جب تک آئین میں مزید ترمیم نہیں ہوتی، موجودہ آئین پر ہی عمل کرنا ہوگا، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ (ایس سی) کے 8 رکنی آئینی بینچ (سی بی) نے بدھ کے روز 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کی درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع کر دی۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں کوئی مزید ترمیم نہیں ہوتی، ہمیں موجودہ آئین پر ہی عمل کرنا ہوگا۔
26 ویں ترمیم کو گزشتہ سال اکتوبر میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے منظور کیا تھا، عدالتی اختیارات اور مدتِ ملازمت میں تبدیلی سے متعلق ہے، اس ترمیم نے عدلیہ کی خودمختاری پر اثرات کے باعث سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین کے درمیان شدید بحث کو جنم دیا ہے۔
اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (سوموٹو) کے اختیارات ختم کر دیے گئے تھے، چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی مدتِ ملازمت 3 سال مقرر کی گئی تھی، اور ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ 3 سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو سی جے پی نامزد کرے۔
یہی ترمیم آئینی بینچ کی تشکیل کا سبب بھی بنی، جو اب اسی قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے، جس نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔
اس قانون کو مختلف بار ایسوسی ایشنز، بار کونسلز، وکلا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور بعض سیاست دانوں نے چیلنج کیا ہے، سپریم کورٹ کے روبرو یہ استدعا بھی موجود ہے کہ اس معاملے کی سماعت 8 رکنی بینچ کے بجائے فل کورٹ کرے۔
یہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں کام کر رہا ہے، جب کہ دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
کیس کی سماعت تقریباً 8 ماہ بعد دوبارہ شروع ہوئی، اور عدالت نے متفقہ طور پر درخواست گزاروں کی استدعا پر کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ (براہ راست نشر کرنے) کی اجازت دے دی۔
زیرِ سماعت درخواستوں میں فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا بھی شامل ہے، لہٰذا عدالت سب سے پہلے یہ طے کرے گی کہ آیا اس کیس کو سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ سنے یا موجودہ 8 رکنی بینچ ہی سماعت کرے۔
سماعت کے آغاز پر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) کی جانب سے ایڈووکیٹ حامد خان پیش ہوئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 26ویں ترمیم غیر معمولی انداز میں متعارف کرائی گئی اور رات کے وقت پارلیمان سے منظور کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 17 جج موجود تھے، جن میں اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، جو بعد میں ریٹائر ہو گئے، لہٰذا انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت کے لحاظ سے 16 رکنی فل کورٹ کو اس معاملے کی سماعت کرنی چاہیے، اور اس بینچ میں موجود تمام 8 جج اس وقت بھی سپریم کورٹ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق فروری میں تعینات ہونے والے 6 ججز کے بعد اس وقت عدالت عظمیٰ میں کل 24 جج ہیں، جن میں سی جے پی یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ یہ ترمیم آئین کے بنیادی خدوخال کے خلاف ہے، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا فی الحال یہ ترمیم آئین کا حصہ ہے؟
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں کوئی مزید ترمیم نہیں ہوتی، ہمیں موجودہ آئین پر ہی عمل کرنا ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے مشاہدہ کیا کہ چاہے 26ویں ترمیم ’درست ہو یا غلط‘، عدالت نے اسے ابھی تک معطل نہیں کیا، آپ نے چوں کہ اس ترمیم کو آئین کا حصہ مان کر اسے چیلنج کیا ہے، اسی لیے یہ معاملہ ہمارے سامنے ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ فی الحال عدالت بنیادی مقدمے پر نہیں بلکہ فل کورٹ کی درخواست پر غور کر رہی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ وہ اس وقت ترمیم کی غیر آئینی نوعیت پر نہیں بلکہ اس کے ’اختیارات کے اثرات‘ پر دلائل دے رہے ہیں، اس ترمیم کے بعد پہلی بار چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کا اختیار ختم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) پہلے سے موجود تھا لیکن 26ویں ترمیم کے بعد جے سی پی کی تشکیل میں بھی تبدیلی آئی اور ’جج اقلیت میں رہ گئے‘ کیوں کہ ارکان کی تعداد بڑھا دی گئی۔
26 ویں ترمیم سے متعلق درخواستیں
درخواست گزاروں نے استدعا کی ہے کہ اگر یہ طے ہو کہ دونوں ایوانوں کے دو تہائی منتخب ارکان نے آزادانہ طور پر ووٹ نہیں دیا، تو عدالت 26ویں ترمیم کو طریقہ کار کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کالعدم قرار دے۔
متبادل طور پر انہوں نے کہا کہ عدالت ترمیم کی ان دفعات کو ختم کرے جو عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچاتی ہیں، کیوں کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی خصوصیت ہے۔
ان دفعا میں ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے سے متعلق دفعات (آرٹیکل 175A(1) اور آرٹیکلز 175A(18)-(20))، چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ترمیم شدہ آرٹیکل 175A(3)، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچز سے متعلق دفعات شامل ہیں۔
درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عدالت اعلان کرے کہ اصل آرٹیکل 175A(3) بدستور نافذ العمل ہے اور وفاقی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو اسی کے مطابق چیف جسٹس مقرر کرے۔
انہوں نے آئینی بینچز کے قیام کو بھی غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی، اور مؤقف اختیار کیا کہ جن اراکینِ پارلیمان کے انتخابی تنازعات زیرِ سماعت تھے، ان کے ووٹ شامل کیے بغیر آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔
علاوہ ازیں، انہوں نے سپریم کورٹ (عمل و طریقہ کار) ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد میں ترمیم) ایکٹ 2024 کو بھی غیر آئینی، کالعدم اور بے اثر قرار دینے کی استدعا کی، کیوں کہ ان قوانین کی بنیاد ’غیر آئینی‘ 26ویں ترمیم پر ہے اور یہ اسی کے تحت غیر آئینی مقاصد کے حصول کی کوشش ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آئین پر انحصار کرتے ہیں سپریم کورٹ کے 26ویں ترمیم کی استدعا استدعا کی نے کہا کہ ترمیم کے چیف جسٹس کی سماعت انہوں نے ترمیم کو فل کورٹ
پڑھیں:
26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے،جسٹس مسرت ہلالی کا حامد خان سے مکالمہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ 26ویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بنچ میں شامل ہیں ۔
میانوالی میں الیکٹرک بسیں چلنے سے چھوٹی گاڑیوں کا عملہ فاقوں پر مجبور،وزیراعلیٰ پنجاب سے مدد کی اپیل
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں غیرمعمولی طریقے سے لائی گئی تھی، 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت پاس کی گئی،سپریم کورٹ میں 21اکتوبر کو 17ججز موجود تھے، 25اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے، ججز کی تعداد16رہ گئی،26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست کی سماعت فل کورٹ کرنے کی استدعا ہے،موجودہ آئینی بنچ کے 8ججز بھی 26ویں ترمیم کے پاس ہونے کے وقت سپریم کورٹ میں موجود تھے،بقیہ 8ججز کو بھی آئینی بنچ کا حصہ ہونا چاہئے جو 26ویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے وقت سپریم کورٹ کا حصہ تھے،سپریم کورٹ کا فل کورٹ دستیاب ہے۔
اورکزئی میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی،19بھارتی سپانسرڈ خوارج ہلاک،فائرنگ کے تبادلے میں لیفٹیننٹ کرنل جنید عارف ، میجر طیب راحت سمیت 11جوان شہید
جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں،جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ 26ویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے۔
مزید :