امریکا کا غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے 200 اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
واشنگٹن: امریکا نے غزہ میں حالیہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے تقریباً 200 فوجی اہلکاروں کو اسرائیل بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اہلکار بین الاقوامی مشترکہ ٹیم کا حصہ ہوں گے جس میں اس معاہدے کے شراکت دار ممالک، این جی اوز اور نجی شعبے کے افراد بھی شامل ہوں گے۔
خبر ایجنسی اے پی کے مطابق سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ امریکا کی نگرانی میں دو سو اہلکاروں پر مشتمل ایک بین الاقوامی فورس غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کرے گی۔
اس فورس میں مصر، قطر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے فوجی اہلکار شامل ہوں گے۔ مشترکہ فورس کے بنیادی فرائض میں جنگ بندی معاہدے پرعمل درآمد یقینی بنانا، کسی ممکنہ خلاف ورزی یا دراندازی کی نگرانی کرنا شامل ہوگا۔ تاہم اس مشترکہ فورس کو کس مقام پر تعینات کیا جائے گا، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
کوآرڈی نیشن سینٹر کا قیام:
امریکی حکام کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کی نگرانی میں اسرائیل میں ”سول-ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر“ قائم کیا جائے گا جو نہ صرف انسانی امداد کی ترسیل بلکہ سیکیورٹی اور لاجسٹکس میں بھی معاونت کرے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ ”یہ اہلکار ٹرانسپورٹ، منصوبہ بندی، سیکیورٹی، انجینئرنگ اور لاجسٹکس کے ماہر ہوں گے، لیکن کسی بھی امریکی فوجی کو غزہ کے اندر تعینات نہیں کیا جائے گا۔“
دیگر ممالک کی شمولیت
امریکی حکام کے مطابق اس مشترکہ فورس میں مصر، قطر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کی افواج کے اہلکار بھی شامل ہوں گے جو اِن امریکی اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ یہ فورس اسرائیلی افواج کے ساتھ کام کرے گی اور جنگ بندی کے نفاذ کے عمل کو بھی مانیٹر کرے گی۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق، اسرائیل غزہ سے جزوی طور پر فوجی انخلا کرے گا اور حماس ان اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی جنہیں اکتوبر میں شروع ہونے والی تازہ جنگ کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل متعدد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی نگرانی کے مطابق ہوں گے کرے گی
پڑھیں:
امریکا کا نیا اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ، پینٹاگون اس ہفتے کمپنی کا انتخاب کرے گا
کئی ماہ کی تاخیر کے بعد امریکی محکمہ دفاع یعنی پینٹاگون اس ہفتے یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ امریکی بحریہ کے اگلے اسٹیلتھ لڑاکا طیارے کی تیاری اور ڈیزائن کے لیے کس دفاعی کمپنی کا انتخاب کیا جائے گا۔
یہ ایک اربوں ڈالر مالیت کا منصوبہ ہے، جو چین کے بڑھتے ہوئے دفاعی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے میں امریکا کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے لیے بوئنگ کمپنی اور نارتھروپ گرومن کارپوریشن کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع پر دوسری بار یمن حملوں سے متعلق خفیہ معلومات سگنل پر شیئر کرنے کا الزام
یہ طیارہ، جسے F/A-XX کا نام دیا گیا ہے، امریکی بحریہ کے موجودہ F/A-18E/F سپر ہارنیٹ بیڑے کی جگہ لے گا جو 1990 کی دہائی سے سروس میں ہیں۔
???????? After months of delays, the Pentagon is set to select a defense company this week to design and build the Navy's next-generation stealth fighter, the project critical to countering China.
