اسرائیل نواز صحافی کی پاکستان کے رازوں تک رسائی
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برصغیر کی تاریخ ایسے بادشاہوں کی کہانی ہے جو بڑی بڑی سلطنت کے وارث تھے مگر خوشامدی درباریوں کے حصار میں حقیقت سے کٹ گئے۔ محمد شاہ رنگیلا کی رنگینیوں نے دہلی کو نادر شاہ کے حوالے کیا۔ شاہ جہان خوشامدی مشوروں کے باعث قید خانے کا قیدی بنا۔ سراج الدولہ غداروں کے نرغے میں پلاسی ہار گیا اور بہادر شاہ ظفر جھوٹی تسلیوں کے سہارے رنگون کی جلاوطنی تک جا پہنچا۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جو حکمران سچائی سننے کے بجائے درباریوں کی میٹھی باتوں پر یقین کر لے وہ اپنی سلطنت اپنا وقار اور کبھی کبھی اپنی جان تک گنوا دیتا ہے۔ ن لیگ کے پارٹی ’’مالکان‘‘ بھی خوشامد پسندی کے اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ بڑے میاں صاحب نے بارہا خوش آمدیوں کو بڑے عہدوں سے نوازا اور پھر انہی کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے، مگر ماضی کی غلطیوں سے آج تک کوئی سبق نہ سیکھا۔
وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورۂ امریکا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد بھی کچھ ایسی ہی صورتحال آشکار ہوئی، کیونکہ خوشامد پسند مزاج کے ہاتھوں مجبور بلکہ محصور ہوکر وزیراعظم صاحب نے شمع جونیجو نامی ایک اسرائیل نواز خاتون کو حساس اور انتہائی اہم میٹنگز میں شریک کرلیا، مگر یہ جاننے کی زحمت نہ کی کہ محترمہ ٹویٹر پر کس طرح برسوں سے اسرائیل سے اظہار محبت کرتی چلی آرہی ہیں۔ چنانچہ شمع جونیجو کی اقوام متحدہ اور حساس اجلاسوں میں شمولیت اس امر کا ثبوت ہے کہ ایک اسرائیل نواز صحافی نے صرف خوشامد کے زور پر پاکستان کی اہم معلومات تک رسائی پا لی۔
حکومت کے نزدیک ان کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ عمران خان کی شدید مخالف ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ عمران خان کے ’’سسرائیلیوں‘‘ یعنی اسرائیل کی زبردست حامی بھی ہیں۔ مشکوک کردار کی حامل یہ خاتون ایک طرف عمران خان پر سخت تنقید کرتی ہیں اور دوسری طرف انہی کے بچوں کی ماں، یعنی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے ساتھ تصاویر بنا کر دوستی کا دم بھرتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے ایسے لوگ دراصل کسی ایجنڈے پر ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا مذکورہ خاتون نے بظاہر عمران خان کی مخالفت کو سہارا بنا کر پہلے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے رہنماؤں سے ٹویٹر پر قربت حاصل کی۔ پھر وہ اس مقام تک پہنچ گئیں جہاں تک پہنچنا ان کا اصل مشن تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ جب سارا معاملہ کھلا تو وزارت خارجہ بغلیں جھانک رہی ہے۔ لندن کے چرچل ہوٹل میں شمع جونیجو کی خود نمائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے الارم بجنے کے بعد اہم فائلیں اٹھانے کا ڈراما سوشل میڈیا پر لکھا اور ساتھ ہی خود کو وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کا رائٹر قرار دیا۔ مگر سب سے واحیات بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر صحافی عمر چیمہ یہ کہہ کر شمع کا دفاع کررہے ہیں کہ اس کی پرانی ٹویٹس کو جواز بنا کر شمع جونیجو پر بلا جواز تنقید ہورہی ہے۔ ادھر محترمہ کی ہٹ دھرمی بھی بے مثال ہے وہ سوشل میڈیا پر یہ تو ثابت کررہی ہیں کہ ان کو وزیراعظم پاکستان کے آفس نے وفد میں شامل کیا تھا۔ مگر اسرائیل کے حق میں کیے گئے اپنے متعدد ٹویٹس اور اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش پر کسی شرمندگی یا ندامت کا اظہار انہوں نے اب تک نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ ایک اسرائیل نواز خاتون کس طرح پاکستان کی انتہائی حساس اور اہم میٹنگز کا حصہ بن گئی۔ اور پھر وزیراعظم کے طیارے میں بیٹھ کر اقوام متحدہ جا پہنچی۔ کیا اس سنگین غفلت کے مرتکب افراد کا محاسبہ ہوگا یا ہمیشہ کی طرح مٹی پائو پالیسی کے تحت معاملہ دب جائے گا۔
