26 ویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے، سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔
بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ چھبیسیویں ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اچھا ہوا یا برا، ان میرٹس کو ابھی رہنے دیں۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ میں میرٹس پر نہیں جارہا، صرف کچھ حقائق بتارہا ہوں، ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، فل کورٹ وہ والی جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی، اس حساب سے سولہ رکنی بنچ بنے گا، موجودہ بینچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے، استدعا ہے باقی اس وقت کے آٹھ ججزکو بھی شامل کیا جائے۔
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26 ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے نا؟ اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بینچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک اس ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔
لاہور بار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے، حامد خان ایڈوکیٹ نے فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل شروع کردئیے اور مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم غیر ضروری جلد بازی میں منظور کی گئی، 20 اکتوبر 2024 کی شام کو ترامیم پہلے سینٹ میں پیش ہوئیں، 20 اور 21 اکتوبر 2024 کی درمیانی شب ترامیم قومی اسمبلی میں پیش ہوئیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خان صاحب یہ تو بینچ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل نہیں ہیں، آپ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے جب مرکزی کیس سنیں گے تو تب آپ اس حوالے سے دلائل دیجئے گا۔
حامد خان نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، ترامیم منظور ہونے کا طریقہ کار پر بات کرہا ہوں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں ہم ماں لیتے ہیں کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے، آپ بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، وکلاء بھی آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔
جسٹس مسرت حلالی نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی، آپ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیاہے۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے حامدخان کو ہدایت دی کہ مرکزی کیس کو نہیں فی الحال سن رہے، فی الحال فُل کورٹ کہ درخواست پر دلائل دیں،وکیل حامدخان نے مؤقف اپنایا کہ فی الحال بات نہیں کررہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتاہوں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد بینچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لےلیاگیاہے، چھبیسویں آئینی ترمیم میں بینچز بنانے کے طریقے کار کے حوالے سے بتایاگیاہے۔
وکیل حامدخان نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، چھبیسویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے۔
وکیل حامد خان نے جوڈیشل کمیشن کے اراکین کےحوالے سے عدالت کو آگاہ کیا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بنچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ حامد خان صاحب مگر آپ نے اپنی استدعا میں یہ مانگا ہی نہیں،
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟
حامد خان نے استدلال کیا کہ جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے،جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بنچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نہیں دیا پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں، حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191اے کو بھول جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بھول جائیں تو پھرآئینی بینچ ہی ختم پھرہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا، اگر اس آئینی بنچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟
گزشتہ روز آئینی بینچ نے فریقین کو سننے کے بعد کیس کی سماعت لائیو سٹریمنگ کا حکم دیا تھا، چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27 جنوری 2025 کو ہوئی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چھبیسویں آئینی ترمیم جسٹس امین الدین نے نے ریمارکس دیے کہ جسٹس مندوخیل نے بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر سپریم کورٹ وکیل حامد نے کہا کہ فی الحال پر دلائل ترمیم کو ترمیم کے فل کورٹ کا حصہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی
سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ آف پاکستان نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف 36 درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔آئینی بنچ میں جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ تھے، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ میں شامل تھے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف چھتیس درخواستوں پرسماعت براہ راست دکھانے کی درخواستیں منظور کرلیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ہم لائیو اسٹریمنگ سے ایکسپوز ہوگئے، اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔وکیل خیبرپختونخوا حکومت نے فل کورٹ یا آئینی فل بنچ کی تشکیل کی استدعا کرتے ہوئے بینچ پراعتراض نہ ہونے کا موقف اپنایا۔
مصطفی نواز کھوکھر کے وکیل شاہد جمیل نے فل کورٹ کی تشکیل سیمتعلق درخواست پراعتراضات دورکرنے کی استدعا کی۔بینچ نے مشاورت کے بعد درخواست پرنمبرلگانے کی ہدایت کردی، جواد ایس خواجہ کے وکیل نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواست کی استدعا کی۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اگربینچ پراعتراض لگتا ہے تودوسرا بینچ ان کو سنیگا، پھرلائیوسٹریمنگ کی درخواست سنیں گے۔
وکیل نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم رات کے اندھیرے میں منظورکی گئی تھی، جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتے ہیں دن کی روشنی میں سماعت کے علاوہ لائیو اسٹریم بھی ہونی چاہیے۔جسٹس عائشہ ملک نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے لائیو اسٹریمنگ سے متعلق موقف پوچھا توعامررحمان نے کہا کہ لائیو اسٹریمنگ انتظامی سطح پرہوتا ہے۔جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ یعنی بینچ جوفیصلہ کرلے،اس پرراضی ہیں۔آئینی بینچ نے لائیو اسٹریمنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے بعد میں سناتے ہوئے عدالت نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواستیں منظور کرلیں، سماعت دوبارہ کل ہوگی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ منصوبے سے غزہ میں امن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، نیتن یاہو اسرائیلی جیل میں ہم پر کُتے چھوڑے گئے، رہائی پانے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد نے آنکھوں دیکھا حال بتا دیا سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت گلوبل صمود فلوٹیلا کے مزید 131 ارکان رہا آن لائن نوکریوں کے بہانے حساس معلومات حاصل کرنے کی بھارتی سازش بے نقاب اسلام آباد ہائی کورٹ: پٹوار خانوں میں پرائیویٹ افراد کی موجودگی پر جسٹس محسن اختر کیانی برہم، حکومت کو خالی آسامیاں فوری پُر کرنے... نو مئی سمیت دیگر مقدمات؛ عمران خان، بشریٰ بی بی کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع سینیٹر شبلی فراز کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب کیلئے الیکشن شیڈول جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم