ہمارے ادیب اور شاعر مفلسی کا شکار کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
کیا زندگی جذبات اور احساسات کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اس کا جواب ہے کہ حقیقتاً گزاری جا سکتی ہے لیکن یہ زندگی انسانی زندگی نہیں ہوگی بلکہ یہ زندگی حیوانی سطح کی ہوگی۔ شعر و ادب میں ہماری روح میں موجود جذبات اور احساسات کو بیدار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔
ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں اس لیے شعر و ادب کے شعبے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب ہم اس اہم شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یعنی ادیب اور شاعر کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں نااہل افراد بھی شامل ہیں، وہ روز بہ روز دولت مند بن جاتے ہیں لیکن ادب کے شعبے سے وابستہ بیشتر افراد عمومی طور پر مفلسی اور غربت کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
ادیب زندگی کے بارے میں خوبصورت نظریہ رکھتا ہے وہ فکر معاش یعنی روپیہ پیسہ اور دولت کے حصول کا سوچنے کے بجائے اسے اپنے خیالات اور تصورات سے پیار ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو اپنے خوبصورت خیالات اور تصورات کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا شخص معاشرے میں سپرفٹ رہتا ہے۔ تصوراتی اور عملی زندگی کا یہ فرق اسے ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں دولت کے حصول کو اولین حیثیت حاصل ہے، لوگ عمومی طور پر اس کے حصول کے لیے خودغرضی، جھوٹ، دھوکا دہی، فریب اور استحصال جیسی صفات کا سہارا لیتے ہیں۔ شاعر اور ادیب کیونکہ معاشرے کا سب سے زیادہ حساس طبقہ ہے اور زیادہ باشعور ہے وہ ان صفات سے عاری ہوتا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اسے عملی میدان میں ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔
ادیب اور شاعر کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے، ایک طرف معاشی معاملات ہوتے ہیں اور دوسری طرف ادب کے تقاضے اور مطالبات ہوتے ہیں، دونوں کے درمیان توازن رکھنا ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے جب ادیب دنیا داری کا انتخاب کرتا ہے یعنی معاشی معاملات میں الجھتا ہے تو ادب کا دامن چھوٹ جاتا ہے، اس کی ادبی صلاحیتیں ضایع ہو جاتی ہیں جب وہ اپنے فطری مزاج کے تحت ادب کا دامن پکڑتا ہے تو دنیا داری میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس طرح غم جاں اور غم دوراں کی یہ کشمکش اسے ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔
ایسے حالات میں ہمارے ادیب و شاعر معاشرے میں اپنی ناقدری کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ زرپرست معاشرہ ہے جب تک معاشرے کا فکری ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوگا کامیابی کے معیارات تبدیل نہیں ہوں گے اور جب تک روپے پیسے اور دولت کو عزت ملتی رہے گی یہی صورت حال رہے گی۔
شاعر و ادیب کی عزت و احترام اور خوشحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے یہاں ادب کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارے ادب کے فروغ میں چند رکاوٹیں ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے یہاں کتاب پڑھنے والوں کی شرح بہت کم ہے اور جو لوگ ادبی کتب پڑھتے ہیں ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ ادبی ذوق رکھنے والے کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ادب کو فروغ کیسے حاصل ہوگا۔
ادب کے فروغ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہماری ادبی تحریروں کا موجودہ دور کے تقاضوں، ضرورتوں اور مسائل سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ہمارے ادیب و شاعر معاشرتی تبدیلیوں کا اثر قبول نہیں کریں گے اور عوام الناس کے موضوعات کو ادب کا حصہ نہیں بنائیں گے تو ایسی صورت میں آج کا ادب کا قاری ادب پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ادب کے زوال کا سبب بنے گی۔
