پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی میں شدید احتجاج، واک آؤٹ
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
سٹی 42 : پیپلز پارٹی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ن لیگی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہماری قیادت کے خلاف بیان بازی پر معافی مانگے۔
سینیٹ کا اسمبلی کا اجلاس چیئرمین کی زیر صدارت شروع ہوا۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیریں رحمان نے کہا کہ ملک میں سیلاب اور آفت آئی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کے لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، پی پی پی کی قیادت کی طرف سے کہنا چاہوں گی کہ ہم لوگوں کو تقویت دینے کے بجائے کمزور کررہے ہیں۔
لاٹری جیت کر کروڑ پتی بننے والا شخص ہسپتال پہنچ گیا
شیریں رحمان نے کہا کہ پنجاب حکومت اور سندھ حکومت میں الفاظ کی جنگ کا اثر وفاقی حکومت پر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے بارے میں باتیں کرنا نامناسب ہے، پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہے۔
بلاول بھٹو نے بس اتنا کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کرکے سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے۔ مگر لوگوں کی تذلیل کرکے حکومتی اتحاد نہیں چلایا کرتے، معافی مانگ کر کسی کی عزت نفس میں کمی نہیں ہوتی۔
لیسکو میں سنگل فیز میٹرز کا بحران؛ صارفین کو مارکیٹ سے میٹرز خریدنے کی اجازت
شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کلائمیٹ جسٹس کی بات کی ہے، جنوبی پنجاب سیلاب سے تباہ ہوا ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں مگر جو الفاظ ادا کیے گئے مجھے انہیں دہراتے ہوئے شرم آرہی ہے، اگر ہماری قیادت سے معافی نہیں مانگی گئی تو ہمیں گرانٹڈ نہیں لیا جائے۔ ان الفاظ کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر کسی کے الفاظ سے دل آزاری ہوئی ہے تو بطور سیاسی کارکن مجھے دکھ ہے، صدر زرداری بزرگ سیاست دان ہیں وہ صلح جوئی کا کردار ادا کریں گے، اپوزیشن خوش نہ ہو تو کوشش کریں کے کہ دوستوں کو منا کر واپس لے آئیں۔ قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے ہدایت دی کہ سینیٹر خلیل طاہر سندھو، سینیٹر افنان اللہ، سینیٹر انوشہ رحمان جائیں اپوزیشن کو منا کر لے آئیں۔
بھارت نے پہلے جوایڈونچر کیا اس کے بعد پوری دنیا میں ذلت اٹھائی؛ خواجہ آصف
تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں مقابلہ چل رہا ہے، امداد متاثرین تک تو نہیں پہنچی، شاید ان کی اپنی جیبوں تک پہنچی ہے، مقابلہ چل رہا ہے کس نے کتنی پریس کانفرنسز کیں، کتنی تصویریں بنوائیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اس ملک میں سب سے زیادہ حکمرانی کی، یہ لوگ ڈھٹائی سے مقابلہ کررہے ہیں کہ کس نے قوم کو کم دھوکا دیا اور قوم تکلیف میں تڑپ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے بچے آج بھی کھلے آسمان تلے بھوکے سو رہے ہیں اس کے باوجود دونوں جماعتیں بضد ہیں کہ انہیں ٹرافی دی جائے، میں پی ٹی آئی کی طرف سے انہیں، بے حسی، نااہلی، لالچ کی ٹرافی دیتا ہوں، پنجاب میں 5700 گاؤں آج بھی زیر آب ہیں، ان دیہات میں کسانوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی مرگئے۔
دارالحکومت میں رواں سال 2025 کے ڈینگی کیسز کی تفصیلات جاری
انہوں نے کہا کہ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں اور 1 کروڑ 80 لاکھ لوگ بری طرح متاثر ہیں، 22 ہزار مربع کلومیٹر کی زمین متاثر ہوئی ہے، 60فیصد چاول، 30فیصد کپاس کی فصل تباہ ہوچکی ہے، اس نقصان کے باعث 3ارب ڈالرکی درآمدات کرنا پڑے گی، حالات دیکھیں اور یہ لوگ ایوان سے واک آؤٹ کررہے ہیں۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کپاس کی کمی کا اثر ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ صنعتوں کو بھی پڑے گا، حکومت کا ردعمل صرف دکھاوا ہے، جتنی بھی امداد دی جارہی ہے وہ کرپشن کی نذر ہورہی ہے، حکومت اور اتحادی جماعتیں آپس میں کھیل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب قدرتی ہے لیکن تباہی کے ذمہ دار حکومت اور ان کے اتحادی ہیں، پاسکو ختم کردیا گیا اس کی وجہ سے سیلابی موسم شروع ہونے سے پہلے ہی گندم کے ذخیرے ختم ہوگئے۔ پی ڈی ایم ایز کو فنڈز نہیں دئیے گئے۔
