آٹھ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں غزہ کے رفح بارڈر کے صرف خارجی راستے کو کھولنے کے اسرائیلی منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے خلاف مشترکہ مذمتی بیان جاری کیا ہے۔

بیان میں اسرائیلی اقدام کو مکمل طور پر ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بیدخل کرنے کی کوشش کی ہے جس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔

مسلم وزرائے خارجہ نے بیان میں کہا کہ راہداری کا صرف خارجی دروازہ کھولنا جنگ بندی کی شرائط اور امریکی امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس میں رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھولنے کی شرط شامل ہے۔

Eight Arab and Islamic countries issued a joint statement expressing their deep concern over Israeli statements about opening the Rafah crossing in one direction, allowing Gaza residents to leave for Egypt#MOFAQatar pic.

twitter.com/sW3Gg7rd09

— Ministry of Foreign Affairs - Qatar (@MofaQatar_EN) December 5, 2025

بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس معاہدے میں رفح کراسنگ کی دو طرفہ بحالی، بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور فلسطینی خود ارادیت کو یقینی بنایا جائے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ چند روز میں رفح بارڈر کو صرف فلسطینیوں کے مصر جانے کے لیے کھولا جائے گا۔ وہ بھی صرف اُس صرف اُس صورت میں جب اسرائیلی سیکیورٹی فورسز مذکورہ افراد کی منظوری دیں۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہو۔ صرف سات ہفتوں میں اسرائیل نے کم از کم 600 خلاف ورزیاں کی ہیں جن میں 10 کے قریب بے گناہ فلسطینیوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 70 ہزار 125 سے زائد فلسطینی شہید اور دو لاکھ کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

 

 

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

لبنان  اور اسرائیل کے مابین پہلی بار سویلین سطح پر بات چیت؛ خطے میں نئی سفارتی ہلچل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لبنان اور اسرائیل کے درمیان سویلین سطح پر کئی دہائیوں کی کشیدگی  کے بعد پہلی بار آمنے سامنے بیٹھ کر براہِ راست بات چیت ہوئی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اس ملاقات کو تاریخی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب  مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں پر جاری مظالم اور اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں یہ پیش رفت مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

میڈیا ذرائع کے مطابق یہ ملاقات اقوامِ متحدہ کی امن فورس کے مرکزی دفتر ناقورہ میں ہوئی، جہاں 2024 میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ صرف فوجی افسران تک محدود تھا، تاہم اس بار پہلی مرتبہ سویلین نمائندوں کو شامل کرنا اس بات کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ فریقین اندرونی سطح پر کسی نئے سفارتی راستے پر غور کر رہے ہیں، جس سے مستقبل میں کشیدگی کم کرنے یا کسی نئے فریم ورک تک پہنچنے کی کوششیں جنم لے سکتی ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی ترجمان شوش بدرسیان کے مطابق اس ملاقات کو ’’لبنان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور معاشی تعاون کی راہ ہموار کرنے کی ابتدائی کوشش‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دے رہا ہے، تاہم خطے کے حالات، خاص طور پر غزہ اور فلسطین پر جاری اسرائیلی حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اس تمام بیانیے پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک اسرائیل ایسے رابطوں کو اپنے بین الاقوامی تاثر کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اس کی پالیسیوں میں کوئی نرمی نظر نہیں آتی۔

امریکی سفارتخانے نے بھی اس ملاقات میں اپنی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ واشنگٹن طویل عرصے سے لبنان پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ حالیہ پیش رفت میں امریکا کے کردار پر بھی سوالات موجود ہیں کیونکہ خطے میں اس کے اسٹریٹجک مفادات اکثر حقیقت پسندانہ امن کے برعکس ہوتے ہیں۔

اُدھر لبنان کے صدر جوزف عون کے دفتر کے مطابق لبنان کی جانب سے سابق سفیر سیمون کرم نے مذاکرات میں نمائندگی کی جب کہ اسرائیل نے بھی اپنی جانب سے ایک غیر فوجی رکن کو شامل کیا۔ لبنان نے مستقبل کے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت مسلم ممالک کا فلسطینیوں کو بے دخل کرنے سے متعلق حالیہ اسرائیلی بیانات پر اظہار تشویش
  • ویشنو دیوی یونیورسٹی میں مسلم طلباء کو داخلہ دینے کے خلاف جموں میں ہندوؤں کا احتجاج
  • یورپی ممالک کا اسرائیل کی شرکت پر احتجاج، یورو وژن 2026 کا بائیکاٹ
  • غزہ میں اسرائیلی حمایت یافتہ گینگسٹر ابو شباب کون تھا؟ کیسے قتل ہوا؟
  • اسرائیل کی شمولیت پر اعتراض، چار یورپی ممالک نے یورو وژن 2026 کا بائیکاٹ کردیا
  • مسلم ممالک مظلوم فلسطینی قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، علامہ مقصود ڈومکی
  • لبنان  اور اسرائیل کے مابین پہلی بار سویلین سطح پر بات چیت؛ خطے میں نئی سفارتی ہلچل
  • ایران کیساتھ قابل اعتماد جوہری معاہدے کی ضرورت ہے، اطالوی وزیراعظم
  • اسرائیل نے جنگبندی کی خلاف ورزیوں کے دائرے کو بڑھا دیا ہے، حماس