Islam Times:
2025-11-19@23:06:25 GMT

آج شام میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن عوام کے بغیر

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

آج شام میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن عوام کے بغیر

ان انتخابات پر تنقید کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پارلیمانی ممبران کے انتخاب کیلئے ایک بڑے حصے پر براہ راست عوامی ووٹنگ کا نظام موجود نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دسمبر 2024ء میں بشار الاسد کی حکومت کے گرنے کے بعد، آج اتوار 5 اکتوبر 2025ء کو شام میں پہلے پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعہ ظاہری طور پر ایک نئی اور جمہوری نظام کی طرف منتقلی کی علامت ہونا چاہئے، لیکن اس کے انعقاد اور ساخت کا بغور جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ انتخابات عوامی منشاء کا مظہر ہونے کی بجائے، ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں عبوری حکومت کی طاقت کو مستحکم کرنے کا ایک عارضی کنٹرول میکانزم ہیں، جس میں جمہوری عمل کی کلیدی خصوصیات موجود نہیں۔

1.

غیر جمہوری ڈھانچہ: انتخاب کی بجائے تقرری
ان انتخابات پر تنقید کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پارلیمانی ممبران کے انتخاب کے لئے ایک بڑے حصے پر براہ راست عوامی ووٹنگ کا نظام موجود نہیں۔ یہ انتخابات ایک عارضی آئین کے تحت اور ایک غیر براہ راست نظام کے ذریعے ہو رہے ہیں، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ 3 سال کے لئے ایک عبوری پارلیمان قائم کرنا ہے، تا کہ مستقل آئین تیار کیا جا سکے اور ملک گیر انتخابات ہو سکیں۔

نشستوں کی تعداد اور انتخاب کا طریقہ:
کل نشستیں:
شامی پیپلز کونسل میں 210 نشستیں ہیں۔ البتہ بعض دیگر ذرائع کل نشستوں کی تعداد 150 بتاتے ہیں، لیکن 210 نشستیں اور ان کی تقسیم زیادہ مشہور ہے۔
ٹیکنو کریٹس (تقریباً دو تہائی):
140 کے قریب نشستیں ایک الیکٹورل کالج سسٹم کے ذریعے بھری جائیں گی۔ اس سسٹم میں، پارلیمنٹ کے ارکان کو 50 انتخابی حلقوں میں ماہرین اور معاشرتی شخصیات پر مشتمل مقامی کمیٹیاں منتخب کریں گی۔ مثال کے طور پر، حلب میں 14 نشستوں کے لئے 700 ارکان اور دمشق میں 10 نشستوں کے لیے 500 ارکان ووٹ ڈالیں گے۔ دوسرے لفظوں میں، حتمی ووٹر تقریباً چھ ہزار ارکان پر مشتمل یہ الیکٹورل اسمبلیاں ہوں گی، نہ کہ عام عوام۔
مخصوص نشستیں (تقریباً ایک تہائی):
باقی 70 نشستیں براہ راست عبوری حکومت کے سربراہ، احمد الشرع مقرر کریں گے۔ تقرری کی یہ مقدار اسمبلی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ قانون سازی کی ایک بڑی طاقت براہ راست ایگزیکٹو حکومت کے کنٹرول میں ہے۔

2. آزادانہ سیاسی مقابلے اور جماعتوں کا فقدان
اس انتخاب کے جمہوری ہونے میں ایک اور بڑی رکاوٹ آزاد سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے اور مقابلے کے ماحول کا نہ ہونا ہے۔  نئی جماعتوں کے لئے نظام کا فقدان: گزشتہ جماعتوں کو ختم کرنے کے بعد، نئی پارٹیوں کے رجسٹر ہونے اور سرگرمیاں چلانے کے لئے اب تک کوئی نظام قائم نہیں کیا گیا۔
انفرادی مقابلہ: نتیجتاً، تمام امیدوار آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مربوط سیاسی گروہوں کے بننے اور مختلف سوچ کی نمائندگی مشکل ہو گئی ہے۔
امیدواروں کی نااہلی: اطلاعات ہیں کہ جن امیدواروں نے پچھلی حکومت کی حمایت کی تھی۔ انہیں خود ساختہ الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا ہے۔

