Express News:
2025-11-26@20:39:13 GMT

ہمارے ادیب اور شاعر مفلسی کا شکار کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

کیا زندگی جذبات اور احساسات کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اس کا جواب ہے کہ حقیقتاً گزاری جا سکتی ہے لیکن یہ زندگی انسانی زندگی نہیں ہوگی بلکہ یہ زندگی حیوانی سطح کی ہوگی۔ شعر و ادب میں ہماری روح میں موجود جذبات اور احساسات کو بیدار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔

ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں اس لیے شعر و ادب کے شعبے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب ہم اس اہم شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یعنی ادیب اور شاعر کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں نااہل افراد بھی شامل ہیں، وہ روز بہ روز دولت مند بن جاتے ہیں لیکن ادب کے شعبے سے وابستہ بیشتر افراد عمومی طور پر مفلسی اور غربت کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

ادیب زندگی کے بارے میں خوبصورت نظریہ رکھتا ہے وہ فکر معاش یعنی روپیہ پیسہ اور دولت کے حصول کا سوچنے کے بجائے اسے اپنے خیالات اور تصورات سے پیار ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو اپنے خوبصورت خیالات اور تصورات کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا شخص معاشرے میں سپرفٹ رہتا ہے۔ تصوراتی اور عملی زندگی کا یہ فرق اسے ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں دولت کے حصول کو اولین حیثیت حاصل ہے، لوگ عمومی طور پر اس کے حصول کے لیے خودغرضی، جھوٹ، دھوکا دہی، فریب اور استحصال جیسی صفات کا سہارا لیتے ہیں۔ شاعر اور ادیب کیونکہ معاشرے کا سب سے زیادہ حساس طبقہ ہے اور زیادہ باشعور ہے وہ ان صفات سے عاری ہوتا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اسے عملی میدان میں ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔

ادیب اور شاعر کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے، ایک طرف معاشی معاملات ہوتے ہیں اور دوسری طرف ادب کے تقاضے اور مطالبات ہوتے ہیں، دونوں کے درمیان توازن رکھنا ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے جب ادیب دنیا داری کا انتخاب کرتا ہے یعنی معاشی معاملات میں الجھتا ہے تو ادب کا دامن چھوٹ جاتا ہے، اس کی ادبی صلاحیتیں ضایع ہو جاتی ہیں جب وہ اپنے فطری مزاج کے تحت ادب کا دامن پکڑتا ہے تو دنیا داری میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس طرح غم جاں اور غم دوراں کی یہ کشمکش اسے ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔

ایسے حالات میں ہمارے ادیب و شاعر معاشرے میں اپنی ناقدری کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ زرپرست معاشرہ ہے جب تک معاشرے کا فکری ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوگا کامیابی کے معیارات تبدیل نہیں ہوں گے اور جب تک روپے پیسے اور دولت کو عزت ملتی رہے گی یہی صورت حال رہے گی۔

شاعر و ادیب کی عزت و احترام اور خوشحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے یہاں ادب کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارے ادب کے فروغ میں چند رکاوٹیں ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے یہاں کتاب پڑھنے والوں کی شرح بہت کم ہے اور جو لوگ ادبی کتب پڑھتے ہیں ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ ادبی ذوق رکھنے والے کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ادب کو فروغ کیسے حاصل ہوگا۔

ادب کے فروغ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہماری ادبی تحریروں کا موجودہ دور کے تقاضوں، ضرورتوں اور مسائل سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ہمارے ادیب و شاعر معاشرتی تبدیلیوں کا اثر قبول نہیں کریں گے اور عوام الناس کے موضوعات کو ادب کا حصہ نہیں بنائیں گے تو ایسی صورت میں آج کا ادب کا قاری ادب پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ادب کے زوال کا سبب بنے گی۔

