data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-03-7
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کراچی کے شہری گزشتہ کئی سال سے مسائل کا شکار ہیں۔ کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح مسائل میں بھی جبکہ مالی وسائل کا منصفانہ استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر چلنا اب صرف ایک آزمائش نہیں بلکہ خوف کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں سندھ حکومت نے موٹر وہیکل آرڈیننس میں ترمیم کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں میں جو ہوش رْبا اضافہ کیا ہے، اْس نے شہریوں کو شدید اضطراب، غم و غصے اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، ناقص سڑکوں اور ناقابل ِ برداشت پٹرول قیمتوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ عوام، کاروباری طبقہ، صنعت کار اور تاجر پہلے ہی بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، بھاری بھرکم ٹیکسوں، پانی کی عدم دستیابی، گیس کی لوڈشیڈنگ، شہری جرائم میں اضافہ اور عدم تحفظ جیسے سنگین مسائل کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اب ایک نئی مشکل کا سامنا ہے۔

تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ

شہری حلقے سوال اْٹھا رہے ہیں کہ آخر حکومت کا مقصد عوامی نظم و ضبط قائم کرنا ہے یا خزانے کی کمی پوری کرنا؟ اگر اصلاحِ احوال مقصود ہوتی تو پہلے عوامی آگاہی مہمات چلائی جاتیں، روڈ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنایا جاتا، اشاروں اور لین مارکنگ کو درست کیا جاتا، اور اس کے بعد مرحلہ وار اصلاحی جرمانے متعارف کرائے جاتے۔ لیکن یہاں تو معاملہ اْلٹا ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، ٹریفک نظام ناقص ہے، جگہ جگہ اشارے غائب ہیں، پارکنگ کا وجود نہیں، مگر جرمانے یوں بڑھا دیے گئے ہیں جیسے عوام کی جیبیں ڈالرز سے بھری ہوں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی موٹر سائیکل سوار سے معمولی خلاف ورزی سرزد ہو جائے تو جرمانہ اْس کی بائیک کی آدھی قیمت سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ شہری بجا طور پر کہتے ہیں کہ ’’اب موٹر سائیکل بک جائے گی مگر ایک جرمانہ بھی پورا نہ ہوگا‘‘۔ فوڈ پانڈا، بائیکیا، ان ڈرائیو اور یانگو جیسے سروس پلیٹ فارمز کے رائیڈرز جو روزانہ چند سو روپے کما کر گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں، اْن کے لیے ہزاروں روپے کے جرمانے کسی عذاب سے کم نہیں۔ اْن کی موٹر سائیکلوں کی قیمت اتنی نہیں جتنا جرمانہ کیا جا رہا ہے۔ صرف سگنل توڑنے پر ان پر ایسا مالی بوجھ ڈالا جا رہا ہے جو اْن کی کئی دنوں کی محنت سے بھی پورا نہیں ہو سکتا۔

حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ سخت جرمانوں سے ٹریفک ڈسپلن بہتر ہو گا، حادثات میں کمی آئے گی، اور قانون کی پاسداری بڑھے گی۔ بظاہر یہ موقف درست محسوس ہوتا ہے، لیکن عملی حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ٹریفک نظم و ضبط کا مسئلہ صرف عوامی نافرمانی نہیں بلکہ نظامی بدانتظامی کا بھی ہے۔ ٹریفک اہلکاروں کی رشوت خوری، قوانین کی غیر منصفانہ عملداری، اور سیاسی دباؤ کے تحت کی جانے والی نرمی یا سختی نے پورے نظام کو مذاق بنا دیا ہے۔ اگر پولیس خود قانون پر عمل نہیں کرے گی، تو عوام سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ جرمانوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ صرف متوسط یا غریب طبقے پر پڑے گا۔ امیر طبقہ جو بڑی گاڑیاں چلاتا ہے، ان کے لیے چند ہزار روپے کا جرمانہ محض جیب خرچ کے برابر ہے، مگر وہی رقم ایک ڈیلیوری بوائے کے لیے تباہی ہے۔ اس عدم توازن نے معاشرتی تقسیم کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ غریب اور متوسط شہری اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بجائے اب ہر وقت اس خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی چالان اْن کے محدود بجٹ کو تباہ نہ کر دے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا سندھ حکومت نے کبھی سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا اْن گڑھوں کو بھرا گیا جن میں موٹر سائیکل سوار روز گرتے اور زخمی ہوتے ہیں؟ کیا ناقص ٹریفک سگنل، اندھیرے میں ڈوبے انڈر پاس، اور غیر قانونی پارکنگ مافیا کا خاتمہ کیا گیا؟ اگر نہیں، تو پھر شہریوں کو صرف سزا دینے سے اصلاح کیسے ممکن ہے؟

