہم رائٹرز کے مطابق اس خبر کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ امریکی محکمہ خارجہ، وائٹ ہاؤس اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ پاکستانی فوج کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرمی چیف پاکستان پسنی پورٹ ٹرمپ شہباز شریف عاصم منیر