صدر زیلنسکی نے یہ مطالبہ بھی کیا روس یوکرین امن مذاکرات ہمارے یورپی اتحادیوں کی شمولیت کے ساتھ ہونے چاہئیں، تاکہ کوئی فیصلہ یوکرین یا یورپ کے مفاد کے خلاف نہ ہو۔ ان خیالات کا اظہار یوکرینی صدر زیلنسکی نے اتحادی ممالک کے اجلاس سے خطاب میں کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کر دیں، جس کے تحت ابو ظہبی میں روسی حکام کے ساتھ مذاکرات کا ایک دور بھی ہوا۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بڑی پیشرفت میں امریکی صدر کے امن منصوبے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کیے گئے جنگ بندی فریم ورک کو آگے بڑھانے کیلئے تیار ہیں اور وہ اس منصوبے کے متنازع نکات کو صدر ٹرمپ کے ساتھ براہِ راست بات چیت میں طے کریں گے۔ صدر زیلنسکی نے یہ مطالبہ بھی کیا روس یوکرین امن مذاکرات ہمارے یورپی اتحادیوں کی شمولیت کے ساتھ ہونے چاہئیں، تاکہ کوئی فیصلہ یوکرین یا یورپ کے مفاد کے خلاف نہ ہو۔ ان خیالات کا اظہار یوکرینی صدر زیلنسکی نے اتحادی ممالک کے اجلاس سے خطاب میں کیا تھا۔

انھوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امن مذاکرات کے لیے فریم ورک موجود ہے اور یوکرین اسے آگے بڑھانے کیلئے بھی تیار ہے، تاہم اس میں امریکی صدر کی ذاتی شمولیت ضروری ہے۔ امریکی اور یوکرینی مذاکرات کار آئندہ امن منصوبے پر اختلافات کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم یوکرین کو خدشہ ہے کہ کہیں اسے ایسے معاہدے کیلئے مجبور نہ کیا جائے، جو زیادہ تر روسی شرائط کے مطابق ہوں۔ ادھر وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران صدر ٹرمپ نے روس یوکرین جنگ کے خاتمے پر کہا کہ ہم بہت قریب آگئے ہیں اور ہم اس عمل کو جلد مکمل کر لیں گے۔

یاد رہے کہ یوکرین کے قومی سلامتی مشیر رسٹم عمرُوف کے مطابق صدر زیلنسکی آئندہ چند روز میں امریکا کا دورہ کرکے حتمی معاہدے پر بات چیت کرسکتے ہیں، تاہم امریکا نے اس دورے کی تصدیق نہیں کی۔ البتہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ گذشتہ ہفتے کے دوران امریکا نے روس اور یوکرین کو ایک میز پر لاکر غیر معمولی پیش رفت حاصل کی ہے، تاہم چند نہایت نازک مگر قابلِ حل نکات باقی ہیں۔ ان مذاکرات کے سلسلے میں اتوار کو جنیوا میں امریکی اور یوکرینی مذاکرات کاروں کی اہم ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد امریکی آرمی سیکرٹری ڈین ڈرسکول نے پیر اور منگل کو ابوظہبی میں روسی حکام سے مذاکرات کیے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صدر زیلنسکی امن مذاکرات یوکرینی صدر زیلنسکی نے اور یوکرین کے ساتھ

پڑھیں:

ہتھیار ڈالنے کی ڈیڈ لائن

اسلام ٹائمز: یوکرین آج ایک مہلک مثلث میں گرفتار ہو چکا ہے: ٹرمپ کی جانب سے بے رحمانہ اور یکطرفہ دباو جو اپنے کل کے اتحادی کو مکمل طور پر ہتھیار پھینک دینے پر مجبور کر رہا ہے اور یورپ سے مکمل چشم پوشی کر رکھی ہے، یورپ کی سستی اور صرف مالی اور فوجی امداد تک اکتفا اور اندرونی سطح پر زیلنسکی کی کمزوری اور کرپشن کا بحران۔ اس سہ طرفہ بند گلی کا نتیجہ صرف ایک چیز ہے اور وہ بے معنی قتل و غارت کا تسلسل، انفرااسٹرکچر کی مزید تباہی اور روزانہ سینکڑوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ دوسری طرف جان لیوا سردی ان کروڑوں یوکرینی شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے جو بجلی سے محروم ہیں۔ جب تک ٹرمپ اپنی توہین آمیز ڈیڈ لائن، یورپ اپنی بے عملی اور زیلنسکی اپنی خیالی ریڈ لائنز سے پیچھے نہیں ہٹتے، امن کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ تحریر: مہدی سیف تبریزی
 
