بھارت میں اقلیتوں پر زمین تنگ، مودی سرکار کا سیکولر چہرہ بے نقاب ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
نئی دہلی: بھارت میں ہندو انتہاپسندی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور ہندوتوا نظریے کے پرچار کے لیے مودی سرکار نے انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر ملک میں امن، بھائی چارہ اور ہم آہنگی قائم کرنی ہے تو سب کو سناتن دھرم اپنانا ہوگا۔ ان کے اس متنازع بیان نے نہ صرف بھارتی آئین کے سیکولر تشخص پر سوال کھڑے کر دیے ہیں بلکہ مودی حکومت کے حقیقی چہرے کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ سناتن دھرم ہی سب کی حفاظت اور بھلائی کا واحد راستہ ہے اور اگر ہمیں اس دھرم کو زندہ رکھنا ہے تو سنسکرت زبان کو فروغ دینا ہوگا۔
اس متنازع بیان پر بھارت سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں نے شدید تنقید کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیان دراصل ہندوتوا کے اس ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے جو بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
واضح رہے کہ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے دوران پہلے ہی متعدد مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے، جبکہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی مقامات کو بارہا نشانہ بنایا گیا ہے۔ عیسائی برادری کے گرجا گھروں پر حملے، سکھوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات عام بات بن چکی ہے۔
مودی حکومت کے دور میں بھارت کا سیکولر آئین محض دکھاوا رہ گیا ہے۔ فاشسٹ نظریات پر مبنی بی جے پی حکومت نے مذہبی آزادی کو پامال کر کے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کو ایک ہندو قومیت کے قلعے میں بدلنے کا خطرناک منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے سیاست دان بھارتی سیاست میں نفرت، تعصب اور شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو بھارت میں مذہبی فسادات، خانہ جنگی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
عالمی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ دنیا کا نام نہاد سب سے بڑا جمہوری ملک فسطائیت کے اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: یوگی آدتیہ ناتھ بھارت میں
پڑھیں:
مودی کی بدلتی شناخت چائے والے سے راون تک
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت کی اپوزیشن نے مودی کی پوزیشن کا جنازہ نکال دیا ہے ۔سب سے زیادہ بھارت کی اپوزیشن نے مودی کو القاب سے نوازا ہے۔ اب تازہ ترین طنز کانگریس کے رہنما ادت راج کی طرف سے آیا ہے ، جنہوں نے نریندر مودی کو جدید دور کا ”راون” قرار دیا۔ یعنی مودی کا سفر چائے والے سے شروع ہوا اور اب راون تک پہنچ چکا ہے ۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
مودی کی حرکتیں تو راون والی ہی ہیں۔ بھارت کی سیاست میں طنز و القاب کی روایت پرانی ہے ، مگر نریندر مودی کے عروج کے ساتھ یہ روایت ایک نئی شدت اختیار کر گئی۔ ایک طرف ان کے پرستار انہیں "وشنو کا اوتار”اور "نئے بھارت کا معمار”کہتے ہیں، تو دوسری طرف ان کے ناقدین نے ان کے لیے ایسے طنزیہ نام گھڑ رکھے ہیں جو صرف سیاسی مخالفت نہیں بلکہ عوامی جذبات اور غصے کا عکاس ہیں۔ مودی کے ہر دور میں ان کے مخالفین نے انہیں نئے القابات دیے ، جو کبھی سوشل میڈیا کے نعرے بنے ، کبھی عوامی احتجاج کی زبان۔
