اپنے ایک بیان میں قطر کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ صمود بیڑے میں شامل تمام کارکنوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ قطر نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے صمود انسانی امدادی بحری بیڑے کو ضبط کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام سے بحری جہاز رانی کی آزادی و سلامتی کو خطرہ ہے۔ دوحہ نے اس بات پر زور دیا کہ صمود بیڑے میں شامل تمام کارکنوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ قطر نے اس واقعہ کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس واقعے کے ذمہ داران کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔ قطری وزارت خارجہ نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اس تازہ ترین غیر انسانی سلوک پر اپنے اخلاقی اور قانونی فرائض ادا کرے۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ قابض صیہونیوں کی مسلسل خلاف ورزیوں اور قانون شکنی کو روکا جائے۔ دوسری جانب اسرائیلی نیٹ ورک 13 کے نامہ نگار "امور ھلر" نے کچھ ہی دیر قبل رپورٹ دی کہ صیہونی فوج نے غزہ تک صمود فلوٹیلا کے کسی بھی جہاز کی رسائی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تمام جہازوں کو ضبط کر لیا ہے۔

امور ھلر کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی بغیر کسی تشدد کے انجام پائی، لیکن مذکورہ بحری بیڑے کی تعداد کے پیش نظر اسرائیلی فوج اور بحریہ کو یوم کپور کی شام (یہودیوں کی ایک اہم عید) میں سینکڑوں فوجیوں کو بین الاقوامی پانیوں میں تعینات کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب درجنوں بحری جہاز و کشتیاں بیک وقت غزہ کی جانب روانہ ہوئے۔ ان جہازوں میں 45 سے زائد ممالک کے 532 سول کارکن سوار ہیں جو 18 سال سے جاری محاصرے کو ختم کرنے کے لئے انسان دوست امداد، غزہ پہنچا رہے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ کارروائی ایسے وقت ہو رہی ہے جب غزہ کو سخت قحط کا سامنا ہے۔ قحط میں شدت اُس وقت اور بڑھی جب صیہونی رژیم نے گزشتہ 6 مارچ سے تمام بارڈرز بند کر دئیے اور خوراک، دوائیں و دیگر امدادی سامان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس صورت حال کے نتیجے میں 24 لاکھ کی کل آبادی میں سے تقریباً ساڑھے 15 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور نسل کشی کی اس جنگ کے بعد اپنے گھر بار سے محروم ہو گئے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

برطانیہ میں پناہ گزینوں کیلئے بُری خبر، پالیسی میں بڑی تبدیلی

برطانیہ نے پناہ گزینوں سے متعلق اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کردی ہے جس کے تحت اب پناہ گزینوں کو مستقل رہائش نہیں مل سکے گی۔

میڈی رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں اب پناہ لینے والوں کا تحفظ وقتی ہوگا جس کے کچھ عرصے بعد ان کا کیس دوبارہ چیک کیا جائے گا۔ 

پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان کے آبائی ملک کو "دوبارہ محفوظ" قرار دیا جائے گا تو ممکن ہے وہ واپس اپنے وطن بھیج دیے جائیں۔ مستقلاً رہائش جہاں 5 سال کے بعد ملتی تھی، اب نئی تجویز کے مطابق اس مدت کو 20 سال تک بڑھایا جائے گا۔ 

مزید برآں وہ لوگ جو ’انڈر کنٹریبیوشن‘ (مثلاً کام کرنا، سوشل سیکیورٹی میں حصہ ڈالنا، رضاکارانہ کام) میں شامل ہونگے، انہیں زیادہ ترجیح ملے گی۔ 

اس کے علاوہ پناہ گزینوں کے خاندانی ری یونین حقوق ختم یا محدود کیے جائیں گے۔ جو لوگ پناہ گزین تسلیم کیے جائیں گے انہیں خود اپنے خاندان کو برطانیہ لانے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ 

نئی فیملی امیگریشن کی شرائط ان کے لیے ایسی ہونگی جیسے برطانوی شہریوں یا دوسرے امیگرنٹ‌‌ویز ہولڈرز کے لیے ہوتی ہیں، مثلاً معیّن سالانہ آمدنی کا ثبوت دینا۔ پناہ کے دعوے کرنے والوں کو دی جانے والی مالی اور رہائشی مدد اختیاری ہوگی۔

نئی پالیسی کے مطابق اب ہوم آفس سرکاری طریقہ کار کے بعد یہ فیصلہ کرے گا کہ کس پناہ کے متلاشی کو ہاؤسنگ اور مالی امداد ملے گی اور کس کو نہیں۔ 

علاوہ ازیں ان پناہ گزینوں کے لیے جو غیر قانونی راستوں سے آئے ہیں، شہریت حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ ان سے ’اچھا کردار‘ کا ٹیسٹ زیادہ سخت لیا جائے گا جبکہ ان کی درخواستیں عموماً مسترد بھی کی جاسکتی ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
  • روسی بحری جہاز 5 روزہ خیرسگالی دورے پر بنگلہ دیش پہنچ گیا
  • لاہور میں 50 ہزار مساجد فعال، ضلعی انتظامیہ نے سروے شروع کر دیا
  • غیر قانونی تارکین وطن عالمی سلامتی کیلئے سنگین چیلنج، پاکستان کے موقف کی جیت
  • تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے پر چین اور امریکا آمنے سامنے آگئے
  • پاکستان کی آبی سلامتی کو خطرہ، دنیا مدد کرے: مصدق ملک
  • برطانیہ میں پناہ گزینوں کیلئے بُری خبر، پالیسی میں بڑی تبدیلی
  • توہمات پر یقین رکھنے والے اقتدار میں آئیں تو سلامتی کے لیے خطرہ بنتے ہیں، خواجہ آصف کا عالمی جریدے کے مضمون پر ردعمل
  • رائیونڈ، تبلیغی اجتماع کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام پذیر
  • ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کیلئے خطرہ، بین الاقوامی ادارے معاونت کریں: وزیر خزانہ