اورکزئی میں شہید ہونے والے میجر اور لیفٹیننٹ کرنل کی نماز جنازہ ادا، وزیراعظم، فیلڈ مارشل کی شرکت
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
خیبرپختونخوا کے ضلع اورکزئی میں بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد تنظیم ’فتنہ الخوارج‘ کے خلاف خفیہ آپریشن کے دوران شہید ہونے والے 11 بہادر سپوتوں میں شامل لیفٹیننٹ کرنل جنید طارق اور میجر طیب راحت کی نماز جنازہ چکلالہ راولپنڈی میں ادا کردی گئی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق نماز جنازہ میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزرا، فوجی و سول حکام اور عوامی افراد نے شرکت کی۔
اورکزئی میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل جنید طارق اور میجر طیب راحت کی نمازِ جنازہ چکلالہ گیریژن میں ادا
وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزراء اور عوام کی بڑی تعداد کی شرکت
وزیراعظم کا شہداء کو خراجِ عقیدت،
قوم دہشت گردی کے خلاف متحد اور پُرعزم… pic.
— Dr. Tariq Fazal Ch. (@DrTariqFazal) October 8, 2025
وزیراعظم نے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ پاکستانی قوم دہشتگردی کے اس ناسور کے خلاف مضبوط اور یک جان ہے۔
انہوں نے کہاکہ شہدا کی عظیم قربانی قوم کے عزم کو ثابت کرتی ہے کہ وہ ہر صورت مادر وطن کا دفاع کرے گی۔
شہدا کو ان کے آبائی علاقوں میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ آج خیبرپختونخوا کے ضلع اورکزئی میں ایک آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے بھارتی حمایت یافتہ 19 دہشتگردوں کو ہلاک کیا، جبکہ فائرنگ کے شدید تبادلے میں افسران سمیت 11 جوان شہید ہوگئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی ایس پی آر افسران شہید پاک فوج نماز جنازہ ادا وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایس پی ا ر افسران شہید پاک فوج وی نیوز اورکزئی میں
پڑھیں:
انڈیا: ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمان ’اخلاق‘ کے تمام ملزمان کو رہا کرانے کی کوششیں
بھارت کی ریاست اترپردیش میں، انتہاپسند ہندو ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے والےمسلمان محمد اخلاق کے تمام ملزمان کو رہا کرانے کی ریاستی حکومت کی درخواست پر فیصلہ 12 دسمبر کو سنایا جائے گا۔
بھارت کی ریاست اترپردیش میں 2015 میں مویشیوں کے گوشت سے متعلق افواہ پر ہندو انتہاپسند ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے گئے مسلمان شہری محمد اخلاق کے اہلِ خانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کی جدوجہد ترک نہیں کریں گے، چاہے حکومت ملزمان کے خلاف مقدمہ ختم کرانے کی کوشش ہی کیوں نہ کرے۔
’گوشت‘ کی افواہ اور جان لیوا حملہبی بی سی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ محمد اخلاق، جن کی عمر اُس وقت 50 برس تھی، کو اُس وقت تشدد کا نشانہ بناکر ہلاک کر دیا گیا تھا جب دیہات میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہوں نے گھر میں ’گائے کا گوشت‘ رکھا ہے اور اسے کھایا ہے۔
اہلِ خانہ نے یہ الزام ہمیشہ مسترد کیا ہے۔
دادری کے علاقے میں پیش آنے والا یہ واقعہ دارالحکومت دہلی سے صرف 49 کلومیٹر دور پیش آیا۔ یہ بھارت میں ’گائے کے نام پر تشدد‘ کا پہلا بڑا اور ملک گیر سطح پر رپورٹ ہونے والا مقدمہ بنا، اس کے بعد ملک بھر میں احتجاج بھی ہوئے۔