پاکستان کے دیگر صوبوں اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے دو بنیادی حکمت ِ عملیاں اپنائی جاتی ہیں: پہلے مرحلے میں عوامی آگاہی اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری، اور دوسرے مرحلے میں تدریجی سزا کا نفاذ۔ برطانیہ، جرمنی، ملائیشیا، حتیٰ کہ بنگلادیش تک میں ٹریفک جرمانوں کا نظام عوام کی آمدنی کے تناسب سے متعین کیا جاتا ہے تاکہ انصاف کا توازن برقرار رہے۔ مگر سندھ میں نہ عوامی مشاورت ہوئی، نہ کوئی مرحلہ وار منصوبہ بندی بس ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ہزاروں شہری ایک ہی دن میں مجرم قرار دے دیے گئے۔ اس پالیسی کے معاشی اثرات بھی خطرناک ہیں۔ اندازہ لگایا جائے تو کراچی جیسے شہر میں روزانہ لاکھوں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں سڑکوں پر نکلتی ہیں۔ اگر اْن میں سے چند فی صد بھی جرمانے کی زد میں آئیں، تو عوام کی جیب سے روزانہ کروڑوں روپے حکومت کے خزانے میں منتقل ہوں گے۔ یہ ایک طرح کا بالواسطہ ٹیکس ہے جو بغیر کسی قانون سازی کے عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس اقدام کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ شہری کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ جرمانے نہیں، عوامی جیب پر ڈاکا ہیں‘‘۔ کچھ حلقے طنزیہ طور پر اسے ’’سندھی اجرک پلیٹ‘‘ مہم کا تسلسل قرار دے رہے ہیں کہ پہلے پلیٹ کے نام پر فیس لی گئی، اب جرمانوں کے ذریعے کمزور طبقے کی کمر توڑی جا رہی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے فیصلے کرنے سے پہلے عوامی نمائندوں، ٹریفک ماہرین اور شہری تنظیموں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ قانون تب ہی مؤثر ہوتا ہے جب اسے عوامی اعتماد حاصل ہو، ورنہ وہ محض کاغذی ضابطہ رہ جاتا ہے۔ اسی طرح شہری تنظیموں اور ٹرانسپورٹ یونینز کا کہنا ہے کہ حکومت نے نہ کسی مکینیکل ورکشاپ، نہ کسی رائیڈر ایسوسی ایشن سے مشورہ کیا، اور نہ ہی اس بات پر غور کیا کہ ایسے بھاری جرمانے معیشت کے کمزور طبقے کو کیسے متاثر کریں گے۔ اگر قانون سازی میں اسٹیک ہولڈرز کو شامل ہی نہ کیا جائے تو وہ عوامی مفاد میں کیسے ہو سکتی ہے؟

اب وقت ہے کہ سندھ حکومت اس فیصلے پر نظر ِ ثانی کرے۔ ضروری ہے کہ جرمانوں کی شرح کو عوامی قوتِ برداشت کے مطابق متوازن کیا جائے، ٹریفک پولیس کی تربیت بہتر بنائی جائے، اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کو درست کیا جائے۔ ڈیجیٹل چالان سسٹم، شفاف نگرانی، رشوت کے خاتمے اور شہری آگاہی کے پروگرام وہ اقدامات ہیں جن سے حقیقی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے۔ عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ شہریوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹریفک قانون کی پابندی دراصل اْن کی اپنی حفاظت کے لیے ہے، مگر ساتھ ہی حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کا معاشی گلا گھونٹ کر نظم و ضبط پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

آخر میں لازم ہے کہ حکومت سندھ جرمانوں کی شرح کم کرے، عوامی آگاہی مہم فوری طور پر شروع کرے، ٹریفک پولیس کو جوابدہ بنائے، رشوت کے نظام کو جڑ سے ختم کرے، وارننگ سسٹم متعارف کرائے، اور سب سے بڑھ کر ٹریفک نظام کو شفاف اور منصفانہ بنائے۔ قانون کا احترام تب ہی ممکن ہے جب قانون عوام کے لیے ہو، اْن کے خلاف نہیں۔ کیونکہ اگر قانون کا مقصد سہولت کے بجائے اذیت بن جائے، تو پھر وہ قانون نہیں، جبر کہلاتا ہے۔ کراچی کے شہریوں سے اپیل ہے کہ قانون کی پاسداری کریں۔

