ایک زمانہ تھا جب ملک کے تمام ترقی پسند اور قوم پرست لوگ ایک پلیٹ فارم پر تھے یا ایک ہی پارٹی میں تھے یا پھر اتحاد بناتے تھے، بلکہ دائیں بازوکی پارٹی بھی دیارِغیر میں ہوا کرتی تھی۔
اصغر خان جب کراچی کینٹ پر ریل گاڑی سے اترتے تھے تو ان کا والہانہ استقبال کیا جاتا تھا۔ اس طرح اگر بے نظیر بھٹو یا پھر ذوالفقار علی بھٹوکی آمد ہو، ایسے استقبال کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔
اہلِ کراچی تمام سیاسی جماعتوں میں متحرک تھے، چاہے وہ جماعتِ اسلامی ہو یا پیپلز پارٹی یا سرخے۔ جماعتِ اسلامی میں کراچی سے معراج خالد متحرک تھے، اسی طرح پیپلز پارٹی میں پروفیسر این ڈی خان ، تاج حیدر اور لیاری کے کارکن، بلکہ ناظم آباد اور لیاقت آباد کے لوگ بھی فعال کارکن تھے۔
آج تقریبا وہ ہی پارٹیاں موجود ہیں اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ بھی ہیں مگر ملک گیر پارٹیوں کی حیثیت میں ویسی نہیں، چاہے وہ کوئی بھی پاپولر پارٹی ہی کیوں نہ ہو۔ ان پارٹیوں کی بنیادیں بدل چکی ہیں۔ جمعیتِ علمائے اسلام بظاہر دینی جماعت ہے لیکن اس پر پختونوں کا اثر ہے، مسلم لیگ (ن) پنجاب سے متاثر ہے، پپیلز پارٹی سندھ تک محدود ہے جو اثر پیپلزپارٹی کا ماضی میں پنجاب پر تھا وہ ختم ہوچکا ہے۔
ولی خان یا میر غوث بخش بزنجو بلوچوں اور پختونوں کی غالب تعداد میں مقبول تھے تاہم دیگرصوبوں کے ترقی پسند اور قوم پرستوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
آج جب ہم تمام صوبوں کی ترقی پسند اور قوم پرستوں کے بیانیہ کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ تمام پارٹیوں کا نہ صرف بیانیہ بدل چکا ہے بلکہ ان کے مفادات، قوم پرستی کے اصول اور ترقی کے رجحانات بھی الگ الگ ہو چکے ہیں۔
اس بات کے اسباب کیا ہیں؟ ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے مگر ایک مثال ضرور دی جا سکتی ہے کہ اگر جنرل مشرف، اکبر بگٹی کے معاملے کو انا کا مسئلہ نہ بناتے توکیا آج بلوچستان جہاں کھڑا ہے وہاں ہوتا؟
ضیاالحق کے دور میں بائیںبازوکی سیاست اور ماڈریٹ نظریات کو بری طرح سے کچلا گیا اور دائیں بازو کی تنگ نظر اور محدود ویژن کی حامل قیادت کو پروان چڑھایا گیا اور انھیں افغان مجاہدین اور ان کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ نتھی کردیا گیاکیونکہ ہمیں امریکا اور اتحادیوں کے سامنے سرخرو ہونا تھا۔
ترقی پسندوں کے ساتھ پاکستان میں جو ہوا بہت برا ہوا، سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور جنرل اکبر خان، قرۃ العین حیدر، سبطِ حسن جیسے لوگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں یا پھر حیدرآباد سازش کیس اور جام ساقی کیس یہ تمام ترقی پسند آپس میں ایک تھے۔
بے نظیرکے وجود کے ساتھ ہم نے فلک شگاف نعرے سنے ’’ چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر‘‘ بے نظیرکی تحریک بحالی جمہوریت کے لیے ایک ملک گیر تحریک ضرور تھی مگر اس تحریک میں سندھ کے چھوٹے قصبے طاقت بن کر ابھرے، سندھ عالمی میڈیا کی زینت بنا۔
اس تحریک میں لاہور، پشاور اورکوئٹہ وغیرہ کی کارکردگی پست رہی۔ پھر 1988آئی جے آئی کی صورت میں الائنس بنا، یہ کیوں بنا اورکیسے بنا، اس کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے مگر اس کے وجود نے ملکی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا۔
غوث بخش بزنجوکی پاکستان میں رہ کر اپنے حقوق مانگنے والی آواز بلوچوں میں دب گئی۔ نیپ کے لیڈران نے جیلیں کاٹی۔ پھر پختون ترقی پسند، پنجاب کے ترقی پسند سے علیحدہ ہوگیا۔ سندھ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور بلوچ بھی ناراض رہے۔
آج پھر سے ضرورت ہے کہ تمام ترقی پسند اور قوم پرست، ایک ہی سوچ اور جذبے کے ساتھ جمع ہوں۔ عاصمہ جہانگیر جیسی لیڈر آگے آئیں، غوث بخش بزنجو جیسا کوئی لیڈر ابھرے، ولی خان اور حیدر بخش جتوئی، میجر اسحاق، میاں افتخار اور عبد المالک جیسے دانشور لوگ پیدا ہوں اور ایک ساتھ بیٹھ کر، اس سسٹم کے اندر رہ کر، اس سسٹم میں جو خامیاں ان کو دورکرنے کی کوشش کریں۔
نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس وقت جمہوریتیں خسارے میں ہیں۔ ایک طرف جنگی جنون کو ابھارا جا رہا ہے۔ دنیا کی اسلحہ سازکمپنیاں اور ایسے ممالک اس روش سے بہت خوش ہیں کیونکہ وہ اس سسٹم کو بیچتے ہیں۔ دوسری طرف دائیں بازو کی سیاست زوروں پر ہے۔
پوری دنیا میں بائیں بازو کی سیاست اپنے آپ کو پھر سے نئی صف بندیوں میں جوڑ رہی ہے۔ ایک ایسا دور جہاں ٹیکنالوجی کو غلبہ ہے،کامیابی ہے اور اس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر انسان تبدیل ہو رہا ہے تو ریاست ان روایتی ستونوں اور اسٹرکچر پرکیسے چل سکتی ہے، جہاں فیڈریشن کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
ہندوستان میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک صوبے کا وزیرِ اعلیٰ اپنے صوبے کے مفادات کی خاطر دوسرے صوبے کو نیچا دکھائے۔ اپنی کارکردگی کا مدعا بیان کرتے وقت دوسرے صوبے کو بھلے تنقید کا نشانہ بنائے وہ صحیح ہے۔
ایک بڑے صوبے کا وزیرِاعلیٰ، جو صوبہ ہر لحاظ سے باقی تین صوبوں پر فوقیت رکھتا ہو، اس طرح سے دوسرے صوبوں کو تنقیدکا نشانہ نہ بنائے، جس سے صوبے کے تمام لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے، اس سے وفاق کمزور ہوتا ہے۔
میں یہ نہیں سمجھتا کہ اگر بے نظیر صاحبہ ہوتیں تو اس طرح کا بیان کبھی دیتیں۔ پانی کا معاملہ مشترکہ مفادات کا معاملہ ہے اور مشترکہ مفادات کی کونسل اسے دیکھ رہی ہے اور اس کو دیکھنے دیجیے۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قوم پرست اور ترقی پسند جو اس وقت صوبوں تک محدود ہوگئے ہیں، وہ آگے بڑھیں ایسے اتحاد، پارٹیاں اور فورمز بنائیں، مل کر اپنا مدعا پیش کریں اور ایک دوسرے کو مثبت طریقے سے سنیں۔
یہ ملک خدا کی نعمت ہے۔ بڑی مشکل سے سنبھلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس ملک کا فطری لحاظ سے سیاسی اور سماجی طور پر آگے بڑھنا اور پروان چڑھنا ضروری ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترقی پسند اور قوم کی سیاست کے ساتھ
پڑھیں:
چین کا مستقبل تابناک، پورا مشرق ساتھ، دنیا جنگ نہیں امن کا سوچے: زرداری
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ چین کا مستقبل تابناک ہے، پورا مشرق ساتھ مل کر کام کرے گا۔ چین کے سرکاری ٹی وی سی جی ٹی این کے پروگرام ’’ورلڈ ٹوڈے‘‘ کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ چین کے عوام کی بے پناہ محبت انہیں بار بار یہاں لے آتی ہے۔ دورہ چین کے دوران جس شہر میں بھی گیا، عوام کی محبت اور اپنائیت نے دل جیت لیا۔ انسان کے دل کو فتح کرنے کے لیے محبت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اب تک 16 سے 17 بار چین کا دورہ کر چکے ہیں اور ہر بار انہیں وہی اپنائیت اور خلوص محسوس ہوا۔ چین آج 14 سال پہلے کے مقابلے میں بالکل بدل چکا ہے اور اس کی ترقی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی گہرے ہیں اور ہم ہر حال میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گوادر بندرگاہ دونوں ممالک کو جوڑنے والی اہم کڑی ہے۔ اسی طرح سی پیک کی ترقی سے پورا خطہ مستفید ہو گا۔ چین کی معیشت مضبوط ہے، عوام خوشحال اور مطمئن ہیں، اسی لیے چین کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے۔ پورا مشرق چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا کیونکہ اب دنیا کو جنگوں نہیں بلکہ معاشی امن اور ترقی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ صدر آصف علی زرداری نے زور دیا کہ سب ممالک کو ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کا حق سب کو حاصل ہے اور پاکستان و چین کا تعاون اب خلا تک پہنچ چکا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ زرعی شعبے میں خود کفالت حاصل کرنی ہوگی تاکہ مستقبل محفوظ بنایا جا سکے اور اس مقصد کے لیے پانی کے موثر استعمال اور جدید آبپاشی نظام اپنانا ضروری ہے۔ صدر زرداری نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین آہنی بھائی ہیں، جن کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہمیں آئندہ نسلوں کو یہ باور کرانا ہے کہ اپنے وسائل کے درست استعمال سے خود انحصاری حاصل کی جا سکتی ہے۔