غزہ امن منصوبہ: حماس نے امریکی صدر کے مجوزہ فارمولا میں تبدیلی کی شرط رکھ دی
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے میں ترمیم کا مطالبہ کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی قیادت کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ تنظیم نے منصوبے کی بعض شقوں پر اعتراض اٹھایا ہے، خصوصاً غیر مسلح ہونے کی شرط میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حماس اسرائیل کے مکمل انخلا اور رہنماؤں کے فلسطین کے اندر یا باہر قتل نہ کیے جانے کی بین الاقوامی ضمانتیں چاہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حماس کے مذاکرات کاروں نے دوحا میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جن میں امن منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کو منصوبے پر باضابطہ جواب دینے کے لیے دو سے تین دن درکار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ کے لیے 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اگر حماس نے اس تجویز کو قبول نہ کیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ویب ڈیسک
دانیال عدنان
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنا بڑا مشہور 20 نکاتی منصوبہ جسے وہ دو سالہ تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی معاہدہ قرار دیتے ہیں پیش کئے جانے کے فوری بعد تنازعات کا شکار ہوگیا ہے .
حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیرمسلح ہونے کی شق میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ حماس کے مذاکرات کاروں نے منگل کو دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد معاہدے کی کچھ شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کیاچاہتی ہے۔جبکہ پوری دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے متفقہ طورپر اس رائے کا اظہار کیاہے کہ یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ حقیقت میں یہ فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز ہے، جسے ایک ظالمانہ قبضے کے خلاف جاری جدوجہد کے خاتمے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں صہیونی افواج کی اس نسل کشی کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں لاکھوں افراد، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی، مارے جا چکے ہیں اور پوری کی پوری آبادی کو اپنی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔درحقیقت، یہ مسودہ ایک ایسے ملک کی ‘‘فتح کا اعلان’’ ہے جس پر جنگی جرائم کے الزامات عائد ہیں۔
ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے اس نام نہاد امن منصوبے کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کشنر ہی ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران ‘‘ابراہیم معاہدوں’’ کے بنیادی محرک تھے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین ہے کہ اُن کا عظیم 20 نکاتی غزہ منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں ”ہمیشہ کے امن” کا باعث بنے گا، لیکن یہ انتہائی مشکوک ہے کہ یہ منصوبہ عرب۔اسرائیل تنازع کا کوئی منصفانہ حل فراہم کرسکے گا۔ کیونکہ بظاہریہ ایک جانبدارانہ دستاویز ہے جو اسرائیل کا تحفظ کرتی ہے اور امن قائم کرنے کی تمام ذمہ داری مظلوم فلسطینیوں پر ڈالتی ہے۔ اس منصوبے کی صرف دو باتیں مثبت ہیں: جنگ بندی کے امکانات اور تباہ حال غزہ پٹی میں امداد کی بحالی۔ لیکن یہ کمزور اُمیدیں بھی اس شرط پر مبنی ہیں کہ حماس واشنگٹن اور تل ابیب کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ منصوبے کے مطابق، حماس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے اور یہ طے کیا گیا ہے کہ اس کا غزہ کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ حماس کے حوالے سے مختلف ممالک کی رائے مختلف ہو سکتی ہے، لیکن یہ فیصلہ فلسطینی عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ کون اُن کی قومی سیاست میں حصہ لے اور کون نہ لے۔ کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ شرائط طے کرے۔ اس منصوبے کے تحت جس ”بورڈ آف پیس” کو جنگ بندی کے بعد غزہ چلانے کے لیے قائم کرنے کی بات کی گئی ہے، اس میں واضح طور پر نوآبادیاتی سوچ جھلکتی ہے، جو کچھ لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ سسٹم سے مشابہت رکھتی ہے۔اس کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جیسی شخصیات غزہ کی نگرانی کریں گے اور فلسطینی عوام کی رہنمائی کریں گے یہاں تک کہ وہ خود حکومت کرنے کے قابل ہو جائیں۔ٹرمپ کے منصوبے میں اسرائیل کو کسی بھی احتساب کے دائرے میں لانے کا ذکر نہیں، خاص طور پر اُس نسل کُشی کے حوالے سے جو اُس نے غزہ پر مسلط کی ہے۔ کوئی ضمانت نہیں کہ مستقبل کے کسی بھی تنازع میں تل ابیب دوبارہ فلسطینی شہریوں کو نشانہ نہیں بنائے گا۔ حقیقت میں ٹرمپ نے تل ابیب کو یقین دلایا ہے کہ اگر حماس نے یہ عظیم معاہدہ مسترد کیا تو اسرائیل’جو کرنا ہے کرسکے گا، یعنی غزہ کی نسل کُشی کو اُس کے منطقی انجامتک پہنچا سکتا ہے۔ اس میں اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ اسرائیل مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیاں تعمیر کرنا بند کر دے گا۔جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے، وزیراعظم شہباز شریف اُن مسلم ممالک کے گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ اس منصوبے پر بات کی اور انہوں نے اس کی بھرپور تعریف بھی کی۔ تاہم اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں بائیں اور دائیں بازو کی جماعتوں سمیت عام شہریوں کی طرف سے ابتدائی ردعمل زبردست منفی رہا ہے۔عوام اس دستاویز کو ہتھیار ڈالنے کے ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسرائیل کو تحفظ دیتا ہے اور ایک بار پھر فلسطینیوں کو دھوکہ دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس ملک سمیت دیگر ریاستوں کی طرف سے غزہ میں امن فوج تعینات کرنے کی بات بھی کی گئی۔ لیکن کسی بھی ایسے اقدام سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے اور کوئی بھی قدم ایسا نہیں اُٹھایا جانا چاہیے جو پاکستان کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت میں اختیار کیے گئے اصولی مؤقف کے خلاف ہو۔یہ تعجب کی بات نہیں کہ اسرائیل نے فوراً ہی تازہ امریکی منصوبہ قبول کر لیا۔ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ کے ساتھ کھڑے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، جن پر عالمی فوجداری عدالت کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات ہیں، امریکی صدر کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کو میرا مکمل تعاون حاصل ہوگا تاکہ وہ حماس کے خطرے کو ختم کرنے کا کام مکمل کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو بجا طور پر ٹرمپ-نیتن یاہو منصوبہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد خطے میں اسرائیل کی عسکری برتری کو یقینی بنانا ہے۔غزہ امن منصوبے نے اسرائیل کو مزید جری کر دیا ہے۔حماس کو منصوبہ قبول کرنے اور باقی یرغمالیوں کو چھوڑنے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے، حالانکہ اسے اس پر کبھی اعتماد میں لیا ہی نہیں گیا۔ المیہ یہ ہے کہ اصل متاثرین یعنی فلسطینیوں سے اس نام نہاد امن منصوبے پر مشاورت ہی نہیں کی گئی، جس کے ذریعے ان کی تقدیر کا فیصلہ کیا جانا ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غزہ کو عملی طور پر نوآبادیاتی تسلط میں دے دے گا۔اس میں ایک غیر واضح جملے میں کہیں مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے امکانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اسرائیل نے پہلے ہی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز کو رد کر دیا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے سے روک دیا گیا ہے، مگر کچھ انتہا پسند اسرائیلی وزرا نے اس پر بھی زور دیا ہے۔غزہ منصوبے کے مطابق جنگ قیدیوں کے تبادلے کے فوراً بعد ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج صرف اس حد تک پیچھے ہٹیں گی جہاں یرغمالیوں کی رہائی کے انتظامات کیے جا سکیں۔ اس دوران تمام فوجی کارروائیاں، بشمول فضائی اور توپ خانے کے حملے، معطل رہیں گے اور جب تک کہ مکمل انخلا کے مراحل کے لیے حالات تیار نہ ہو جائیں محاذِ جنگ جگہ جمود کا شکار رہیں گے، ۔جب تمام یرغمالی واپس کر دیے جائیں گے، تو وہ حماس کے ارکان جو پرامن بقائے باہمی پر رضامند ہوں اور اپنے ہتھیار ڈال دیں، انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔ جبکہ وہ ارکان جو غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ یہ سب دراصل مکمل ہتھیار ڈالنے کی کال ہے، جس کا مطلب فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔جنگ کے بعد غزہ کی انتظامیہ میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی، جو مغربی کنارے پر کنٹرول رکھتی ہے، کو بھی کسی کردار کے لیے شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے عملاً ایک آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔جبکہ یہ بھی یقینی نہیں کہ اسرائیلی افواج کا مرحلہ وار انخلاواقعی مکمل ہوگا، کیونکہ اسرائیل کی جارحیت اس پر سوال اٹھاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مزید حوصلہ دیتا ہے، جو اب انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے تحت ہے، جو کھلے عام گریٹر اسرائیل کے قیام کی وکالت کرتی ہے، جہاں فلسطینی ریاست کے لیے کوئی جگہ نہیں۔امریکی منصوبے کے مطابق غزہ کو ایک عبوری غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کے زیر انتظام چلایا جائے گا، جس پر ایک نیا عالمی عبوری ادارہ ‘بورڈ آف پیس’ نظر رکھے گا، جس کی سربراہی ٹرمپ اور دیگر افراد بشمول بلیئر کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ غیر معینہ مدت کے لیے غزہ پر کنٹرول رکھے گا۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہ تجویز فروری میں ٹرمپ کی اس پیشکش سے زیادہ مختلف نہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کو امریکی کنٹرول میں دیا جائے تاکہ اسے ایک پرکشش تفریحی مرکز میں بدلا جا سکے۔اس دوران ٹرمپ انتظامیہ عرب اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس(ISF) قائم کرے گی، جو غزہ میں تعینات ہوگی۔ یہ فورس نہ صرف امن قائم رکھے گی بلکہ غزہ میں ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کو تربیت بھی دے گی۔اس فورس میں مختلف مسلم ممالک کے فوجی شامل ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سب سے زیادہ فوجی انڈونیشیا اور پاکستان سے لینے کی تجویز ہے ، جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں۔ شاید اسی لیے ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف کی تعریفیں کی ہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے اس منصوبے پر پاکستان کو اعتماد میں لے لیا ہے۔ٹرمپ کے منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج اس وقت تک غزہ میں موجود رہے گی جب تک کہ ISF مکمل کنٹرول سنبھال نہ لے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ‘‘ اسرائیلی فوجی سلامتی کے دائرے میں موجود’’ رہیں گے تاکہ یہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ غزہ دوبارہ کسی مبینہ دہشت گردی کا مرکز نہ بنے۔ٹرمپ کے دعوے کے مطابق یہ جنگ بندی اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری قتلِ عام اور تباہی کو روک دے گی اور فوری انسانی امداد پہنچنے کا موقع دے گی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکی منصوبہ خطے میں پائیدار امن لا سکتا ہے، جب کہ وہ فلسطینی عوام کے ایک آزاد ریاست کے حق کو باضابطہ طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا؟حماس کو تو شاید غیر مسلح کر دیا جائے، لیکن غزہ کے وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو اس جاری نسل کشی میں کھو دیا ہے، ان کا غصہ اور دکھ کیسے ختم ہوگا؟ ایک پوری نسل جو صرف موت، بھوک اور تباہی دیکھ رہی ہے، اسے کیسے خاموش کرایا جا سکے گا؟ یہی وجہ ہے کہ اس متنازعہ منصوبے نے مزید بے چینی اور غیر یقینی کو جنم دیا ہے۔ فلسطینیوں نے بالکل درست طور پر اس امریکی منصوبے کو ایک ‘‘تماشہ’’ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر بحث کا موضوع ہے کہ کس طرح اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر مسلط کیے گئے ظالمانہ نسل پرستانہ نظام (Apartheid) کا خاتمہ کیا جائے اور کس طرح اُس دو ریاستی حل کو حقیقت بنایا جائے جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بے شمار عالمی اجلاسوں میں طے پایا ہے۔ مگر ایک حقیقت بالکل واضح ہے: کسی بھی سیاسی تصفیے کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی ہے جب جنگ بندی ہو۔ غزہ، جو ایک زندہ جہنم میں بدل چکا ہے، اُس وقت تک دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا جب تک فائر بندی نہ ہو، اسرائیل پٹی سے نہ نکلے، اور غیر جانب دار ممالک کو مداخلت کی اجازت نہ ملے تاکہ امداد بحال ہو، تعمیر نو شروع کی جا سکے اور وہاں کے لوگ صرف زندہ رہنے کا موقع پا سکیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ اور اسرائیل سمیت بعض خلیجی ریاستوں کی حمایت یافتہ نام نہاد نیا امن منصوبہ کئی مشکل سوالات کو جنم دیتا ہے۔ نہ اسرائیل اور نہ ہی ٹرمپ کے پاس مذاکرات میں اخلاقی اختیار یا اعتماد باقی ہے۔ ان کے منصوبے جانبداری اور ناانصافی سے داغدار ہیں۔موجودہ فریم ورک انتہائی خامیوں کا شکار ہے یہ اسرائیل کے حق میں جھکا ہوا ہے اور واضح کرتا ہے کہ عرب ممالک پر حقیقتاً کتنا دباؤ ہے۔پاکستان کو لازمی طور پر تمام متعلقہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ امن کی حقیقی کوششیں جاری رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ جواب دہی کا مطالبہ-97اُن سب کے لیے جنہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم اور مظالم کیے-97مدھم نہ پڑ جائے۔ اور سب سے بڑھ کر، حتمی اور غیر متزلزل ہدف ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے، جو دو ریاستی حل کے اصولوں کے مطابق ہو، کیونکہ یہی اس دہائیوں پر محیط المیے کا واحد منصفانہ اور پائیدار حل ہے۔ اس امن منصوبے کو بالکل درست طور پر خطے میں اسرائیل کے فوجی تسلط کو یقینی بنانے کے لیے ‘ٹرمپ-نیتن یاہو منصوبہ’ قرار دیا گیا ہے۔ حماس کو اس منصوبے کو قبول کرنے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے جبکہ اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے گروپ سے مشاورت ہی نہیں
کی گئی۔ حماس کو وقت دیا گیا ہے کہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور اس کی تحویل میں مرنے والے اسرائیلیوں کی لاشیں واپس کی جائیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطینی جوکہ اس تنازع کے مظلوم فریق ہیں، ان سے بھی اس نام نہاد امن منصوبے پر مشاورت نہیں کی گئی حالانکہ اس کا مقصد ان کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔حماس کے ایک سینئر رہنما نے برطانوی نشریاتی ادارے سی گفتگو کرتے ہوئے پہلے ہی خیال ظاہر کیاتھا کہ تنظیم غالباً ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو مسترد کر دے گی کیونکہ یہ اسرائیل کے مفادات کی خدمت کرتا ہے اور فلسطینی عوام کے مفادات کو نظرانداز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی جو مقبوضہ مغربی کنارے کو کنٹرول کرتی ہے، اسے بھی جنگ کے بعد کے سیٹ اپ میں کوئی کردار نہیں سونپا گیا ہے۔ اس سے عملی طور پر فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ فلسطینی گروپوں کو جنگ کے بعد کے سیٹ اپ سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت کے پیش نظر قابض افواج کے ‘مرحلہ وار انخلا’ پر بھی مکمل عمل درآمد غیر یقینی ہے۔ درحقیقت اس منصوبے نے اسرائیل کو مزید حوصلہ دیا ہے ۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تجویز ٹرمپ کی فروری میں غزہ کو امریکی کنٹرول میں رکھنے کی تجویز سے زیادہ مختلف نہیں ہے تاکہ انکلیو کو سیاحتی مقام میں تبدیل کیا جا سکے۔رپورٹ کے مطابق حماس، غزہ میں عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی کی بھی مخالفت کر رہی ہے، جسے وہ ایک نئی قسم کا قبضہ تصور کرتی ہے۔غزہ میں گروپ کے فوجی کمانڈر عزالدین الحداد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مذاکراتی منصوبے کو قبول کرنے کے بجائے لڑائی جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
٭٭٭