حکومت کے مجموعی قرضوں میں 765 ارب روپے کی نمایاں کمی آگئی، وزارت خزانہ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کے مجموعی قرضے میں اگست 2025ء تک 765 ارب روپے کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو نہ صرف مقدار کے لحاظ سے ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے بھی کمی کی عکاسی کرتی ہے۔
وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ پغام میں کہا گیا ہے کہ یہ بہتری حکومت کی مالی نظم و ضبط کے عزم، اخراجات پر موٴثر کنٹرول، محتاط قرضہ جات کی حکمتِ عملی اور دانشمندانہ قرضہ جاتی انتظامات کا نتیجہ ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق قرضوں میں یہ کمی ملک کی مجموعی معیشت کے استحکام کی جانب ایک مثبت قدم ہے اور پاکستان کی اقتصادی حکمتِ عملی پر اعتماد کو مضبوط کر رہی ہے حکومت کی موجودہ پالیسی نہ صرف طویل المدتی قرضہ جاتی پائیداری کو بحال کرنے میں مدد دے رہی ہے بلکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خزانہ کے
پڑھیں:
پاکستان کو کرپشن بیسڈ منی لانڈرنگ کے نمایاں خطرات کا سامنا ہے، آئی ایم ایف
نیویارک (ویب ڈیسک) آئی ایم ایف کی پاکستان میں گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ سے متعلق تہلکہ خیز رپورٹ۔آئی ایم ایف نے فیٹف کی شرائط پر عمل درآمد میں پیش رفت کے باوجود پاکستان میں کرپشن بیسڈ منی لانڈرنگ کے خطرات کی نشاندہی کردی۔
گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ سے متعلق رپورٹ میں آئی ایم ایف نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کیلئے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا تاہم کہا ہے کہ پاکستان کو کرپشن بیسڈ منی لانڈرنگ کے نمایاں خطرات کا سامنا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے نے کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی دولت کا بیرون ملک سراغ لگا کر واپس لانے اورایسٹ ریکوری کا عمل تیز کرنے کیلئے دیگر ممالک سے قانونی مدد لینے کی سفارش کی گئی ہے۔ کرپشن کی روک تھام کیلئے پندرہ نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا شروع کرنے پر بھی زور دیا گیا ۔
رپورٹ میں واضح کیا کہ ریئل اسٹیٹ، ہول سیل ٹریڈ میں نقد لین دین کی وجہ سے خطرات مزید بڑھتے ہیں۔ رپورٹ میں شوگر سیکٹر میں بااثر مالکان کے حکومتی پالیسیوں پر اثرورسوخ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ چینی کی برآمدت، قیمتوں پر بھی شوگر لابی کا براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2018،19 میں پی ٹی آئی دورحکومت میں سبسڈی کے ساتھ چینی برآمد کرنے سے قلت، ومہنگائی پیدا ہوئی۔ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں سیاسی شخصیات، شوگر ملز مالکان کا گٹھ جوڑ ثابت ہوا تھا لیکن کوئی احتساب نہیں کیا گیا۔