علما، مذہبی جماعتوں اور تاجربرادری نے انتشاری ٹولے کی ہڑتال کی کال مسترد کردی
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
ملک کے جید علما، مذہبی جماعتوں اور تاجربرادری نے انتشاری ٹولے کی ہڑتال کی کال کو یکسرمسترد کردیا۔
تاجر تنظیموں،مذہبی رہنماؤں،علما اورسول سوسائٹی کی طرف سے تحریک لبیک کی انتشار پر مبنی کارروائیوں کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس طرح کی غیر ضروری ہڑتال کی کالوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے انتشار کے بجائے استحکام کو ملک کی اہم ترین ضرور قرار دیا۔
اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں احتجاج اورہڑتال نہیں، اتحاد و یکجہتی ملکی ترقی کا زینہ ہیں۔ تاجر تنظیموں نے بھی ہڑتال کی کال کو قوم اورملک کے منافی قرار دے دیا ہے اور عوام سے افواہوں و منفی بیانیے سے دور رہنے اور امن و استحکام کاساتھ دینے کی اپیل کی گئی ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اختلافِ رائے کا اظہار آئینی دائرے میں ہونا چاہیے،ہڑتالوں اور تعطل کے ذریعےنہیں۔ ہڑتال کا وقت انتہائی غیرمناسب اور ایسے مطالبات غیر ضروری ہیں۔ سڑکیں بلاک کرنا،جلاؤ گھیراؤ سے مسافروں اور مریضوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ناقابل قبول ہے۔
علامہ محمد احمد لدھیانوی نے اس حوالے سے کہا کہ موجودہ وقت انتشار کے بجائےملکی ترقی اور استحکام کی جانب توجہ کا متقاضی ہے۔ محمد آصف معاویہ سیال نے کہا کہ ٹی ایل پی کےاحتجاج کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹی ایل پی کےریاست کے ساتھ تصادم انتہائی افسوسناک ہے۔
صاحبزادہ اکمل مہروی کا کہنا تھا کہ ہم ریاست کے مخالف اقدامات کا ہر گز ساتھ نہیں دیں گے۔ ریاست پرکسی چیز کوترجیح نہیں دی جاسکتی۔ حافظ جمیل احمد نے کہا کہ ٹی ایل پی کے احتجاج اورسرگرمیوں کی پرزورمذمت کرتےہیں ۔ اپنی زمین اوراپنے لوگوں کے خلاف احتجاج یافساد پھیلانا غیرمناسب ہے۔
عبدالمنان کشمیری کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی اورحکومت کے درمیان محاذ آرائی ملکی مفاد کےخلاف ہے۔ مظفر گڑھ سے رکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اسی طرح عون حمید ڈوگر نے کہا کہ قانون نافذ کرنےوالے ادارے کسی بھی قسم کے تشدد یا انتشار کےخلاف حرکت میں آئیں گے۔ قوم انتشار پھیلانے والوں کا ساتھ نہ دے۔
رکن قومی اسمبلی سردار عبدالقدیر کھوسہ نے کہا کہ کسی بھی گروہ یا انتشاری ٹولے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انتشاری ٹولے کےخلاف اقدامات ملک میں امن اور ریاستی نظام کے استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ سرپرست اعلیٰ گیلانی سلسلہ قادریہ سید افتخار الحسن گیلانی کا کہنا تھا کہ ملکی اداروں کا ساتھ دیں تاکہ امن، استحکام اور ترقی ممکن ہو سکے۔ یہ ملک بہت قربانیوں سے ملا ہے،اندرونی اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔
تاجر محمد اظہر خان مغل نے کہا کہ ٹی ایل پی بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ملک آئے روز ہڑتالوں اور احتجاج کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جواد حسن گل قادری نے کہا کہ غزہ میں امن قائم ہوچکا ،اب احتجاج اورہڑتالیں بے معنی ہیں ۔ نوجوانوں کو اکساکر بلا وجہ سڑکوں پر لانا سمجھ سے بالاترہے۔ یہ لوگ خون بہانا اور سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید فاروقی نے کہا کہ بھارت شکست کے بعدپاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ امیر حمزہ رافع نے کہا کہ احتجاج کی کال بے معنی اورملک کی ترقی کےخلاف ہے۔ اسلام اور ختم نبوت کو حکومت کے خلاف استعمال کرنا قابل مذمت ہے ۔ ضیا الحق قاسم خان بلوچ نے کہا کہ ٹی ایل پی والوں کی جانب احتجاج اور راستے روکنا غلط کام ہے۔ احتجاج اور ہڑتال سےمریضوں اور مسافروں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ غزہ جنگ ختم ہوچکی ہے اورفلسطین والے خوش ہیں۔ ٹی ایل پی والے احتجاج کو فوری طور پرختم کریں۔
ڈیرہ غازی خان سے مفتی ابوبکر کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کا احتجاج بلا جواز ہے۔ ملکی ادارے پاکستان میں استحکام اورترقی چاہتے ہیں ۔ حافظ عبدالقدوس اعوان نے کہا کہ تمام جماعتوں کواپنے ملک اوراداروں کا ساتھ دینا چاہیے۔ ملکی سالمیت کےخلاف کوئی بھی روش اختیار نہ کی جائے۔ دنیاکو پاکستان کے بارے میں اچھا پیغام دینا چاہیے۔