مودی کے سیاسی سفر کا آغاز ایک عام "چائے والے ” کے طور پر ہوا۔ یہ لفظ ان کے ماضی کی ایک حقیقت تھا، مگر اپوزیشن نے اسے ابتدا میں طنز کے طور پر استعمال کیا۔ راہول گاندھی اور دیگر رہنماؤں کے جلسوں میں یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ ایک ”چائے والا”ملک کی قیادت کے قابل نہیں۔ مگر مودی نے نہایت چالاکی سے اسی طنز کو اپنی طاقت بنا لیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو عام بھارتی کے نمائندے کے طور پر پیش کیا اور ”میں بھی چائے والا ہوں”کا نعرہ عوامی تحریک بن گیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب ان کی پالیسیاں سرمایہ دار طبقے کے حق میں جانے لگیں، تو یہی ”چائے والا”اب طنز کا دوسرا رُخ بن گیا۔ عوام کہنے لگے کہ وہ چائے تو بیچتا تھا، مگر اب خواب بیچتا ہے ۔مودی کے خلاف سب سے سخت اور متنازع لقب ”گجرات کا قصائی”(Butcher of Gujarat)ہے ، جو 2002 کے گجرات فسادات کے بعد عالمی سطح پر ان کے نام کے ساتھ جڑ گیا۔ ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل اور بے گھر ہونے کے بعد بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پر ریاستی ناکامی بلکہ بعض اوقات چشم پوشی کے الزامات لگائے ۔ امریکی حکومت نے تو ایک وقت میں انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ لقب بھارتی سیاست میں آج بھی ان کے مخالفین کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ اگرچہ مودی خود کو اس وقت سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں، مگر دنیا کے کئی حلقے آج بھی انہیں ”گجرات کا قصائی”کہہ کر یاد کرتے ہیں، اور یہ نام ان کی سیاسی تاریخ کا ایک تاریک باب بن چکا ہے ۔جب وہ اقتدار میں آئے تو ایک نئی لغت نے جنم لیا۔ ”فیکو” (Feku)جھوٹ بولنے والا ”شیخی بگھارنے والا” یا ”بڑھکیں مارنے والا”۔ یہ نام ان کے وعدوں اور تقریروں پر طنز کے طور پر اپوزیشن نے دیا۔ یہ لفظ کانگریس کے کارکنان سے نکل کر پورے بھارت میں پھیل گیا۔ ان کے بلند و بانگ دعوے ، جن میں ”سب کا ساتھ سب کا وکاس”، ”ہر ہاتھ کو کام”، اور ”بلیک منی واپس لانے ”کے وعدے شامل تھے ، پورے نہ ہو سکے ۔ تب اپوزیشن اور عوام نے انہیں ”فیکو”کہنا شروع کیا، یعنی وہ شخص جو بڑھکیں تو مارتا ہے مگر عمل نہیں کرتا۔
راہول گاندھی نے مودی کے قیمتی لباسوں اور کاروباری طبقے سے قریبی تعلقات پر انہیں ”سوٹ بوٹ والا وزیراعظم” کہا۔ یہ اصطلاح اس وقت وجود میں آئی جب مودی نے اپنے نام سے کڑھائی کیا ہوا قیمتی سوٹ ایک سرکاری تقریب میں پہنا، جس کی نیلامی بعد میں لاکھوں روپے میں ہوئی۔ یہ طنز دراصل مودی کے اس تضاد پر تھا کہ جو شخص خود کو ”چائے والا”کہتا ہے ، وہ اب اربوں کی سرکاروں کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے ۔ اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر انہیں ”پروپیگنڈا ماسٹر”اور ”ایونٹ بابا”بھی کہا جانے لگا، کیونکہ ان کے ہر اقدام کے ساتھ کیمرے ، تشہیر اور تالیوں کا شور ضرور ہوتا ہے ۔
مودی کے ناقدین نے ان کے نظریاتی پس منظر کو بھی نشانہ بنایا۔ انہیں ”پراڈکٹ آف آر ایس ایس”کہا گیا، یعنی وہ شخصیت جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریات سے جنم لیتی ہے وہی تنظیم جس پر ہندو قوم پرستی اور اقلیت دشمنی کے الزامات ہیں۔ یہی پس منظر آگے بڑھ کر ”نفر ت کا تاجر”(Merchant of Hate)کا لقب بنا، جو انسانی حقوق کے کارکنوں اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے انہیں دیا۔ اس لقب کے ذریعے یہ باور کرایا گیا کہ مودی کی سیاست محبت نہیں، نفرت کے ایندھن پر چلتی ہے ۔گزشتہ دنوں کانگریس کے رہنما ادت راج نے نریندر مودی کو جدید دور کا ”راون”قرار دیا۔ ادت راج نے اپنے بیان میں کہا کہ مودی نے بھارت کی مینو فیکچرنگ کو کمزور کر دیا، درآمدات پر انحصار بڑھا دیا اور چین کے سامنے معیشت کو جھکا دیا ہے ۔ ان کے مطابق مودی جدید راون ہیں، جو سونے کا محل تعمیر کر رہے ہیں، مگر جس دن وہ اس میں داخل ہوں گے ، وہ خود اس کی آگ میں جل جائیں گے ۔ یہ تشبیہ محض مذہبی علامت نہیں بلکہ ایک گہرا سیاسی طنز ہے ، جو مودی کی دولت پرستی، طاقت کے غرور اور عوامی مصائب سے لاتعلقی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔یہ سب طنزیہ القابات ”چائے والا”، ”گجرات کا قصائی”، ”فیکو”، ”سوٹ بوٹ والا وزیراعظم”، ”نفر ت کا تاجر”، ”ایونٹ بابا”، اور ”راون” دراصل اس بات کی علامت ہیں کہ عوامی سطح پر مودی کی شخصیت کو کتنے مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ان کے حامی انہیں بھارت کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے مخالف انہیں ایک شاطر سیاستدان، ماہر تشہیر باز اور معاشی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
مودی کے بیانات، ان کے رویے اور ان کی سیاست نے بھارتی سماج میں ایک تضاد پیدا کر دیا ہے ۔ وہ خود کو ”چوکیدار”یعنی محافظ کہتے ہیں، مگر ان کے ناقدین انہیں ”چور”کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ غریب کا بیٹا ہیں، مگر ان کی پالیسیاں امیروں کے مفاد میں نظر آتی ہیں۔ وہ خود کو ”سب کا ساتھ” کے علمبردار کہتے ہیں، مگر ان کے دور میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ طنزیہ نام صرف الفاظ نہیں بلکہ عوامی ردِعمل کی کہانی ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ بھارت میں سیاسی اختلاف محض رائے کا فرق نہیں رہا، بلکہ جذبات، مذہب اور شناخت کا ٹکراؤ بن چکا ہے ۔ ایک طرف مودی کا برانڈ دن بہ دن مضبوط ہو رہا ہے ، تو دوسری طرف ان کے مخالفین کے طعنے بھی اسی رفتار سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کی شخصیت ایک ایسا سیاسی آئینہ بن چکی ہے جس میں ہر طبقہ اپنی سوچ کا عکس دیکھتا ہے ۔کوئی ”مسیحا”، کوئی ”قصائی”، کوئی ”راون”۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کی سیاست طنز کے شور سے نکل کر سنجیدہ احتساب کی طرف بڑھے ۔ اگر رہنما اپنے القابات کے بجائے عوام کے مسائل پر توجہ دیں، اگر میڈیا تعریفوں کے بجائے سوال اٹھائے ، اور عوام نفرت کی زبان کے بجائے دلیل کی زبان اختیار کریں، تو شاید وہ دن آئے جب کسی وزیر اعظم کو ”چائے والا”، ”فیکو”یا ”راون ”نہیں، بلکہ ”جمہوریت کا خادم ”کہا جائے ۔تبھی بھارت اپنی سیاست کے طنزیہ عہد سے نکل کر ایک بالغ جمہوریت کی طرف بڑھ سکے گا، جہاں القابات نہیں، کردار بولے گا۔
٭٭٭