3. سیکورٹی چیلنجز کی وجہ سے کچھ علاقوں میں انتخابات کا ملتوی ہونا
شامی سپریم الیکشن کمیٹی نے اعلان کیا کہ حفاظتی مسائل کی وجہ سے شمال مشرق علاقے الحسکہ اور رقہ جب کہ جنوب میں سویداء کے تین شہروں میں انتخابات ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ اس تاخیر سے عبوری حکومت کی پورے شام میں جامع اور مکمل انتخابات کرانے کی صلاحیت پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس عمل میں ملکی آبادی کا تقریباً آدھا حصہ کسی بھی طرح کی سیاسی شرکت سے محروم ہو گیا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: براہ راست کی وجہ سے رہے ہیں کے لئے

پڑھیں:

محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے: شیخ حسینہ واجد

عدالتی فیصلے سے قبل بنگلادیش کی برطرف سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے حامیوں کے نام آڈیو پیغام جاری کر دیا، جس میں کہا گیا کہ محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق بنگلادیشی وزیراعظم نے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے فیصلے سے قبل اپنے حامیوں کے نام جاری آڈیو پیغام میں کہا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور میں ایسے فیصلوں کی پروا نہیں کرتیں۔

آڈیو پیغام میں عوامی لیگ کی 78 سالہ رہنما نے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی زیرقیادت عبوری حکومت پر ان کی جماعت کو ختم کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بنگلادیش کا آئین منتخب نمائندوں کو زبردستی ہٹانے کو جرم قرار دیتا ہے اور یونس نے یہی کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں، عوامی لیگ نچلی سطح سے وجود میں آئی ہے، اقتدار کے کسی غاصب کی جیب سے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے حامیوں نے احتجاج کی کال پر فوری ردعمل دیا اور عوام نے مجھ پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اس کرپٹ اور دہشت گرد یونس اور اس کے معاونین کو بتائیں گے کہ بنگلادیش کو کیسے درست سمت میں لایا جا سکتا ہے اور انصاف عوام خود کریں گے۔

شیخ حسینہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا کہ میں نے 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو تحفظ دیا اور اب مجھ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ تاہم پریشان نہ ہوں، میں زندہ ہوں اور عوام کی بھلائی کے لیے کام جاری رکھوں گی۔

بنگلادیش کی سابق وزیراعظم نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ عدالت کے فیصلے مجھے نہیں روک سکتے۔

انہوں نے پارٹی کارکنوں سے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آنے دیں، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، اللّٰہ نے مجھے زندگی دی ہے، وہی اسے لے لے گا۔ لیکن میں اپنے ملک کے لوگوں کے لیے کام کرتی رہوں گی۔ میں نے اپنے والدین، بہن بھائیوں کو کھو دیا ہے۔ اور انہوں نے میرا گھر جلا دیا۔

علم میں رہے کہ شیخ حسینہ واجد پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔

خیال رہے کہ شیخ حسینہ پر 2024 میں طلبہ تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کے احکامات دینے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق بنگلادیش مظاہروں کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • ’’بدلو نظام اجتماع عام‘‘ : نئی تحریک شروع کرنے جارہے ہیں‘کاشف سعید شیخ
  • مافیاز کے ظالمانہ نظام کوبرداشت نہیں کریں گے، حافظ نعیم
  • مخصوص نشستیں کیس: جسٹس جمال مندو خیل نے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟
  • اجتماع عام میں اضلاع سے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوگی، حافظ طاہر مجید
  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • سندھ کی تقسیم مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،سندھ حکومت
  • کوئٹہ، حکومت کیجانب سے سڑکیں بند، ٹریفک کا نظام درہم برہم
  • محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے: شیخ حسینہ واجد
  • جسٹس اقبال کی پی پی 98 میں ضمنی انتخاب کیخلاف درخواست پر سماعت سے معذرت
  • بھارتی اپوزیشن کا حکومت پر بہار الیکشن میں 14 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کا الزام