Boeing [right] and Northrop Grumman [left] are competing to develop the carrier-based… pic.twitter.com/g65b1TwiAw
— Vanguard Intel Group ???? (@vanguardintel) October 7, 2025
ذرائع کے مطابق امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیَتھ نے جمعے کے روز اس منصوبے کے فیصلے کی منظوری دی ہے۔
توقع ہے کہ بحریہ اس ہفتے کے دوران F/A-XX تیار کرنے والی کمپنی کا اعلان کر دے گی، تاہم ذرائع کے مطابق بعض تکنیکی یا انتظامی رکاوٹیں ایک بار پھر فیصلے میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پینٹاگون کے سربراہ نے افغانستان سے امریکی انخلا پر نظرثانی کا حکم دے دیا
پینٹاگون اور امریکی بحریہ نے اس بارے میں کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔
ماہرین کے مطابق F/A-XX منصوبے میں تاخیر نے بحری فضائیہ کے مستقبل اور طیارہ بردار بحری جہازوں کے کردار کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
اگر اس منصوبے میں مزید تاخیر ہوئی تو بحریہ کے پاس 2030 کی دہائی کے بعد ایسے جدید لڑاکا طیارے دستیاب نہیں ہوں گے جو سمندر میں آپریشن کے قابل ہوں، جس سے امریکی بحریہ کی عالمی طاقت کے مظاہرے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
نیا F/A-XX طیارہ جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، طویل پرواز کی صلاحیت، بہتر ہتھیار نظام اور بغیر پائلٹ لڑاکا طیاروں کے ساتھ مربوط انداز میں کام کرنے کی استعداد رکھے گا۔
مزید پڑھیں: ایران حملے کی رپورٹ پر تنازع: پینٹاگون انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ برطرف
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، چین چھٹی نسل کے طیاروں کے پروٹوٹائپ پر تیزی سے کام کر رہا ہے، اس لیے یہ فیصلہ امریکا کے لیے رفتار برقرار رکھنے کے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔
منصوبہ اس وقت تاخیر کا شکار ہوا جب پینٹاگون اور امریکی کانگریس کے درمیان فنڈنگ پر اختلافات پیدا ہوئے۔
پینٹاگون نے صرف 74 ملین ڈالر کے محدود فنڈ کی تجویز دی تھی، جبکہ بعض حکام پروگرام کو 3 سال تک مؤخر کرنے کے حامی تھے۔
تاہم کانگریس نے منصوبے کو تیز کرنے کے لیے 750 ملین ڈالر کی منظوری دی اور مالی سال 2026 کے لیے مزید 1.4 ارب ڈالر مختص کیے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے قطر کا 400 ملین ڈالر کا لگژری جیٹ تحفہ قبول کرلیا، نیا ایئر فورس ون بنے گا
رپورٹس کے مطابق دفاعی حکام کے درمیان یہ بھی بحث جاری رہی کہ آیا بوئنگ اور نارتھروپ دونوں اپنی موجودہ مصروفیات کے ساتھ نیا طیارہ وقت پر تیار کر سکیں گے یا نہیں۔
بوئنگ پہلے ہی امریکی فضائیہ کے F-47 طیارے کی تیاری میں مصروف ہے، جبکہ نارتھروپ گرومن کو سینٹینیل بین البراعظمی میزائل پروگرام کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا ہے۔
اگرچہ F/A-XX پروگرام کی مقدار، مالیاتی حجم اور ٹائم لائن خفیہ رکھی گئی ہے، لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ماضی کے F-35 پروگرام کی طرح دسیوں ارب ڈالر پر محیط ہو سکتا ہے۔
امریکی بحریہ اب بھی اپنے بیڑے کے لیے 270 سے زائد لاک ہیڈ مارٹن F-35C طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم رواں سال کے اوائل میں لاک ہیڈ مارٹن کو F/A-XX مقابلے سے باہر کر دیا گیا۔
پہلے F/A-XX طیارے 2030 کی دہائی میں سروس میں شامل کیے جانے کی توقع ہے، جبکہ موجودہ F/A-18 سپر ہارنیٹس کو 2040 تک استعمال میں رکھا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیلتھ لڑاکا طیارے بحری فضائیہ پیٹ ہیگسیتھ پینٹاگون ڈیزائن کانگریس لاک ہیڈ مارٹن محکمہ دفاع