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے 21 نومبر کے دن کیف کے صدارتی محل میں تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 28 نکاتی جنگ بندی منصوبے کو "مکمل طور پر ناممکن" قرار دیا اور اسے قبول کرنے کو یوکرین کا وقار، خودمختاری اور مستقبل قربان کر دینے کے مترادف جانا۔ کچھ ہی گھنٹے بعد وائٹ ہاوس نے معمول سے ہٹ کر ایک بیانیہ جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ یوکرین کے پاس ٹرمپ کے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے کو قبول کرنے کی آخری مہلت، امریکہ کا یوم شکر گزاری (27 نومبر) ہے اور اگر اس نے اس مدت میں یہ منصوبہ قبول نہ کیا تو اس کی تمام تر فوجی، مالی، انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ ایک ہی رات میں اور ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی۔ یہ توہین آمیز ڈیڈ لائن ایسے وقت سامنے آئی ہے جب یوکرین جنگ کو چوتھا سال شروع ہو چکا ہے۔
 
اس وقت یوکرین کی صورتحال یہ ہے کہ وہ چار سال کی جنگ کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر لوڈ شیڈنگ، فوجی ہتھیاروں کی شدید کمی اور بربادی کے دہانے پر پہنچی معیشت سے روبرو ہے۔ اب وہ اپنی تاریخ کے مہلک ترین دو راہے پر کھڑا ہے: یا تو اسے امریکہ کا پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ قبول کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں وہ اپنی سرزمین، فوج اور سلامتی سے محروم ہو جائے گا اور یا امریکہ کی حمایت مکمل طور پر گنوا دینے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ وہ منصوبہ جسے ڈونلڈ ٹرمپ بہت فخر سے "جیت جیت راہ حل" قرار دے رہا ہے درحقیقت یوکرین کی جانب سے یکطرفہ طور پر ہتھیار پھینک دینے کی دستاویز ہے اور مکمل طور پر اس کے نقصان میں ہے۔ اس منصوبے کے اہم نکات یہ ہیں: جزیرہ کریمہ اور مقبوضہ علاقے مستقل طور پر روس کے حوالے کر دینا، یوکرین فوج کو پچاس فیصد چھوٹا کر دینا، نیٹو میں رکنیت کی مستقل ممانعت، یوکرین پر مستقل نظارت۔
 
یورپ اور زیلنسکی، فراوان نعرے اور عمل نہ ہونے کے برابر
وائٹ ہاوس کی جانب سے یوکرین کے لیے سرینڈر کر جانے کی ڈیڈ لائن اعلان ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد سفارتی کالیں شروع ہو گئیں۔ فردریش مرٹز، ایمونوئیل میکرون، کیر اسٹارمر، اورزولا فنڈر لائن اور کایا کالاس، سب نے یکزبان ہو کر امریکی منصوبے کو "ناقابل قبول" اور "یورپ کی سلامتی کے لیے نقصان دہ" نیز "جارح طاقت کو انعام دینے کے مترادف" قرار دے دیا۔ اسی طرح انہوں نے زیلنسکی سے غیر متزلزل حمایت کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن ان پرجوش نعروں کے پیچھے کوئی واضح روڈمیپ نہیں پایا جاتا۔ یورپ سالانہ 100 ارب یورو سے زیادہ یوکرین کی مدد کر رہا ہے جس کا زیادہ تر حصہ اسلحہ خریدنے، فوجیوں کی تنخواہیں دینے اور یوکرین کے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ لیکن اب تک جنگ میں فتح سے متعلق کوئی واضح منظرنامہ نہیں پایا جاتا۔
 
