سیاسی حالات بہتر نہ ہوئے تو ملکی حالات مزید خراب ہوں گے، راجہ اظہر
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ بیرونی دشمن طاقتیں ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ہمیں کمزور کر رہی ہیں، فیصلہ سازوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، ملک کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا، عمران خان کو رہا کرنا ہوگا اور عوام کو ان کا چوری شدہ مینڈیٹ واپس دینا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریکِ انصاف کراچی ڈویزن کے صدر اور سابق رکن سندھ اسمبلی راجہ اظہر نے انصاف ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے مینڈیٹ چوری کرنے کے بعد غیر منتخب افراد کو ان پر مسلط کر دیا گیا ہے، جس کے باعث حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں، اگر سیاسی حالات بہتر نہ ہوئے تو ملکی حالات بھی مزید خراب ہوں گے۔ راجہ اظہر نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو کمزور کر دیا گیا ہے، آئین اور قانون کی بالادستی ختم کر دی گئی ہے، جبکہ پیکا ایکٹ کے ذریعے میڈیا کی آزادی سلب کر لی گئی، جس کے نتیجے میں عوام کا حکومت پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف، آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر ملک درست سمت میں نہیں چل سکتا، مہنگائی میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے، 30 سے زائد غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں، آٹا، گھی، دال، چاول، پٹرول، بجلی، گیس سمیت روزمرہ کی اشیا عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، مہنگائی میں اضافے کے باعث ملک کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے جا چکی ہے۔
راجہ اظہر نے مزید کہا کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے، ہمارے ملک میں تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر قیمتی معدنیات قدرتی طور پر موجود ہیں، ہمارے پاس زرخیز زمینیں، سمندر، دریا اور پہاڑ ہیں، اس کے باوجود ہم کئی دہائیوں سے ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ راجہ اظہر نے کہا کہ عام انتخابات میں قوم کا مینڈیٹ چوری کیا گیا، اگر عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو ملک میں کسی بڑے سانحے کا اندیشہ ہے، یہ وقت عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرنے کا ہے، نہ کہ قوم کے عظیم لیڈر عمران خان کو پابندِ سلاسل رکھنے یا تحریکِ انصاف کو دیوار سے لگانے کا۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی دشمن طاقتیں ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ہمیں کمزور کر رہی ہیں، فیصلہ سازوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، ملک کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا، عمران خان کو رہا کرنا ہوگا اور عوام کو ان کا چوری شدہ مینڈیٹ واپس دینا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کرنا ہوگا نے کہا کہ ہوں گے
پڑھیں:
اسلام میں برداشت کا تصور؛ پاکستان، افغانستان اور سوڈان کے حالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-7
دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے 16 نومبر 1995 سے ’’عالمی یوم برداشت‘‘ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اصل میں جس کا مقصد ملکوں کے درمیان ثقافتی رواداری اور برداشت ہے، لیکن آج کل جو دنیا میں ہورہا ہے وہ یہ کہ اب بات ثقافت سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، اب تو ملکوں کو آپس میں ایک دوسرے کا وجود ہی برداشت نہیں ہورہا اور اگر ان کا بس چلے تو ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں۔ رواں سال کے پانچویں مہینے میں پاکستان نے ایک مکروہ پڑوسی کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا کر اس کے دانت کھٹے کردیے۔ آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت برداشت کی ہے۔ قرآن مجید نے رحمت اللعالمین سیدنا محمدؐ کے بارے فرمایا: ترجمہ؛ ’’یہ اللہ کی رحمت ہی تھی کہ تم ان کے لیے نرم دل ہو گئے، اور اگر تم سخت مزاج اور تندخو ہوتے تو وہ تمہارے گرد سے بکھر جاتے‘‘۔ (آل عمران: 159) یہ آیت بتاتی ہے کہ قیادت اور قوموں کے درمیان تعلق نرمی، برداشت، اور مکالمے سے مضبوط ہوتے ہیں، نہ کہ سختی اور الزام تراشی سے۔
اب آتے ہیں پاکستان اور افغانستان کی جانب۔ آج جب ہم پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دیکھتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو یہی سبق اپنانا چاہیے۔ الزام تراشی اور غصہ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بات چیت، صبر اور تحمل ہی امن کی کنجی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ: ’’اصل طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو گرا دے، بلکہ وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘۔ اگر دونوں ممالک برداشت اور نرمی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دشمنی دوستی میں، اور نفرت امن میں بدل سکتی ہے۔ اسی کا نام ہے اسلامی برداشت ہے جو انسانوں کو قریب لاتی ہے، اور ملکوں کو مضبوط بناتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان نے ماضی میں طے پائے ایک عبوری جھڑپ ختم کرنے والے معاہدے کے بعد، حالیہ مہینوں میں سرحد پر شدید جھڑپیں کی ہیں، جن میں فوجی اور عام شہری دونوں ہلاک ہوئے۔ 