data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کابل: طالبان حکومت نے افغانستان میں انٹرنیٹ پر ملک گیر پابندی کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت دی ہے کہ حالیہ بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والا کمیونی کیشن بلیک آؤٹ تکنیکی وجوہات کا نتیجہ تھا، نہ کہ حکومتی پالیسی۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق طالبان حکام نے پاکستانی صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں جاری اپنے بیان میں کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں، سروسز کی معطلی پرانے فائبر آپٹک کیبلز کی تبدیلی کے باعث ہوئی، جس کی وجہ سے ملک بھر میں نیٹ ورک متاثر ہوا۔

یہ طالبان حکومت کا اس معاملے پر پہلا باضابطہ اعلان ہے، جو اس وقت سامنے آیا جب پیر کے روز افغانستان بھر میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ خدمات مکمل طور پر بند ہو گئیں۔ عالمی انٹرنیٹ مانیٹرنگ ادارے نیٹ بلاکس نے بھی اس روز افغانستان جیسے 4 کروڑ 30 لاکھ کی آبادی والے ملک میں “مکمل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ” کی تصدیق کی تھی۔

اگرچہ طالبان نے اس بار تکنیکی خرابی کو وجہ قرار دیا ہے، تاہم اس سے قبل کئی صوبوں میں انٹرنیٹ پر اخلاقی قدغن کے نام پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔ گزشتہ ماہ 16 ستمبر کو بلخ صوبے کے حکام نے باضابطہ طور پر انٹرنیٹ بندش کی تصدیق کی تھی، اسی طرح بدخشاں، تخار، ہلمند، قندھار اور ننگرہار میں بھی سروسز معطل ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔

ایک افغان سرکاری اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً آٹھ سے نو ہزار ٹیلی کمیونی کیشن ٹاورز کو اگلے حکم تک بند رکھنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اس کے برعکس طلوع نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے موبائل فونز پر 3G اور 4G سروسز کو بند کرنے کے لیے ایک ہفتے کی ڈیڈلائن دے دی ہے۔

انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سروسز کی بندش نے نہ صرف عوام کے درمیان رابطوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بینکاری نظام، تجارتی سرگرمیوں اور فضائی شعبے کو بھی شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے، جب کہ خواتین کے محرم کے بغیر سفر، عوامی مقامات پر جانے اور بیوٹی پارلرز کے کاروبار پر بھی قدغن لگائی جا چکی ہے۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انٹرنیٹ پر

پڑھیں:

طالبان نے افغانستان میں منشیات فیکٹریاں بند کیں تو یہاں شروع ہوگئیں، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں منشیات کیس کے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی جس میں جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

تفصیلات کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل منشیات سپلائی نہ روکنے پر سرکاری اداروں پر برس پڑے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ منشیات شہروں تک آخر پہنچتی کیسے ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ بارڈر پر منشیات کو کیوں نہیں روکا جاتا؟۔ بارڈر سے ایک ایک ہزار کلومیٹر تک منشیات اندر کیسے آ جاتی ہے؟۔ پانچ دس کلو کا مسئلہ نہیں لیکن ٹنوں کے حساب سے منشیات آتی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی کہا کہ طالبان نے افغانستان میں منشیات کی فیکٹریاں بند کردیں تو یہاں شروع ہوگئیں۔ بلوچستان کے تین اضلاع میں منشیات کی فصلیں کاشت ہو رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سب کو معلوم ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کرتا، اے این ایف کا کام کلو کلو منشیات پکڑنا نہیں بلکہ سپلائی لائن کاٹنا ہے۔ چھوٹی موٹی کارروائی تو شہروں میں پولیس بھی کرتی رہتی ہے۔

جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ضیاء الحق کا دیا ہوا تحفہ ہے، بھگتیں اس ک، بعدازاں عدالت نے کورنیئر کمپنی کے منیجر کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی کر دی۔

جج نے اے این ایف کو ملزم کی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروسزمتاثر: کلاؤڈ فلیئراور پی ٹی اے کا بیان بھی آگیا
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں سالانہ بنیاد پر 17 فیصد اضافہ ریکارڈ
  • کوئٹہ، محکمہ داخلہ نے انٹرنیٹ مزید 2 روز کیلئے معطل کر دیا
  • طالبان نے افغانستان میں منشیات فیکٹریاں بند کیں تو یہاں شروع ہوگئیں، جج سپریم کورٹ
  • پنجاب بھر میں دفعہ 144 کے نفاذ میں توسیع
  • پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ
  • پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟
  • افغانستان اور دہشت گردی
  • کیا طالبان افغانستان کو مزید برباد کرنا چاہتے ہیں؟