data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنیوا: اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے کہا ہے کہ 11 اکتوبر سے جنگ بندی کے بعد سے اب تک بہت کم ٹرک غزہ کے اندر داخل ہوسکیں ہیں، جس کی وجہ سے ، یہ مقدار اب بھی متاثرہ آبادی کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ترجمان عبیر عطفہ نے بتایا کہ جنگ بندی نے ہمیں ایک محدود مگر قیمتی موقع فراہم کیا ہے اور WFP تیزی سے اپنی کارروائیاں بڑھا رہا ہے تاکہ ان خاندانوں تک خوراک پہنچائی جا سکے جو مہینوں سے محاصرے، بے گھری اور بھوک کا شکار ہیں۔

ان کے مطابق 11 سے 15 اکتوبر کے درمیان تقریباً 230 ٹرکوں کے ذریعے 2,800 ٹن خوراک غزہ منتقل کی گئی جب کہ جمعرات کو دو مزید قافلے کریم شالوم کے راستے گندم اور غذائی اجناس لے کر داخل ہوئے۔

ترجمان نے بتایا کہ ہم ابھی مطلوبہ سطح تک نہیں پہنچے مگر ہم تیزی سے وہاں جا رہے ہیں، WFP نے فی الحال غزہ میں پانچ مقامات پر خوراک تقسیم کرنے کے مراکز قائم کیے ہیں اور انہیں 145 تک بڑھانے کا منصوبہ ہے جو اس شرط پر منحصر ہے کہ ٹرکوں کی آمد کا سلسلہ بلا تعطل جاری رہے۔

عبیر عطفہ نے مزید کہا کہ اس وقت غزہ میں 9 بیکریاں فعال ہیں جو روزانہ ایک لاکھ سے زائد روٹیوں کے پیکٹ تیار کر رہی ہیں، ہر پیکٹ دو کلوگرام وزنی ہے اور ایک پانچ رکنی خاندان کی ایک دن کی ضرورت پوری کرتا ہے،  یہ سہولت تقریباً پانچ لاکھ افراد تک رسائی فراہم کر رہی ہے جبکہ ادارہ اس تعداد کو بڑھا کر 30 بیکریوں تک لے جانے کا خواہاں ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے مصر، اردن اور اسرائیل کے اندر تقریباً 60 ہزار ٹن خوراک محفوظ کر رکھی ہے تاکہ جنگ بندی برقرار رہنے کی صورت میں امداد کا تسلسل یقینی بنایا جا سکے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل مسلسل جنگ بندی کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کررہا ہے ، عالمی ادارے بھی صیہونی فورسز کی جانب سے کی گئی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

اسرائیل کی غزہ پر مکمل قبضے اورخصوصی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-01-26
غزہ (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے باوجود جنگ دوبارہ شروع کرنے، غزہ پر مکمل قبضہ کرنے یا یلو لائن کے ساتھ رہنے اور غزہ کے باقی ماندہ حصے میں خصوصی فوجی آپریشن جیسے آپشنز پر غور شروع کر دیا۔عالمی میڈیا نے اسرائیلی نشریاتی ادارے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ امریکا کے پاس اب تک فلسطینی مجاہدین کو غیر مسلح کرنے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے اور وہ اپنی طاقت بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیںجب کہ اسرائیلی فوج انہیں اس سے روکنا چاہتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اب بھی فلسطینی مجاہدینکے ہتھیار ڈالنے اور گرفتاری کے بعد ان کے غزہ سے نکل جانے پر اصرار کر رہا ہے جب کہ ایک سابق امریکی انتظام جس میں فلسطینی مجاہدین کے رفح سے اسرائیلی فوج کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں نکلنے کی تجویز دی گئی تھی ناکام ہوچکا ہے۔امریکی سرپرستی میں مصر اور قطر کی معاونت اور ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے مطابق اسرائیلی افواج تباہ حال غزہ کے تقریباً 55 فیصد حصے کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اس وقت یلو لائن سے پیچھے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل امریکی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں منتقلی میں تاخیر کر رہا ہے، اس مرحلے میں غزہ میں بین الاقوامی افواج کی تعیناتی اور غزہ کی پٹی کے معاملات کو چلانے کے لیے سویلین حکومت کی تشکیل شامل ہے۔اسرائیل رفح میں پھنسے ہوئے مجاہدین کے مسئلے کو حل کرنے اور انہیں غیر مسلح کرنے پر بضد ہے۔علاوہ ازیں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ شام سے دمشق اور ہرمن تک مکمل غیر عسکری بفر زون کا مطالبہ کرتے ہیں ، ہم دہشت گرد کارروائیاں روکنے کے لیے اقدامات جاری رکھیں گے۔قبل ازیں غزہ میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک ایسے نوجوان کو نشانہ بنایا گیا جس کا مشغلہ شادیوں میں فوٹوگرافی کرنا تھا اور جو اپنے شہر کو صہیونی ریاست کے ہاتھوں تباہ و برباد دیکھ کر ڈاکومینٹریز بنانے لگا تھا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق محمود وادی نامی یہ نوجوان بھی تابناک مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے جدید فوٹو گرافی میں کیریئر بنانا چاہتا تھا، اکتوبر 2023 ء میں اسرائیلی بمباری اور اس میں خواتین اور بچوں کے شہید ہونے کے المناک واقعات نے محمود وادی کے مقصدِ حیات کو ہی بدل کر رکھ دیا۔وہ اپنی تمام صلاحیتیں غزہ کی تباہ حالی اور شہر کے اجڑنے پر ڈاکومنٹریز بنانے میں صرف کرنے لگا تھا جو صہیونی ریاست کو ایک آنکھ نہ بھایا۔اسرائیلی فوج نے خان یونس کے علاقے میں محمود وادی کو جاسوس ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا جس میں نوجوان فوٹوگرافر شہید ہوگیا، محمود وادی کا قصور بس اتنا تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ القدس کے نام سے بنایا اور ڈرون کی مدد سے شْوٹ کی گئی وڈیوز اپ لوڈ کرتا تھا۔ان وڈیوز میں غزہ کی اْن بستیوں کو دکھایا گیا تھا جو اسرائیلی بمباری سے قبل جیتے جاگتے شہر تھے لیکن اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکے ہیں، یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیلی حکومت نے کسی ایسے شخص کو چْن کر نشانہ بنایا گیا ہو جو غزہ کی حقیقی صورت حال دنیا کے سامنے لا رہا ہو۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ پر مکمل قبضے اورخصوصی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی
  • جنگ بندی اور ٹرمپ کی ضمانتوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں فلسطینی صحافی  شہید
  • غزہ کی شکار گاہ میں جنگ بندی کا ڈھکوسلا
  • امریکہ عالمی امن اور سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، ایران
  • اسرائیل مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے: ترک وزیر خارجہ
  • غزہ میں امداد روکی گئی تو دنیا خاموش نہیں رہے گی،انتونیو گوتریس، حماس جنگ بندی معاہدہ برقرار رکھے ہوئے ہے، اردوان
  • فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف لندن میں احتجاجی مظاہرہ
  • جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری، غزہ میں ہلاکتیں 70 ہزار سے متجاوز
  • اسرائیل، رفح بحران کے حل کیلئے ثالثوں کو جواب نہیں دے رہا، حماس
  • غزہ میں شہدا کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی، جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی جارحیت جاری