افغانستان میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عاید نہیں‘ طالبان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان حکومت نے افغانستان میں انٹرنیٹ کی ملک گیر پابندی کی خبروں کو مسترد کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کی وضاحت حالیہ دنوں میں ہونے والے بڑے پیمانے پر کمیونی کیشن بلیک آؤٹ کے بعد سامنے آئی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق طالبان حکام نے پاکستانی صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں جاری بیان میں کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی کی افواہوں میں صداقت نہیں۔ حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی عاید نہیں کی۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بندش تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔ خاص طور پر پرانے فائبر آپٹک کیبلز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ خیال رہے کہ یہ طالبان حکومت کا اس معاملے پر پہلا باضابطہ اعلان ہے جس کے بعد پیر سے ملک بھر میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروسز شدید متاثر ہوئیں۔ عالمی انٹرنیٹ مانیٹرنگ ادارے نیٹ بلاکس کے مطابق پیر کو افغانستان میں 4 کروڑ 30 لاکھ آبادی والے ملک میں ‘‘مکمل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ’’ ریکارڈ کیا گیا۔ اگرچہ طالبان نے اس بار براہِ راست ذمے داری قبول نہیں کی، تاہم اس سے قبل کئی صوبوں میں انٹرنیٹ سروسز اخلاقی برائیوں کے خلاف اقدامات کے تحت بند کی جا چکی ہیں۔16 ستمبر کو بلخ صوبے کے حکام نے انٹرنیٹ پابندی کی تصدیق کی تھی۔ اسی طرح بدخشاں، تخار، ہلمند، قندھار اور ننگرہار میں بھی حالیہ مہینوں میں پابندیاں رپورٹ ہوئیں۔ ایک افغان حکومتی اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً ‘‘آٹھ سے نو ہزار ٹیلی کمیونی کیشن ٹاورز’’ کو اگلے حکم تک بند رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ادھر طلوع نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے موبائل فونز پر 3G اور 4G انٹرنیٹ سروسز کو ایک ہفتے کے اندر بند کرنے کی ڈیڈلائن دی ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سروسز کی بندش نے نہ صرف عوامی رابطوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بینکاری، تجارت اور فضائی شعبے کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے جب کہ خواتین کے محرم کے بغیر سفر، عوام مقام پر جانے اور بیوٹی پارلز بھی بند کروا دیئے گئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افغانستان میں طالبان حکومت
پڑھیں:
آزاد کشمیر، عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت، 90 فیصد معاملات طے
— آزاد کشمیر میں جاری عوامی احتجاجی تحریک کے تناظر میں وفاقی حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے پہلے مرحلے میں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بحالی سمیت 90 فیصد معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے۔
بنیادی سہولتیں بحال
مذاکرات کے ابتدائی دور میں عوامی ایکشن کمیٹی نے سب سے پہلے مواصلاتی سروسز کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا، جسے وفاقی حکومت کے نمائندوں نے تسلیم کر لیا۔ موبائل کمپنیوں کو سروسز بحال کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
کور قیادت کے پہنچنے کا انتظار
مذاکراتی عمل کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے نمائندگان نے واضح کیا کہ حتمی بات چیت ایکشن کمیٹی کی کور قیادت کے مظفرآباد پہنچنے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ اس وقت راولاکوٹ اور میرپور ڈویژن سے آنے والے قافلے راستے میں ہیں، جن کی قیادت کور کمیٹی کے سینئر ارکان کر رہے ہیں۔
مذاکرات کا دوسرا دور کب ہوگا؟
اگلا مرحلہ: مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جمعہ، دن 12 بجے مظفرآباد میں متوقع ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر ابتدائی گفتگو کے بعد دھیرکوٹ روانہ ہو گئے ہیں تاکہ کور ممبران کو بریف کیا جا سکے اور دوسرے مرحلے کے لیے مشاورت کی جا سکے۔
وفاقی وفد میں کون کون شامل ہے؟
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد سے مظفرآباد پہنچنے والے 7 رکنی اعلیٰ سطح وفد میں شامل شخصیات رانا ثناءاللہ، احسن اقبال، سردار یوسف، قمر زمان کائرہ، سابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان دیگر سینئر حکام، وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق بھی ان مشاورتی ملاقاتوں میں شریک ہیں۔
احتجاج، مطالبات اور حکومتی ردعمل
عوامی ایکشن کمیٹی نے مہنگائی، بنیادی سہولتوں کی کمی اور دیگر عوامی مسائل کے خلاف لانگ مارچ اور احتجاجی تحریک کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی تھیں تاکہ مظاہروں کو محدود رکھا جا سکے۔
عوامی مطالبات میں بنیادی سہولتوں کی فوری بحالی، روزمرہ ضروریات کی قیمتوں میں کمی ،بہتر گورننس اور شفافیت شامل ہیں
وزیراعظم پاکستان کی اپیل
وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں جاری صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے، مگر عوامی فضا کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے۔
انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صبر و تحمل کی تلقین کی
عوامی جذبات کے احترام پر زور دیا
متاثرہ خاندانوں کو امداد دینے اور پرتشدد واقعات کی شفاف تحقیقات کی ہدایت جاری کی
مثبت پیش رفت، مگر ابھی کام باقی ہے
حکومتی حلقوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، مذاکرات میں ابتدائی کامیابی مثبت اشارہ ہے، لیکن حتمی فیصلے تبھی ممکن ہیں جب عوامی ایکشن کمیٹی کی مکمل قیادت مذاکرات کی میز پر موجود ہوگی۔