 

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سندھ حکومت عوام کی عوامی ا ہیں کہ ا گاہی کے لیے کیا جا رہا ہے

پڑھیں:

کراچی میں ای چالان کے بعد روبوٹ کار ٹریفک کا انتظام سنبھالنے کے لے میدان میں آگئیں

کراچی پولیس نے ای چالان سسٹم کے بعد شہر کے مصروف تجارتی علاقوں میں غیر قانونی پارکنگ کے خلاف کارروائی کے لیے ‘روبوٹ کاریں’ متعارف کر دی ہیں، جو خودکار کیمروں کی مدد سے سائٹ پر موجود گاڑیوں کی اسکیننگ کریں گی اور فوری طور پر جرمانے جاری کریں گی۔

ٹریفک ایڈمن کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کاشف ندیم نے میڈیا کو بتایا کہ محکمے نے اس نئے نظام کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ روبوٹ کاریں صدر اور طارق روڈ کے بازاروں میں پیٹرولنگ کا آغاز کریں گی۔

یہ بھی پڑھیے: کراچی: فائیو اسٹار ہوٹل کو 28 سال قبل چوری شدہ گاڑی پر ای چالان موصول

یہ خصوصی گاڑیاں تقریباً 20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل سڑکوں کو اسکین کریں گی اور جہاں بھی گاڑیاں یا موٹر سائیکلیں ڈبل پارکنگ یا نو پارکنگ زونز میں کھڑی پائی گئیں، وہاں فوراً ای ٹکٹ جاری کر دیا جائے گا۔

ڈی ایس پی کاشف ندیم کے مطابق کراچی ٹریفک پولیس اس سے قبل بھی سیف سٹی کیمروں کے ذریعے نو پارکنگ کے چالان جاری کر رہی تھی۔ اس وقت نو پارکنگ کی خلاف ورزی پر کار کے لیے 10 ہزار روپے اور موٹر سائیکل کے لیے 2 ہزار روپے جرمانہ مقرر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئے نظام میں ڈرائیور کے ذریعے چلنے والی یہ روبوٹ کیمرہ کاریں خود ہی غیر قانونی پارک شدہ گاڑیوں کی شناخت کریں گی اور اگلے مرحلے میں بغیر کسی پولیس اہلکار کی مداخلت کے مکمل خودکار ای ٹکٹنگ انجام دیں گی۔

یہ بھی پڑھیے: کراچی میں ای چالان سے بچنے کے لیے نمبر پلیٹ چھپانے والوں کے لیے بُری خبر، پولیس نے اہم اعلان کردیا

دوسری جانب ای چالان سسٹم کے تحت ٹریفک ریگولیشن اینڈ سٹیشن سسٹم (TRACS) کا آغاز 27 اکتوبر کو کیا گیا تھا، جس کے ذریعے پرانے دستی چالان سسٹم کی جگہ اے آئی سے لیس سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے اوورسپیڈنگ، سرخ بتی توڑنے اور ہیلمٹ نہ پہننے جیسی خلاف ورزیوں کی خودکار نشاندہی کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ای چالان ٹریفک روبوٹ کارز

متعلقہ مضامین

  • بچوں کے حقوق پر مؤثر قانون سازی کی ہے لیکن عملدرآمد پر مسائل ہیں: مراد علی شاہ
  • ای چالان کراچی والوں کیلئے ، جرمانے کم نہیں ہوں گے، ناصر شاہ کا اعلان
  • کراچی میں ای چالان کے بعد روبوٹ کار ٹریفک کا انتظام سنبھالنے کے لے میدان میں آگئیں
  • کیا ایم کیو ایم مشرف دور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہو گئی ہے؟
  • کچے کے علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشنز کو تیز کر دیا ،کھدیو ہمنانی
  • ای چالان صرف کراچی والوں کیلئے ہے، جرمانے کم نہیں کیے جائینگے، وزیر بلدیات سندھ
  • ای چالان صرف کراچی والوں کیلئے ہے، جرمانے کم نہیں کیے جائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • سندھ حکومت کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی پشت پناہی کر رہی ہے، علامہ حیات عباس نجفی
  • ایم کیوایم کا کراچی کے مسائل پر عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان
  • پیپلز پارٹی صرف سیاسی جماعت نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد کی تحریک ہے، وقار مہدی