18 ملزمان پر مقدمات، سب ضمانت پر رہا، اب مقدمہ ختم کرنے کی درخواستاخلاق کے اہلِ خانہ کے وکیل کے مطابق اس کیس میں 18 افراد پر قتل، فساد اور دیگر سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اب اترپردیش کی بی جے پی حکومت نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف مقدمہ واپس لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے گائے پر کیوں بھونکا، بھارتی شہری نے کتے کو ڈنڈے مار کر ہلاک کردیا
استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ گواہوں کے بیانات میں ’تضادات‘ موجود ہیں، اس لیے کیس آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
عدالت 12 دسمبر کو اس درخواست پر فیصلہ سنائے گی۔
اس پیش رفت نے اخلاق کے اہلِ خانہ کو سخت حیران کر دیا ہے۔ اخلاق کے بھائی جان محمد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری 10سال کی جدوجہد کو یوں دفن کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
خاندان واقعے کے فوراً بعد اپنا آبائی گاؤں چھوڑ کر منتقل ہو گیا تھا اور اب بھی واپس جانے سے خوفزدہ ہے۔
واقعے کی رات: گاؤں کے مندر سے اعلان اور پھر حملہگھر والوں کے مطابق 28 ستمبر 2015 کو اخلاق اپنے بیٹے دانش کے ساتھ سو رہے تھے کہ ڈنڈوں، تلواروں اور سستے پستولوں سے لیس ہجوم نے گھر پر دھاوا بول دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اعلان گاؤں کے ایک مندر سے کیا گیا تھا کہ کسی نے گائے کو ذبح کیا ہے۔
ہجوم نے فریج سے کچھ گوشت نکالا اور اسے’ثبوت‘ قرار دیا۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ یہ بکرا کا گوشت تھا، جس کی تصدیق ایک مقامی ویٹرنری رپورٹ نے بھی کی تھی۔
تحقیقات، تنازعات اور سیاستواقعے کے بعد چند ہی دنوں میں گرفتاریاں ہوئیں، مگر چارج شیٹ جمع کرانے میں تقریباً 3 ماہ لگے۔
پہلی چارج شیٹ میں 15 ملزمان، جن میں ایک نابالغ اور مقامی بی جے پی رہنما کا بیٹا بھی شامل تھا، کے نام شامل تھے۔ بعد میں مزید 4 نام شامل کیے گئے، جن میں سے ایک ملزم 2016 میں فوت ہوگیا۔
اس دوران بعض حکومتی رہنماؤں کے بیانات پر بھی شدید تنقید ہوئی۔بعض نے واقعے کو ’حادثہ‘ کہا، تو کچھ نے گائے کا گوشت کھانے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا۔
حکومت کا مؤقف: گواہوں کے بیانات میں فرقحکومت کی حالیہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اخلاق کی بیوہ نے اپنے بیان میں 10 ملزمان کے نام لیے، بیٹی نے 16 نام بتائے، جبکہ بیٹے دانش نے 19 افراد کی نشاندہی کی۔ استغاثہ نے اسے ’تضاد‘ قرار دیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ پولیس نے جائے وقوعہ سے ڈنڈے، سریے اور اینٹیں تو برآمد کیں، لیکن وہ تلواریں یا پستول نہیں ملے جن کا ذکر گھر والوں نے کیا تھا۔
الزامی جوابی مقدمہ بھی اب تک زیرِ سماعت2016 میں اخلاق کے اہلِ خانہ پر ’گائے ذبح کرنے‘ کا الزام لگا کر ایک الگ مقدمہ بھی قائم کیا گیا تھا، جو اب تک عدالت میں زیر التوا ہے۔
خاندان نے اس الزام کو ہمیشہ سیاسی دباؤ قرار دیا ہے۔
اگرچہ خاندان اس پیش رفت سے پریشان ہے، تاہم پھر بھی انصاف کی امید برقرار ہے۔ اخلاق کے بھائی نے کہا
’میں اب بھی عدالت پر اعتماد رکھتا ہوں۔ یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن انصاف ضرور ملے گا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت گائے گوشت ہجوم کے ہاتھوں مسلمان کا قتل