حکومت کے مجموعی قرضوں میں 765 ارب روپے کی نمایاں کمی آگئی، وزارت خزانہ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کے مجموعی قرضے میں اگست 2025ء تک 765 ارب روپے کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو نہ صرف مقدار کے لحاظ سے ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے بھی کمی کی عکاسی کرتی ہے۔
وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ پغام میں کہا گیا ہے کہ یہ بہتری حکومت کی مالی نظم و ضبط کے عزم، اخراجات پر موٴثر کنٹرول، محتاط قرضہ جات کی حکمتِ عملی اور دانشمندانہ قرضہ جاتی انتظامات کا نتیجہ ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق قرضوں میں یہ کمی ملک کی مجموعی معیشت کے استحکام کی جانب ایک مثبت قدم ہے اور پاکستان کی اقتصادی حکمتِ عملی پر اعتماد کو مضبوط کر رہی ہے حکومت کی موجودہ پالیسی نہ صرف طویل المدتی قرضہ جاتی پائیداری کو بحال کرنے میں مدد دے رہی ہے بلکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خزانہ کے
پڑھیں:
حکومت نئی امریکی پالیسی پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے، رضا ربانی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-08-19
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے زور دیا ہے کہ وفاقی حکومت کو ’نئی امریکی پالیسی‘ کے حوالے سے پارلیمنٹ کو ’فوراً اعتماد میں لینا چاہیے، انہوں نے خاص طور پر نایاب معدنیات کی فروخت اور پسنی بندرگاہ کو واشنگٹن کو پیش کرنے کے مبینہ منصوبے کی میڈیا رپورٹس کا ذکر کیا۔ پریس ریلیز میں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے عوام یا پارلیمنٹ کو امریکا کے ساتھ تعلقات کے نئے خدوخال کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ’عوام کو خارجہ پالیسی کی تفصیلات اور اس کی سمت کے بارے میں جاننے کا حق حاصل ہے، تاریخ میں امریکا کبھی بھی ایک قابلِ اعتماد دوست ثابت نہیں ہوا جس پر انحصار کیا جا سکے۔ امریکی کمپنی یو ایس اسٹریٹیجک میٹلز کو قیمتی اور نایاب معدنیات کی فروخت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ’بدقسمتی‘ ہے کہ اس معاہدے کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اس معاملے کے ’حقیقی فریق‘ صوبے ہیں، جنہیں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے ذریعے اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ رضا ربانی نے نشاندہی کی کہ ’وفاقی حکومت اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہے کہ آئینِ 1973 کا آرٹیکل 172 نافذ العمل ہے، جس کے مطابق صوبوں کا معدنی وسائل میں 50 فیصد حصے کے مالک ہیں۔