ادب کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ ادیب اور شاعروں کا عوامی ذہنی سطح سے بلند ہو کر ادب کا تخلیق کیا جانا ہے۔ جب ادیب دانستہ یا غیر دانستہ ادب اور شاعری میں مشکل اور غیر مانوس الفاظ تحریر کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی ادبی تحریر کو بوجھل کر دیتا ہے بلکہ وہ ایسا کرکے اپنے حلقہ ادب کو بھی محدود کر دیتا ہے۔ فن کا مقصد ابلاغ ہے اگر کوئی ادیب اور شاعر اس میں ناکام ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ ایسی تحریریں قبرستان میں اذان دینے کے مترادف ہیں۔

ہمارے یہاں لوگ ایسے ادب کو ترجیح دیتے ہیں جن سے ان کے جذبات کو آسودگی حاصل ہو۔ اس حوالے سے ہمارے یہاں تفریحی ادب کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ایسے ادب سے فکر میں گہرائی اور سوچ میں بصیرت پیدا نہیں ہوتی ۔معاشرے میں تخلیقی ادب کے فروغ کی صورت حال مایوس کن ہے۔

اگر کہیں تخلیقی ادب تخلیق بھی کیا جاتا ہے تو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اس کی اشاعت ممکن نہیں ہوتی۔ کتاب شایع ہو بھی جائے تو فروخت نہیں ہوتی۔ یورپ میں کوئی اچھی کتاب لکھ دے تو ادیب کی زندگی سنور جاتی ہے۔ ہمارے یہاں تو سال ہا سال گزر جانے کے بعد بھی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ہمارے مالی وسائل کی کمی ادب کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تخلیق فن کے لیے آزادی فکر بنیادی شرط ہے۔ مصلحت کا شکار ادیب جب مصلحت کا شکار ہوتا ہے تو اس کا فن زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیش تر ادیب و شاعر سیاسی جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں اس طرز فکر نے ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔

ہر دور میں قدآور اور ناپختہ ادیب و شاعر موجود رہے ہیں۔ موجودہ دور میں زیادہ تر شاعر و ادیب شہرت کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ایسے ادیبوں کی ادبی تحریروں کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جلد ہی وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ کر گمنام ہو جاتے ہیں اس طرز عمل نے بھی ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔

ماضی میں ہمارا ادب نظریاتی بنیادوں مثلاً ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی اور ادب برائے بندگی کی بنیادوں پر تقسیم تھا، ہر ایک نے معاشرے کو اپنی بہترین تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثر کیا۔

موجودہ دور میں ہمارا ادب ’’ادب برائے مفاد پرست‘‘ بن گیا ہے جس کے سبب ادب زوال پذیر ہے۔ ادب ایسے تنگ نظر زاویہ حیات کی مذمت کرتا ہے جو نسلی اور صوبائی اور مسلکی تعصب کو فروغ دے۔ اس سے انسان اپنی عظمت سے محروم ہو جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ادب کے فروغ میں ادیب اور شاعر ہمارے یہاں بڑی رکاوٹ کو فروغ حاصل ہو ہوتا ہے جاتا ہے ادب کا ادب کو

پڑھیں:

پاکستانی سولر صارفین کا رجحان آف گرڈ سولر سسٹم کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

پاکستان میں بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر لاکھوں گھر، دکانیں اور فیکٹریاں نیشنل گرڈ سے مکمل طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سستے سولر پینل کی تیاری آغاز، بجلی کے بلوں سے پریشان صارفین کے لیے بڑا ریلیف

پاور ڈویژن کے مطابق ملک بھر میں 12 سے 13 ہزار میگاواٹ سے زائد آف گرڈ سولر سسٹم نصب ہو چکے ہیں، اور سولر ماہرین کے مطابق آف گرڈ سسٹم کا رجحان اب سولر صارفین میں بڑھ رہا ہے۔

نیٹ میٹرنگ اور حکومتی پالیسیوں سے بے اعتمادی

سولر انڈسٹری سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہ صارفین ہیں جو نہ تو نیٹ میٹرنگ کے جھنجھٹ میں پڑنا چاہتے ہیں اور نہ حکومتی پالیسیوں کے رحم و کرم پر رہنا چاہتے ہیں، بلکہ اپنی چھت پر سولر پینل اور بیٹری لگا کر 24 گھنٹے اپنی بجلی خود پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

