پاکستان و دیگر اسلامی ممالک نے فلسطینی عوام کی جبری بےدخلی مسترد کردی
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کی کوششیں مسترد کرتے ہیں۔
نجی نیوز چینل کے مطابق پاکستان، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکیہ، سعودی عرب اور قطر کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشرکہ بیان میں اسرائیلی پالیسیوں اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کا مقصد غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو جمہوریہ مصر منتقل کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے پر مکمل عمل کیا جائے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کی سخت مخالفت کرتے ہیں، فلسطینیوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے، رفح کراسنگ دونوں طرف سے کھلی رکھنے پر زور دیتے ہیں۔
مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ غزہ کے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنائی جائے، بیان میں خطے میں امن کیلئے صدر ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے غزہ میں مکمل جنگ بندی برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کا مطالبہ کیا گیا۔
اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان کے مطابق غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے فوری آغاز پر اتفاق کیا گیا ہے جبکہ بیان میں فلسطینی اتھارٹی کے غزہ میں ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے حالات سازگار بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
بیان میں امریکا سمیت تمام علاقائی و عالمی شراکت داروں کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا گیا، بیان میں دو ریاستی حل کے تحت 1967ء کی سرحدوں پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت اور مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی توثیق کی گئی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا گیا
پڑھیں:
ہائیکورٹ نے ٹریفک قوانین نرم کرنے کی درخواست مسترد کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور ہائیکورٹ نے کم عمر ڈرائیونگ، ون وے کی خلاف ورزی اور بھاری جرمانوں سے متعلق دائر درخواست پر سخت اور واضح ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے کی بہتری قوانین کے نفاذ سے آتی ہے، نہ کہ انہیں کمزور کرکے۔
عدالت نے دوٹوک انداز میں کہا کہ شہری ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے تو ایسے میں قانون سازی ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے، کیونکہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات نے صورتحال کو تشویشناک حد تک پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے واضح کیا کہ حکومت نے ٹریفک قوانین میں جو ترامیم کی ہیں وہ عوام کی سلامتی کے لیے ناگزیر تھیں۔ انہوں نے درخواست گزار کے مؤقف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون کو ختم کرانے کی کوشش ناقابلِ فہم ہے، جب کہ اصل ضرورت اس پر سختی سے عمل کرنے کی ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے یہ اعداد و شمار رکھے گئے کہ کم عمر ڈرائیونگ اور تیز رفتاری کی وجہ سے پانچ ہزار سے زائد کم عمر بچے حادثات میں زخمی یا ہلاک ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمانوں میں اضافہ محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک ناگزیر قدم تھا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے اس موقع پر معاشرتی رویوں کی بھی کھل کر نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ والدین اپنے کم سن بچوں کو موٹر سائیکل فراہم کر دیتے ہیں، جب کہ ان کی ٹانگیں تک زمین پر نہیں پہنچتیں۔ ایسے حالات میں بھاری جرمانوں پر اعتراض کرنے کے بجائے شہریوں کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قوانین اس لیے نہیں ہوتے کہ انہیں مذاق بنایا جائے بلکہ ان کا مقصد سڑکوں اور معاشرے کو محفوظ رکھنا ہے۔ اسی لیے حکومت نے واضح کیا ہے کہ پہلی بار خلاف ورزی پر وارننگ جرمانہ جبکہ دوسری بار قانونی کارروائی ہوگی۔ انہوں نے مثال دی کہ ان کے اپنے گھر کے بڑوں اور بچوں کو بھی چالان کیے گئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
درخواست گزار آصف شاکر ایڈووکیٹ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پولیس کم عمر بچوں پر ایف آئی آر درج کر رہی ہے، سڑکوں کی بندش وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے ہوتی ہے اور بھاری جرمانے عوام پر بوجھ ہیں۔ درخواست میں مؤقف یہ بھی تھا کہ شہریوں کو ٹریفک قوانین کی آگاہی دینے کے بجائے چالان اور ایف آئی آرز کا راستہ اختیار کرنا درست نہیں۔
سماعت کے اختتام پر عدالت نے مزید سوالات اٹھائے تو درخواست گزار کے وکیل نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