ان جملوں کے ساتھ ہی ایوان میں پی ٹی آئی اور ن لیگی سینیٹرز کے مابین نوک جھونک شروع ہوگئی۔ پی ٹی آئی سینیٹرز چیئرمین ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے کہا کہ جب تک ہمارے پارلیمانی لیڈر کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہم بھی کسی کو نہیں بولنے نہیں دیں گے، آپ کے پارلیمانی لیڈر کو 15 منٹ بولنے دیا گیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلیک میلنگ نہیں چلنے دیں گے ایک تو آپ غلط بات کریں، غلط اعداد و شمار دیں تو ایسے نہیں چلے گا۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے کہا کہ جب تک ہمارے پارلیمانی لیڈر کو بولنے نہیں دیا جاتا ہم نہیں جائیں گے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جب تک آپ نشستوں پر نہیں بیٹھیں گے میں ان کو بولنے نہیں دوں گا، پی ٹی آئی سینیٹرز کے احتجاج پر علی ظفر کو بولنے کا دوبارہ موقع دے دیا گیا سینیٹر علی ظفر نے دوبارہ بولنا شروع کردیا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو سیاست سے پاک کیا جائے، راوی کے کنارے پر روڈا بنایا گیا جس کی اجازت پنجاب حکومت نے دی، ہماری معیشت وینٹی لینٹر پر ہے اور حکومت تصویریں بنانے میں مصروف ہے۔
ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ تو کیا کرے حکومت، بتائیں ناں! سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ اس پر قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس کے لیے کیا شوکت ترین کو دوبارہ لائیں؟
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیلاب قدرتی آفت تھی اور قدرتی آفت کے سامنے انسانی تدبیریں نہیں چلتیں، آج دنیا میں ہماری سنی جارہی ہے، آج امریکا ہماری بات سن رہا ہے، آپ کا تو فون بھی کوئی نہیں اٹھاتا تھا، ایمل ولی کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی ہے ۔
وزیراعظم نے انھیں اپنے دوروں سے متعلق سارا بتایا ہے، پی ایم نے سعودی عرب امریکا اور اقوام متحدہ کے دورے کا انھیں بتایا، ایمل ولی نے کہا مجھے ان حقائق کا نہیں علم تھا اگر علم ہوتا تو یہ بات نہ کرتا، ایمل ولی آجائیں ایوان میں تو ان کو موجودگی میں بات کریں گے تو مناسب ہوگا۔
سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ وزیر مملکت نے جس زبان میں بات کی وہ ایک وزیر کو زیب نہیں دیتی، ایمل ولی خان کو جو لاج ایلوکیٹ کیا گیا وہ سب کو پتا ہے، شہباز شریف صاحب سے پوچھیں انہوں نے ایمل ولی خان کو کس طرح لاج میں رہنے کی اجازت دی ہے۔
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ خاران میں قاضی کی عدالت کو آگ لگائی گئی ہے، پریزائیڈنگ افسر کو ان کی گاڑی سمیت اٹھایا گیا ہے یہ ریاست کا ایک ستون ہے اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
اس دوران سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کورم کی نشاندہی کردی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینٹر سیف اللہ ابڑو میں شدید تلخ کلامی ہوئی اور دونوں جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ جب سے ایوان میں آئے ہیں یہی کررہے ہیں، آپ بیٹھ جائیں اس پر سیف اللہ ابڑو بھڑک گئے اور کہا کہ آپ انگلی نیچے کرکے بات کریں۔ پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے دوبارہ کورم کی نشاندہی اس دوران پی ٹی آئی ارکان بھی ایوان سے واک آوٹ کرگئے۔
ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹر خلیل طاہر سندھو اور سینٹر بشری انجم بٹ پی ٹی آئی والوں کو مناکر لائیں۔ ایوان میں پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی جاتی رہی بعدازاں اجلاس جمعرات 9 اکتوبر شام پانچ بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت چاہی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی پی پی کو نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت دینے سے گریز کی کوشش کی اور کہا کہ پہلے سے طے ہوچکا ہے کہ وقفہ سوالات میں نکتہ اعتراض پر بات نہیں ہوگی، تاہم اپوزیشن اور حکومت کے مطالبے پر اسپیکر نے راجہ پرویز اشرف کو بولنے کی اجازت دے دی۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہم پاکستان کو کمزور کرنے والے نہیں، ہم پاکستان کپھے کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں ہم صوبائی تعصب کی بات نہیں کرتے ، بلاول بھٹو زرداری نے کوئی بات پنجاب حکومت کے خلاف نہیں کی حکومتی جماعت سے غیر ذمہ دارانہ بیانات آرہے ہیں ہم مثبت بات کرتے ہیں۔
بعدازاں پیپلز پارٹی نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور ارکان واک آؤٹ کرگئے۔ پیپلز پارٹی نے واک آؤٹ کے ساتھ ساتھ کورم کی بھی نشاندہی کردی کہ کورم پورا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی رکن اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ پیپلز پارٹی فرینڈلی فائر نہ کرے جرأت کرے آئے ہمارے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد پیش کرے، نورا کشتی نہ کریں آئیں تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔
پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی کورم کی نشاندہی کر دی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے گنتی کی ہدایت کر دی، ارکان پورے نہ ہونے پر قومی اسمبلی کورم ٹوٹ گیا ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کاروائی معطل کردی۔
اجلاس کچھ دیر بعد دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر نے اراکین کی دوبارہ گنتی کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کاروائی جمعرات 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی سینیٹرز چیئرمین سینیٹ نے پی ٹی آئی سینیٹر سینیٹ نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سیف اللہ ابڑو قومی اسمبلی کررہے ہیں ایوان میں اسپیکر نے کی اجازت کو بولنے ایمل ولی واک ا ؤٹ کورم کی دیا گیا ہوئی ہے سے واک رہا ہے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے 15 سے 18 اراکین قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں، حذیفہ رحمان کا دعویٰ
وزیر مملکت حذیفہ رحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 15 سے 18 اراکین قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں۔
وزیر مملکت حذیفہ رحمان نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نمبر گیم ہمارے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی افراد ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بغیر ہمارے پاس 163 ووٹ ہیں اور اہمیں 169 ووٹ چاہیئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے کیونکہ ہم نے کمٹمنٹ کی ہے کہ ہم نے ساتھ مل کر چلنا ہے۔ لیکن اگر کوئی عدم اعتماد لانا چاہتا ہے تو یہ اس کا آئینی حق ہے۔
حذیفہ رحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ پہلے اپنے ان لوگوں کو تو روک لیں جو خاموشی سے ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی سے ہمارا اختلاف صرف رائے کا ہے وہ ہمارے اوپر الزام لگا رہے ہیں تو ہمیں ان کا جواب تو دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم مضبوط ہو گئے ہیں۔ معیشت مضبوط ہو رہی ہے اور بہترین فارن پالیسی کی وجہ سے ن لیگ اوپر چلی گئی تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم پیپلز پارٹی کو اپنے سے دور کرنا چاہیں گے۔