مرٹس نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ ڈیڈ لائن آگے بڑھا دے، ایمونوئیل میکرون نے "ایک چپہ سرزمین دیے بغیر امن" پر زور دیا اور فنڈر لائن نے اپنا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ "یوکرین کے بغیر یوکرین سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا"۔ لیکن یہ تمام بیانات ایک راہ حل کی بجائے وقت خریدنے اور اتحاد کی فیس سیونگ کی کوشش ہے۔ عمل کے میدان میں یورپ اب بھی حتی امریکہ کے ساتھ بند کمرے میں ایک نشست بھی منعقد نہیں کر پا ہے چہ جائیکہ ایک مکتوب اور قابل دفاع پیشکش کے ذریعے ٹرمپ کو ڈیڈ لائن موخر کرنے پر مجبور کر سکے۔ کیف میں بھی زیلنسکی نے اسی ہمیشگی لہجے میں ہر قسم کی مفاہمت قبول کرنے کو "قتل ہونے والوں کے خون سے غداری" قرار دیتے ہوئے کہا: "ہم اپنی نسلوں کو بیرونی دباو کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتے۔"
 
کرپشن، واشنگٹن کا دباو اور اعتماد کا فقدن
ٹرمپ کی جانب سے ڈیڈ لائن کے اعلان کے ساتھ ہی زیلنسکی کے قریبی حلقوں کی کرپشن کے اسکینڈل بھی منظرعام پر آئے ہیں۔ انرجی اور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے منصوبوں میں 100 ملین ڈالر کی کرپشن، زینلسکی کے پرانے شریک تیمور میندیچ کا اپنے اہلخانہ سمیت ملک سے فرار ہو جانا، وزیر انرجی اور وزیر انصاف کے اچانک استعفے، سرکاری عہدیداروں کے گھروں میں بڑے پیمانے پر نقد پیسوں کی برآمد اور حتی مغربی مالی امداد سے دوبئی اور لندن میں انتہائی مہنگی پراپرٹی خریدے جانے کی رپورٹس نے حکومت پر عوام کا اعتماد چکناچور کر ڈالا ہے۔ اسٹیو ویٹکوف، امریکی ایلچی نے فاکس نیوز پر کہا کہ ہم امریکہ کے ٹیکس دہندگان کا پیشہ زیلنسکی کی گینگ کو مزید نہیں دے سکتے۔ یوکرین کی پارلیمنٹ میں 2022ء کے بعد پہلی بار صدر کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے۔
 
سہ طرفہ بند گلی اور حقیقی قربانی
یوکرین آج ایک مہلک مثلث میں گرفتار ہو چکا ہے: ٹرمپ کی جانب سے بے رحمانہ اور یکطرفہ دباو جو اپنے کل کے اتحادی کو مکمل طور پر ہتھیار پھینک دینے پر مجبور کر رہا ہے اور یورپ سے مکمل چشم پوشی کر رکھی ہے، یورپ کی سستی اور صرف مالی اور فوجی امداد تک اکتفا اور اندرونی سطح پر زیلنسکی کی کمزوری اور کرپشن کا بحران۔ اس سہ طرفہ بند گلی کا نتیجہ صرف ایک چیز ہے اور وہ بے معنی قتل و غارت کا تسلسل، انفرااسٹرکچر کی مزید تباہی اور روزانہ سینکڑوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ دوسری طرف جان لیوا سردی ان کروڑوں یوکرینی شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے جو بجلی سے محروم ہیں۔ جب تک ٹرمپ اپنی توہین آمیز ڈیڈ لائن، یورپ اپنی بے عملی اور زیلنسکی اپنی خیالی ریڈ لائنز سے پیچھے نہیں ہٹتے، امن کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

متعلقہ مضامین

  • روس یوکرین جنگ بندی مذاکرات کے دوران خونریز حملے، 9 افراد ہلاک
  • جنیوا میں امریکا‘ یوکرین وفود کے درمیان ملاقات نتیجہ خیز قرار
  • جنیوا: امریکا یوکرین وفود کے درمیان ملاقات نتیجہ خیز قرار
  • جنیوا میں امریکا، یوکرین وفود کے درمیان ملاقات نتیجہ خیز قرار    
  • امریکا اور یوکرین کے مابین سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات، بامعنی پیش رفت قرار
  • یوکرینی سرحدوں کی جبری تبدیلی منظور نہیں‘یورپ کا ٹرمپ کو جواب
  • ہتھیار ڈالنے کی ڈیڈ لائن
  • امریکا اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی فارمولے پر پیش رفت