حافظ محمد کفایت اللہ کا کہنا تھا کہ ہم ٹی ایل پی کے لڑائی جھگڑے اور انتشار کی پرزور مذمت کرتےہیں۔ علامہ طاہر الحسن نے کہا کہ پوری قوم متحدہے اورشرپسند وں کے خلاف ڈٹ کرکھڑی ہے ۔ اندرونی یابیرونی شرپسند وں کو ناکامی کاسامنا کرناپڑےگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ انتشاری ٹولے ٹی ایل پی کے احتجاج اور کے خلاف کی کال ہے اور
پڑھیں:
ایران میں پھانسیوں کے خلاف قیدیوں کا احتجاج اور بھوک ہڑتال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اکتوبر 2025ء) فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم مختلف تنظیموں نے بدھ 15 اکتوبر کے روز بتایا کہ ایران میں مختلف طرح کے جرائم کے مرتکب افراد کو دی جانے والی موت کی سزاؤں کے واقعات میں حالیہ کئی مہینوں سے جو مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے خلاف بیرون ملک اور اندرون ملک سے اٹھنے والی تنقیدی آوازیں اب بلند ہوتی جا رہی ہیں۔
ایرانی شہر کرج کی قزلحصار جیلاس رجحان کے خلاف اب ملک کی سب سے بڑی جیلوں میں سے ایک میں قیدیوں نے بھی احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔ تہران سے کچھ دور کرج نامی شہر کی قزلحصار جیل میں، جس میں قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو رکھا گیا ہے، بہت سے قیدی پیر 13 اکتوبر سے نہ صرف احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے بھوک ہڑتال بھی شروع کر رکھی ہے۔
(جاری ہے)
ایران میں مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے عام طور پر انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے۔ ملک میں پھانسیوں کی اس مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف قزلحصار جیل میں قیدیوں کے اس دوہرے احتجاج کی تصدیق ناروے میں قائم 'ایران ہیومن رائٹس‘ (IHR) اور امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس نیوز ایجنسی (HRANA) نے بھی کر دی ہے۔
ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟
ان دونوں تنظیموں نے اپنے دو مختلف بیانات میں کہا کہ قزلحصار جیل میں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد پیر 13 اکتوبر سے بھوک ہڑتال پر ہے اور وہ اس جیل کے مختلف کوریڈورز میں اپنے اپنے سیلز کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
احتجاج کی ویڈیوایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ان دونوں تنظیموں میں سے ایک نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح قیدی اس جیل میں اپنے سیلز کے باہر بیٹھے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں، جن میں ''سزائے موت نامنظور‘ جیسے نعرے بھی شامل ہیں۔
شمالی یورپی ملک ناروے میں قائم تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسے ملنے والی یہ ویڈیو قزلحصار جیل کے اندر قیدیوں کے احتجاج کے دوران بنائی گئی اور اسے اپنے کارکنوں کے ذریعے موصول ہوئی۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ واضح نہیں کہ آج بدھ کے روز کرج کی جیل میں قیدیوں کے احتجاج کی صورت حال کیا ہے۔
عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ
'ایران میں مزاحمت کی قومی کونسل‘ یا این سی آر آئی، جو کہ ممنوع قرار دیے گئے مجاہدین خلق (ایم ای کے) نامی گروپ کا سیاسی بازو ہے، کے مطابق کرج کی قزلحصار جیل میں اس احتجاج میں شریک قیدیوں کی تعداد 1500 ہے۔
اس تعداد کی تاہم غیر جانبدارانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں۔ تین اور مجرموں کو دی جانے والی سزائے موتایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ 'میزان‘ کے مطابق آج بدھ کے روز تین مزید مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا۔ یہ مجرم تہران اور اس کے مضافات میں ڈکیتیوں جیسے متعدد مسلح جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
ایران میں گزشتہ برس 975 افراد کو سزائے موت دی گئی
'میزان‘ کے مطابق ان تینوں مجرموں کو پھانسی دی گئی اور ان کی سزاؤں پر عمل درآمد اس وقت کیا گیا، جب ایک ذیلی عدالت کی طرف سے ان کو سنائی گئی موت کی سزاؤں کی ایرانی سپریم کورٹ نے بھی توثیق کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران میں رواں برس 1000 سے زائد مجرموں کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ ابھی سال 2025ء پورا نہیں ہوا، اور پھانسیوں کی یہ تعداد پہلے ہی گزشتہ 15 برسوں کی سب سے بڑی سالانہ تعداد بن چکی ہے۔