گنڈاپور کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ اس پر جواب نہ دوں تو ہی بہتر ہے، اسد قیصر کا صحافی کو جواب
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ بنانا بھی عمران خان کا فیصلہ تھا اور انہیں ہٹانے کا فیصلہ بھی بانی چیئرمین نے خود کیا۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی ایک مڈل کلاس پس منظر رکھنے والے متحرک نوجوان ہیں جنہوں نے انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔
’یہ ایک نئی شروعات ہے، ہم ان سے اچھی اُمید رکھتے ہیں۔ پارٹی عہدے آتے جاتے رہتے ہیں، اصل چیز مقصد ہوتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں:
اس سوال پر کہ نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نوجوان ہونے کے ناطے کیا بہتر کارکردگی دکھاسکیں گے، اسد قیصر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ سہیل آفریدی صحیح معنوں میں عمران خان کے ویژن پر عملدرآمد کریں گے۔
’ان کے پاس صوبائی وزارت بھی رہی ہے اور انہیں سب کی حمایت حاصل ہوگی۔‘
علی امین گنڈاپور کے ہٹائے جانے کی وجہ کیا رہی؟ اسد قیصر نے ایک مرتبہ پھر براہ راست کوئی جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ابھی تک عمران خان سے کوئی ذاتی ملاقات جیل میں نہیں ہوئی ہے لہذا وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔
مزید پڑھیں:
حکمراں اتحاد میں اختلافات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ اسے نورا کشتی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مابین اختلافات کی نوعیت اصلی ہوتی تو وہ تحریک عدم اعتماد کی طرف جاتے۔
’ہم نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ اگر آپ سنجیدہ ہیں تو تحریک عدم اعتماد پیش کریں ہم آپ کا ساتھ دیں گے، لیکن کل سب نے دیکھ لیا کس طرح مک مکا ہوا ہے۔۔۔یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔‘
عمران خان کی اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقلی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت ایسے کسی غیرقانونی اور غیر آئینی اقدام کی مخالفت کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسد قیصر خیبرپختونخوا سہیل آفریدی علی امین گنڈاپور عمران خان وزیر اعلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا سہیل ا فریدی علی امین گنڈاپور وزیر اعلی
پڑھیں:
ایرانی نیوز ایجنسی کی صحافی پر 110 دن تک اسرائیلی فوجیوں کا تشدد اور قید کی اذیتیں
فرح ابو عیاش کی جانب سے جیل کے اندر سے بھیجی گئی دردناک تفصیلات اور صہیونی جیلروں کے مظالم کی وضاحت منظر عام پر آئی ہے، اور وکیل سے دوبارہ مشاورت کے بعد، تسنیم نیوز ایجنسی نے اس خبر کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ تسنیم نیوز کی صحافی فرح ابو عیاش نے جیل سے باہر آنے کے بعد بتایا ہے کہ گزشتہ 110 دن کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے انہین شدید تشدد، اذیت اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔ تسنیم کے غیرملکی دفاتر کے مطابق فلسطین کے شہر الخلیل (جنوبی غرب اردن) میں تسنیم کی رپورٹر فرح ابو عیاش کو 6 اگست 2025 کی رات کو اسرائیلی فوج کے اچانک چھاپے میں بیت امر نامی گاؤں (شمالی الخلیل) سے گرفتار کر کے لے گئے۔ انہیں گرفتاری کے بعد مسکوبیہ جیل (شمالی مقبوضہ بیت المقدس) منتقل کیا گیا، جہاں انہیں مختلف طرح کے تشدد، ہتک آمیز سلوک اور جسمانی و ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔
تسنیم نیوز ایجنسی بنیادی طور پر اس گرفتاری پر فوری ردعمل دینا چاہتی تھی، لیکن کچھ صحافیوں کے مشورے، خود فرح ابو عیاش کے وکیل کی ہدایات، اور خود ان کی نجی درخواست کو مدِنظر رکھتے ہوئے خبر کو روک دیا گیا، تاکہ عدالتی کارروائی متاثر نہ ہو اور ان کے اہل خانہ کو اسرائیلی فورسز کی طرف سے کسی ممکنہ انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اب جب فرح ابو عیاش کی جانب سے جیل کے اندر سے بھیجی گئی دردناک تفصیلات اور صہیونی جیلروں کے مظالم کی وضاحت منظر عام پر آئی ہے، اور وکیل سے دوبارہ مشاورت کے بعد، تسنیم نیوز ایجنسی نے اس خبر کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اسرائیلی فوج کے غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک سے آگاہ کیا جائے اور اس کے سنگین نتائج سے خبردار کیا جا سکے۔ میڈیا ذمہ داری کے باوجود وحشیانہ سلوک اور فرح ابو عیاش کو مہینوں تک قید اور پھر وحشیانہ تشدد کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب کہ وہ بطور صحافی صرف فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کو اجاگر کرتی تھیں، غرب اردن کے حالات بیان کرتی تھیں اور غزہ کے بے گناہ شہریوں کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کرتی تھیں، یہ ان کا پیشہ ورانہ فریضہ تھا، اور اسرائیلی دعوؤں کے برخلاف، ان کے خلاف کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں جو انہیں صحافتی ذمہ داری سے بڑھ کر کسی سرگرمی میں ملوث ثابت کرے۔