19 اکتوبر 2025 کو دوحا میں ثالثی کے تحت ایک عارضی ہنگامی معاہدہ ہوا جس میں فائر بندی کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم، مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں، جیسے کہ ترکیے (استنبول) میں ثالثی کے ساتھ بات چیت ہورہی تھی۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ امن کا دارومدار اس بات پر ہے کہ افغانستان کی حکومت ملٹری اور عسکری کارروائیوں کو اپنے کنٹرول میں لائے، خصوصاً وہ گروہ جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ دوسری جانب، افغانستان نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے تجاوز کرتی ہے اور وہ خود اپنی سرزمین محفوظ نہ ہونے کی شکایت کرتا ہے۔ حالیہ مذاکرات ناکام قرار پائے ہیں پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ بات چیت ’’ڈیڈ لاک‘‘ میں ہے، ابھی تک کوئی ٹھوس حل نہیں نکلا۔ استنبول (ترکیے) میں کابل اسلام آباد کے درمیان ثالثی مذاکرات ہوئے تھے، جن کا مقصد سرحدی جھڑپوں کو کم کرنا تھا۔ مگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔ مذاکرات ناکام ہونے کے باوجود، دونوں جانب سے ایک جنگ بندی کا معاہدہ پہلے طے پا چکا تھا، اور وہ ’’فی الحال‘‘ برقرار ہے۔
مجموعی طور پر، سرحدی خطے کی صورت حال بحرانی مگر قابو میں ہے: جنگ بندی برقرار ہے، بڑی جنگ جاری نہیں، مگر مذاکرات کا عمل رک گیا ہے اور کشیدگی کا امکان بدستور موجود ہے۔ 10 نومبر کو دوبارہ فتنہ الخوارج نے آرمی پبلک اسکول والا ہولناک کھیل کھیلنا چاہا جو کہ اللہ کی رضا سے آرمی نے ناکام بنادیا اور اپنے پڑوسیوں کو بتایا کہ دوبارہ کبھی یہ غلطی بھول کر بھی نہیں کرنا۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’دشمن کے ساتھ بھی عدل کرو‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 8) اگر پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی بات تحمل اور نرمی سے سنیں، تو غلط فہمیاں کم ہوں گی۔ برداشت کا مطلب کمزوری نہیں بلکہ حکمت اور وقار کے ساتھ بات کرنا ہے۔
اب چلتے ہی افریقا کے رقبے کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک سوڈان جہاں پر 2023ء سے جاری تصادم کے دوران ملک کی فوجی قیادت Sudanese Armed Forces اور پیراملٹری گروپ Rapid Support Forces کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس جنگ نے ہنگامی انسانی بحران کھڑا کیا ہے: تقریباً 30 ملین لوگ امداد کے محتاج ہیں، جن میں کروڑوں بچے شامل ہیں۔ قحط، خوراک کی کمی، وبائیں سب ملک کے مختلف علاقوں میں شدید حالات ہوچکے ہیں۔ 2021 میں فوج نے سول حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، دونوں جنرل (البرہان اور حمیدتی) شروع میں ایک ساتھ تھے۔ بعد میں اختلاف اس بات پر ہوا کہ ملک کا کنٹرول کس کے پاس ہوگا یعنی اقتدار کی کرسی۔
سونے کی کانوں کا کنٹرول: سوڈان افریقا کے سب سے بڑے سونا پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ آر ایس ایف (حمیدتی گروپ) کے پاس زیادہ تر سونے کی کانیں اور ان سے حاصل ہونے والا پیسہ ہے۔ فوج (ایس اے ایف) چاہتی ہے کہ یہ دولت ریاست کے کنٹرول میں آئے، نہ کہ کسی ملیشیا کے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پیچھے سونا، معیشت اور طاقت تینوں چیزیں چھپی ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو یہ سارا خون خرابہ عدمِ برداشت کا نتیجہ ہے دونوں فریق اقتدار اور دولت کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے۔ اسلام اور انسانی اخلاقیات ہمیں سکھاتے ہیں کہ: ’’امن اور انصاف صرف تب قائم ہوتا ہے جب طاقتور برداشت اور انصاف سے کام لے‘‘۔ اگر دونوں گروہ برداشت، مکالمہ اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں، تو نہ صرف سونا محفوظ رہے گا بلکہ انسانی جانیں بھی بچیں گی۔
سوڈان کی جنگ اور برداشت کا سبق: آج دنیا کے کئی ممالک میں طاقت، دولت اور سیاست کی خاطر خون بہایا جا رہا ہے۔ ظاہری طور پر یہ جنگ اقتدار کی ہے، مگر اس کے پیچھے سونے کی کانوں، دولت کے ذرائع، اور ملک کے کنٹرول کی لڑائی ہے۔ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ وہی طاقتور رہیں، لیکن اس کی قیمت لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانوں سے ادا کی جا رہی ہے۔ بچے بھوکے ہیں، لوگ ہجرت پر مجبور ہیں، اور پورا ملک قحط اور بیماری کا شکار ہے۔ ایسے میں اسلام اور انسانیت ہمیں ایک ہی راستہ دکھاتے ہیں۔ برداشت کا راستہ۔ قرآن کہتا ہے: ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ‘‘۔ (انفال: 61) اور نبیؐ نے فرمایا: ’’طاقتور وہ نہیں جو لڑائی میں دوسرے کو گرا دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘۔ اگر سوڈان کے یہ دونوں گروہ برداشت، صبر، اور مکالمے کا راستہ اختیار کریں تو جنگ ختم ہو سکتی ہے، اور وہی دولت اور سونا جو آج تباہی لا رہا ہے، کل خوشحالی لا سکتا ہے۔ سوڈان ہمیں ایک سبق دیتا ہے کہ جب طاقت برداشت کے بغیر ہو، تو امن تباہ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب برداشت طاقت کے ساتھ ہو، تو قومیں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں۔ ’’سوڈان کی جنگ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن کی کنجی بندوق نہیں، بلکہ برداشت ہے‘‘۔