اصل کہانی یہ ہے کہ ٹویٹر اکاؤنٹ سے موصوفہ نے لندن میں ن لیگ کے عہدیداران سے تعلقات بڑھائے اور پھر مریم نواز اور نواز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے ان کی محبت بھری ٹویٹس نے انہیں تمغہ امتیاز تک کا حقدار بنا دیا۔ ویسے بھی آج کل ن لیگ اور بالخصوص پیپلز پارٹی اپنے ہر اس اوورسیز کارکن کو تمغہ امتیاز دے رہی ہے جس نے چند سو پاؤنڈ پارٹی فنڈ میں ڈال دیے ہوں۔ اور ایسے جیالوں کو تمغہ امتیاز ملتے دیکھ کر برطانیہ میں پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی کلمہ شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کو اس اعزاز کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موروثی جماعتوں میں مشاورت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ پارٹی سربراہ کی خواہش کے خلاف کوئی رائے دینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا جی حضوری کے سہارے ہی موروثیت کی سرکار چلتی ہے۔ اب اگر ن لیگ کے قائد اور ان کی صاحبزادی کے ساتھ کوئی خاتون تصویر بنوالے اور پارٹی سربراہ اسے کسی عہدے کے لیے پرچی دے دے تو پھر کون جرأت کرے گا کہ بادشاہ سلامت کے حکم کو رد کرے۔ یہی معاملہ اس قضیے میں بھی نظر آتا ہے۔
وزیراعظم کے کامیاب دورے کے بعد ان کے خطاب میں قرآن کریم کی تلاوت پر داد و تحسین ہونی چاہیے تھی۔ ہندوستان کے خلاف دوٹوک مؤقف، غزہ اور کشمیر کا مقدمہ، ماحولیات اور پاکستانی مسائل کو جرأت کے ساتھ اجاگر کرنے پر انہیں بھرپور شاباش ملتی۔ مگر افسوس کہ ان کے خطاب کے بجائے ایک اسرائیل نواز خاتون موضوعِ بحث بن گئیں۔ اس صورتحال سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر آئندہ بھی ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی صفوں میں مشاورت سے گریز اور خوشامد و آمریت کو دوام دینے کا رویہ جاری رکھا تو پھر رسوائی کا سامان پیدا کرنے والے ایسے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے رہیں گے۔
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایک اسرائیل نواز اقوام متحدہ پاکستان کے ن لیگ کے یہ ہے کہ کے ساتھ کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
آزاد کشمیر عدم اعتماد: انوارالحق برقرار رہیں گے یا فیصل راٹھور نئے وزیراعظم؟ اسمبلی اجلاس آج
آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قانون ساز اسمبلی کا اجلاس آج ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے نوجوان پارلیمنٹیرین راجا فیصل ممتاز راٹھور کو نیا قائد ایوان نامزد کیا ہے۔
مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: وزیراعظم آزاد کشمیر انوارالحق استعفیٰ دیں گے یا نہیں؟ خود بتا دیا
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت حاصل ہے، جبکہ مسلم لیگ ن بھی انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔
مسلم لیگ ن نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ووٹ ضرور دیں گے لیکن حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر کے مطابق ن لیگ آزاد کشمیر اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرےگی۔
وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمعہ 14 نومبر کو ارکان اسمبلی چوہدری قاسم مجید، سردار جاوید ایوب، ملک ظفر اقبال، علی شان سونی اور محمد رفیق نیئر نے جمع کروائی۔
قبل ازیں وزیراعظم چوہدری انوارالحق کو استعفیٰ دینے کا پیغام بھجوایا گیا تھا تاہم انہوں نے مستعفی ہونے سے انکار کیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ ماہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی منظوری دی تھی۔
آزاد کشمیر کا ایوان 53 ارکان پر مشتمل ہے، جس میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے 27 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اتوار 26 اکتوبر کی رات سندھ ہاؤس اسلام آباد میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس میں قانون ساز اسمبلی کے 27 ارکان نے شرکت کی تھی۔
اسی روز آزاد کشمیر کے 10 وزرا جن کا تعلق پی ٹی آئی فارورڈ بلاک سے تھا، فریال تالپور سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے، یوں پیپلز پارٹی کو ایوان میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی۔
اس ڈنر کے بعد وزیراعظم چوہدری انوارالحق کو پیغام بھجوایا گیا تھا کہ وہ عہدے سے استعفیٰ دے دیں ورنہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائےگی۔
واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں 5 سالہ آئینی مدت میں یہ چوتھا وزیراعظم ہوگا، اس سے قبل 3 وزرائے اعظم کرسی اقتدار سے جا چکے ہیں۔
آزاد کشمیر کے نئے نامزد وزیراعظم راجا فیصل ممتاز راٹھور کون ہیں؟پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نامزد وزیراعظم راجا فیصل ممتاز راٹھور کا تعلق آزاد کشمیر کے ایک بااثر اور تاریخی سیاسی خاندان سے ہے۔
فیصل ممتاز راٹھور آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم ممتاز حسین راٹھور کے فرزند ہیں، جبکہ ان کی والدہ بیگم فرحت راٹھور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی رکن اور پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدر رہ چکی ہیں۔ راٹھور خاندان کو آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے بانی خاندانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
فیصل راٹھور نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی میں حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے گریجویشن پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کی۔ ان کے والد ممتاز حسین راٹھور نے 1975 کے انتخابات کے بعد سینیئر وزیر، 1990 میں وزیراعظم، 1991 میں قائدِ حزبِ اختلاف اور 1996 میں اسپیکر قانون ساز اسمبلی کے طور پر خدمات انجام دیں۔
ممتاز حسین راٹھور کی وفات کے بعد 1999 میں ان کے بڑے صاحبزادے مسعود ممتاز راٹھور بقیہ مدت کے لیے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ فیصل راٹھور نے 2006 میں پہلی مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے حلقہ حویلی کہوٹہ سے الیکشن میں حصہ لیا۔
بعد ازاں 2011 کے انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور چوہدری عبدالمجید کی کابینہ میں وزیر اکلاس اور وزیر برقیات کی ذمہ داریاں نبھائیں۔
فیصل راٹھور نے 2016 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اور ایک معاہدے کے تحت پارٹی رہنما خواجہ طارق سعید کو میدان میں اتارا تاہم انہیں شکست ہوگئی۔
’نامز وزیراعظم فیصل راٹھور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل ہیں‘اس وقت راجا فیصل ممتاز راٹھور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ 2021 کے انتخابات میں وہ دوسری بار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ایوان میں موثر اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔
2023 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد انہوں نے چوہدری انوار الحق کی اتحادی حکومت میں وزیر لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈیولپمنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کی سربراہی بھی کی۔
فیصل ممتاز راٹھور اپنی بردباری، نرم مزاجی اور بے داغ شہرت کے باعث سیاسی و عسکری حلقوں، عوامی ایکشن کمیٹی اور عوام میں یکساں مقبول ہیں۔ پارٹی قیادت انہیں بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور کا نہایت قابلِ اعتماد ساتھی سمجھتی ہے، جبکہ وہ پارٹی کے نظریاتی اور متوسط طبقے کے نمائندہ رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
فیصل راٹھور وزیراعظم کے لیے سب سے اچھے امیدوار کیوں؟راجا فیصل ممتاز راٹھور نوجوان سیاسی رہنما ہیں اور بات چیت کرنے بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت چونکہ ایکشن کمیٹی کی تحریک کی وجہ سے ریاست میں افراتفری کا ماحول ہے اور فیصل ممتاز راٹھور ہی وہ واحد رہنما ہیں جو معاملات کو درست سمت میں ڈھال سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر حکومتی تبدیلی: ن لیگ کا تحریک عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا اعلان
ذرائع کے مطابق انہوں نے پارٹی قیادت اور مقتدر حلقوں کو یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ وہ ریاست کا ماحول نارمل کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔
گزشتہ دنوں وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے فیصل راٹھور نے کہا تھا کہ آزاد کشمیر میں ایکشن کمیٹی کی تحریک کے باعث پیدا شدہ حالات کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آزاد کشمیر اسپیکر اسمبلی اجلاس تحریک عدم اعتماد چوہدری انوارالحق راجا فیصل ممتاز راٹھور وزیراعظم وی نیوز