ادب کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ ادیب اور شاعروں کا عوامی ذہنی سطح سے بلند ہو کر ادب کا تخلیق کیا جانا ہے۔ جب ادیب دانستہ یا غیر دانستہ ادب اور شاعری میں مشکل اور غیر مانوس الفاظ تحریر کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی ادبی تحریر کو بوجھل کر دیتا ہے بلکہ وہ ایسا کرکے اپنے حلقہ ادب کو بھی محدود کر دیتا ہے۔ فن کا مقصد ابلاغ ہے اگر کوئی ادیب اور شاعر اس میں ناکام ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ ایسی تحریریں قبرستان میں اذان دینے کے مترادف ہیں۔
ہمارے یہاں لوگ ایسے ادب کو ترجیح دیتے ہیں جن سے ان کے جذبات کو آسودگی حاصل ہو۔ اس حوالے سے ہمارے یہاں تفریحی ادب کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ایسے ادب سے فکر میں گہرائی اور سوچ میں بصیرت پیدا نہیں ہوتی ۔معاشرے میں تخلیقی ادب کے فروغ کی صورت حال مایوس کن ہے۔
اگر کہیں تخلیقی ادب تخلیق بھی کیا جاتا ہے تو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اس کی اشاعت ممکن نہیں ہوتی۔ کتاب شایع ہو بھی جائے تو فروخت نہیں ہوتی۔ یورپ میں کوئی اچھی کتاب لکھ دے تو ادیب کی زندگی سنور جاتی ہے۔ ہمارے یہاں تو سال ہا سال گزر جانے کے بعد بھی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ہمارے مالی وسائل کی کمی ادب کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تخلیق فن کے لیے آزادی فکر بنیادی شرط ہے۔ مصلحت کا شکار ادیب جب مصلحت کا شکار ہوتا ہے تو اس کا فن زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیش تر ادیب و شاعر سیاسی جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں اس طرز فکر نے ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔
ہر دور میں قدآور اور ناپختہ ادیب و شاعر موجود رہے ہیں۔ موجودہ دور میں زیادہ تر شاعر و ادیب شہرت کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ایسے ادیبوں کی ادبی تحریروں کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جلد ہی وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ کر گمنام ہو جاتے ہیں اس طرز عمل نے بھی ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔
ماضی میں ہمارا ادب نظریاتی بنیادوں مثلاً ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی اور ادب برائے بندگی کی بنیادوں پر تقسیم تھا، ہر ایک نے معاشرے کو اپنی بہترین تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثر کیا۔
موجودہ دور میں ہمارا ادب ’’ادب برائے مفاد پرست‘‘ بن گیا ہے جس کے سبب ادب زوال پذیر ہے۔ ادب ایسے تنگ نظر زاویہ حیات کی مذمت کرتا ہے جو نسلی اور صوبائی اور مسلکی تعصب کو فروغ دے۔ اس سے انسان اپنی عظمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ادب کے فروغ میں ادیب اور شاعر ہمارے یہاں بڑی رکاوٹ کو فروغ حاصل ہو ہوتا ہے جاتا ہے ادب کا ادب کو
پڑھیں:
پاکستان جلد 57 مسلم ملکوں کی قیادت کرے گا: مشرقی نیٹو بن رہا، ٹرمپ کے 20 نکات ہمارے نہیں، نائب وزیراعظم
اسلام آباد (آئی این پی+وقائع نگار+خبر نگار خصوصی) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ غزہ امن معاہدے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ نے جو 20 نکات پیش کئے وہ ہمارے نہیں، ڈرافٹ میں تبدیلی کی گئی ہے۔ مسئلہ فلسطین پر سیاست کی گنجائش نہیں۔ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں۔ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ انتہائی اہم معاہدہ ہے، یہ آنکھیں بند کر کے معاہدہ نہیں کیا گیا، ہمارے معاہدے کے بعد دوسرے ممالک نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا۔ ہم نے ایٹمی قوت کے بعد معاشی قوت بننا ہے۔ سینیٹرمشتاق احمد سمیت تمام پاکستانیوں کی رہائی کیلئے بااثر یورپی ملک سے رابطے میں ہیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں قوم کی بھرپور نمائندگی کی۔ کشمیر کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ اٹھایا، عالمی معاملات پر گفتگو کی اور موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اٹھایا۔ وہاں اسرائیل کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ اقوام متحدہ غزہ میں خونریزی رکوانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ یورپی یونین ناکام ہو چکی ہے، عرب ممالک ناکام ہو چکے ہیں، ہماری کوشش تھی کہ کچھ ممالک کے ساتھ ملکر امریکہ، جو آخری امید ہے اسے شامل کیا جائے اور معصوم جانوں کی روز ہونے والی خونریزی، بھوک سے اموات اور بے دخلی اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے منصوبے کو روکا جائے۔ اس صورتحال میں ایک منصوبہ تھا کہ کچھ ممالک مل کر امریکی صدر سے رابطہ کریں اور انہیں اس میں شامل کریں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ ہے، جہاں 64 ہزار افراد شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں درجنوں قراردادیں منظور ہوچکی ہیں، او آئی سی کی قراردادیں منظور ہوچکی ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا کہ غزہ انسانوں کے قبرستان کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کا قبرستان بھی بن چکا ہے۔ 5 عرب ممالک، پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے وزرائے خارجہ کے ہمراہ امریکی صدر سے ملاقات کی۔ غزہ میں امن معاہدے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں 20 نکاتی ایجنڈا دیا گیا تو اسلامی ممالک کی طرف سے ہم نے ترمیم شدہ 20 نکاتی پلان دیا لیکن جو 20 نکاتی ڈرافٹ فائنل ہوا اس میں تبدیلیاں کی گئیں اور 20 نکاتی ڈرافٹ میں تبدیلیاں ہمیں قبول نہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ وہ ڈرافٹ نہیں جو ہم نے تیار کیا تھا اور اس حوالے سے دفتر خارجہ کی بریفنگ میں وضاحت دے چکے ہیں اور ہم 8 مسلم ممالک نے جو ڈرافٹ تیار کیا اس پر فوکس رکھیں گے۔ غزہ میں مکمل جنگ بندی ضروری ہے اور غزہ کی تعمیر نو کی جائے۔ یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں ہے یہ اسلامی ممالک کی ذمہ داری ہے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ صمود فوٹیلا میں ہمارے ایک سینیٹر بھی تھے۔ ہمارا اسرائیل سے کوئی رابطہ نہیں، اسرائیل نے 22 کشتیاں تحویل میں لے کر لوگوں کو تحویل میں لیا ہے، ہماری اطلاع کے مطابق سینیٹر مشتاق احمد بھی تحویل میں لئے جانے والوں میں شامل ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدے سے متعلق اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حرمین شریفین پر ہماری جان بھی قربان ہے اور یہ معاہدہ آناً فاناً نہیں ہوا۔ پی ڈی ایم دور میں معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی اور اس حکومت نے اس معاہدے پر کام تیز کیا۔ اللہ تعالی نے ہمیں خادمین اور محافظین میں شامل کیا ہے جس پر شکر گزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاہدہ ہے اور آنکھیں بند کر کے معاہدہ نہیں کیا گیا۔ ہمارے معاہدے کے بعد دوسرے ممالک نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران کئی ممالک نے ہم سے بات کی، اگر مزید ممالک آگئے تو یہ ایک نیٹو بن جائے گا اور میرا یقین ہے پاکستان جلد 57 ممالک کو لیڈ کرے گا۔ ایٹمی قوت کے بعد معاشی قوت بننا ہے۔ سعودی عرب کے بعد کئی عرب دیگر ممالک بھی اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان کی شمولیت کے بعد یہ ایک نیا نیٹو طرز کا اتحاد بن جائے گا۔ ان کاکہنا تھا کہ جب بھی ضرورت پڑی چین ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، چین کے ساتھ تعلق تھا، ہے اور رہے گا۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے شمع جونیجو کے ذکر پر ایوان میں وضاحت دے د ی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ میری جانب سے لکھے گئے خط میں شمع جونیجو کا نام نہیں تھا، شمع جونیجو کا نام آفیشل وفد کے لیٹر میں نہیں دیا گیا، تقریر لکھنے والے اور دیگر عملے میں شمع جونیجو کا نام دیا اور اس لیٹر پر میرے دستخط موجود نہیں۔ جو قومی راز ہمارے سینے میں ہیں وہ کبھی سامنے آئے نہ آئیں گے۔ یہ سینے میں دفن ہی رہیں گے۔ نائب وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو معاملات ہیں وہ حل ہو سکتے ہیں۔ بعدازاں قومی اسمبلی کا اجلاس پیر شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ادھر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے یہاں کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین کے اجلاس کی صدارت کی۔ کمیٹی نے سرکاری اداروں کی نجکاری سے متعلق جاری اقدامات کا جائزہ لیا۔ بات چیت میں گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ انتظامات کو حتمی شکل دینے پر توجہ مرکوز کی گئی تاکہ کارکردگی کو بڑھانے کے لیے اثاثوں کی آسانی سے منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے اور وسیع تر اقتصادی اصلاحات کے مطابق نجی شعبے کی شراکت کے کردار کو مضبوط کیا جائے۔ محمد اسحاق ڈار نے 23 سے 24 اکتوبر کو اسلام آباد میں علاقائی ٹرانسپورٹ کے وزراء کی کانفرنس کے بارے میں سفیروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ بریفنگ سیشن کی صدارت کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیر اعظم نے اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے، تجارت میں اضافہ اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانے میں علاقائی رابطوں کی اہمیت پر زور دیا۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے اچیومنٹ پروگرام کی 48 ویں سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں اس سے متعلقہ امور کا جائزہ لیا گیا اور اس اقدام سے متعلق اہم فیصلے لئے گئے۔ نائب وزیراعظم کے آفس سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے بنیادی ترقیاتی ترجیحات کی نشاندہی کرنے کے لیے کمیونٹی کی شراکت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وسائل کو موثر طریقے اور پاکستان کے عوام کے بہترین مفاد میں استعمال کیا جائے۔
اسلام آباد (آئی این پی) نیشنل پریس کلب میں پولیس دھاوے کے خلاف صحافیوں کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آئوٹ کیا گیا۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آئوٹ کرتے ہوئے سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔ اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی نے تین رکنی حکومتی وفد صحافیوں سے مذاکرات کے لئے بھیجا۔ سید نوید قمر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بیانات کے خلاف ہم نے واک آئوٹ کیا، احتجاج کیا، ہمیں کچھ یقین دہانیاں کرائی گئیں مگر گرائونڈ پر ابھی تک وہی صورتحال ہے۔ حالات جوں کے توں ہیں کوئی تبدیلی نہیں آ ئی۔ حالات بدلنے تک ہم ایوان سے واک آئوٹ کرتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔ اسد قیصر نے ایوان میں کہا کہ غزہ سے متعلق 20 نکات تیار کیے گئے ہیں۔ امریکی صدر سے پہلے ہمارے وزیراعظم نے ٹویٹ کیا۔ کیا انہوں نے فلسطین سے بھی پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟۔ ہمیں ایوان میں آ کر اس پر بریفنگ دی جائے۔ بعد ازاں وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری بھی قومی اسمبلی پریس لاؤنج پہنچ گئے، جہاں انہوں نے کہا کہ پریس کلب واقعے کے بعد خود وہاں گیا اورغیر مشروط معافی مانگی۔ اس معاملے پر جو بھی مطالبہ ہوا، اس کو پورا کریں گے۔ صحافیوں کے تمام مطالبات کو پورا کیا جائے گا۔ طلال چودھری نے کہا ہم آپ کے ساتھ رابطے میں ہیں، میں ایک بار پھر معافی بھی مانگتا ہوں اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ مظاہرین اور پولیس کی ہاتھا پائی کی وجہ سے پولیس پریس کلب میں گئی، جہاں انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ واقعہ اچانک پیش آیا، وزیراعظم اور وزیر داخلہ اس کا نوٹس لیں گے۔ ہمیں شرمندگی ہے اور معذرت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ پی آر اے پاکستان نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ صدر پی آر اے پاکستان ایم بی سومرو اور سیکرٹری نوید اکبر کی قیادت میں واک آئوٹ جاری ہے۔ حکومتی ارکان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو منا کر واپس ایوان میں لائے۔ پیپلزپارٹی کے اعجاز جاکھرانی نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ حکومت کے ساتھ معاملات طے نہیں پائے۔ پیپلزپارٹی صرف فلسطین پر بیان سننے کیلئے واک آؤٹ ختم کر کے ایوان میں آئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ بھی کسی قانون سازی یا ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اعجاز جاکھرانی نے یہ بھی کہا کہ پیپلزپارٹی آئندہ اجلاسوں میں بھی واک آؤٹ جاری رکھے گی۔