آف گرڈ تنصیبات میں تیزی، انجینیئر نور بادشاہ

انجینیئر نور بادشاہ کا کہنا ہے کہ آف گرڈ سولر اب پاکستان کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا توانائی کا شعبہ ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اصل میں 15 ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ آف گرڈ تنصیب ہو چکی ہے کیونکہ 70 فیصد سے زائد صارفین رجسٹر ہی نہیں کرواتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ’جب گرڈ پر بھروسہ ہی نہیں تو نیٹ میٹرنگ کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ عرصے میں ہمارے آف گرڈ سسٹمز کی تنصیب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے لوگ 5–10 کلو واٹ لگاتے تھے، اب اوسط سسٹم 20 سے 50 کلو واٹ کا ہے۔ گاہک کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ’مجھے گرڈ سے مکمل آزاد کر دو، بل صفر چاہیے‘۔

نیٹ میٹرنگ پالیسیوں کے اثرات، شرجیل احمد سلہری

سولر توانائی کے ماہر شرجیل احمد سلہری کا کہنا تھا کہ حکومت نے نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس لگا کر اور نئی پالیسیاں بنا کر جو سبق پڑھایا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آف گرڈ کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اب سولر کو آپ بھول جائیں، امریکی ’انورٹر بیٹری‘ نے پاکستان میں تہلکہ مچا دیا

لتھیم بیٹریوں کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک عام 3 بیڈ روم گھر اب 15 کلو واٹ پینل + 20 کلو واٹ بیٹری لگا کر سال بھر میں 3 سے 4 لاکھ روپے کا بل بآسانی بچا سکتا ہے۔

صارفین کے تجربات، راولپنڈی کے عدنان جنجوعہ

راولپنڈی کے رہائشی عدنان جنجوعہ آف گرڈ سولر سسٹم سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے 5 کلو واٹ پینل اور 15 کلو واٹ لتھیم بیٹری لگائی۔ میرا ماہانہ بل صفر روپے ہو گیا۔ اب مجھے لوڈشیڈنگ، فیول ایڈجسٹمنٹ، ٹیکس یا حکومتی پالیسی سے کوئی غرض نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ  گرڈ کا میٹر تو شوپیس بنا دیا ہے، کیونکہ حکومت کی ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی نئی پالیسی سننے کو ملتی ہے۔ کبھی ایک مسئلہ، کبھی دوسرا۔ بہتر ہے کہ بیٹری لے لی جائے۔

کیا آف گرڈ رجحان رکے گا؟

ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ آف گرڈ انقلاب اب رکنے والا نہیں۔ جب تک بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی نہیں آتی اور گرڈ کی ساکھ بحال نہیں ہوتی، لاکھوں پاکستانی ہر ماہ گرڈ کو چھوڑتے رہیں گے اور اپنی چھتوں کو اپنا ذاتی پاور ہاؤس بناتے رہیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان سولر پینل گرڈ اسٹیشن گرڈ میٹر

متعلقہ مضامین

  • شرمیلا فاروقی کو پارلیمنٹ لاجز کا ماحول جیل جیسا کیوں لگا؟
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا 7 دسمبر کو پشاور میں بڑے جلسے کا اعلان
  • اداروں، شہریوں کیخلاف بندوق اٹھانے والوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں، طارق فضل چوہدری
  • ہمارے بھاجی…جج صاحب (آخری قسط)
  • یہ تقسیم کیوں ؟
  • ڈکی بھائی کی ضمانت منظور ہونے کے باوجود رہائی التوا کا شکار
  • بانی سے ملاقات معاملہ، ہمارے صبرکا پیمانہ لبریزہورہا ہے، بیرسٹر گوہر
  • شبمن گل شدید انجری کا شکار، اس سال مزید کوئی میچ نہیں کھیل سکیں گی
  • سرحدیں بدل سکتی ہیں اور کل سندھ ہندوستان کو واپس مل سکتا ہے، راجناتھ سنگھ
  • پاکستانی سولر صارفین کا رجحان آف گرڈ سولر سسٹم کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