data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

افغانستان نے پاکستان میں شیڈول سہ ملکی کرکٹ سیریز میں شرکت سے انکار کرکے ایک نیا سفارتی اور کھیلوں کا تنازع کھڑا کردیا ہے۔

افغان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث ٹیم اب نومبر میں پاکستان کا دورہ نہیں کرے گی۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے افغانستان اور سری لنکا کے ساتھ سہ ملکی سیریز کے انتظامات تقریباً مکمل کر لیے تھے۔

اس اہم سیریز کا پہلا میچ 17 نومبر کو راولپنڈی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے تھا جب کہ دوسرا میچ 19 نومبر کو سری لنکا اور افغانستان کے درمیان اسی گراؤنڈ میں ہونا تھا۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں باقی 5 میچز اور 29 نومبر کو فائنل شیڈول تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان کرکٹ بورڈ کے مطابق حالیہ سرحدی کشیدگی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ٹیم کا پاکستان جانا  موزوں نہیں سمجھا گیا۔ بورڈ نے مزید کہا کہ افغان ٹیم دیگر بین الاقوامی مصروفیات پر توجہ دے گی اور مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی صورت میں دوبارہ کھیلنے پر غور کیا جائے گا۔

ماہرین اور شائقین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا یہ فیصلہ نہ صرف کھیل کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ جنوبی ایشیائی کرکٹ تعلقات پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔ تجزیہ کاروں نے اسے بھارت کے اثر و رسوخ کا نتیجہ قرار دیا ہے، جو حالیہ برسوں میں افغان کرکٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

دوسری جانب پی سی بی نے سیریز کے شیڈول پر نظرثانی شروع کر دی ہے اور امکان ہے کہ سری لنکا کے ساتھ دو طرفہ سیریز یا کوئی متبادل ٹیم شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

افغان حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اپنے عوام کی مشکلات کیسے بڑھا رہی ہے؟

رواں برس افغانستان کی کل برآمدات کا 41.2 فیصد پاکستان کو گیا جبکہ سمندری راستے سے ہونے والی 20 فیصد برآمدات پاکستان کے راستے دوسرے ممالک گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر میں مزید 48 گھنٹے کی توسیع

افغانستان کے زیادہ تر تجارتی راستے پاکستان میں کھلتے ہیں یہیں سے وہ بآسانی اپنی مصنوعات نہ صرف پاکستان بلکہ سمندری راستے سے برآمد بھی کر سکتا ہے۔

اس وقت پاکستانی سرحدیں افغانی برآمدات کے لیے بند ہیں جس سے افغانستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔ سنہ 2025 کے پہلے 6 ماہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم 1.1 بلین ڈالر تھا۔ اس سال جولائی میں پریفریشنل ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد دونوں ملکوں کی تجارت میں اِضافہ ہوا تھا۔ جہاں افغانستان 41 سے 43 فیصد پاکستان کو برآمد کرتا ہے وہیں اپنی ضرورت کی 14 سے 15 فیصد چیزیں پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔

افغانستان کے زیادہ تر صوبے پاکستانی سرحد کے ساتھ ہیں جبکہ ایرانی بندرگاہ تک فاصلہ طویل اور خرچ زیادہ ہے۔ پاکستان، افغانستان کا ایک ایسا پڑوسی ملک ہے جس کی زیادہ تر تجارت، درآمدات و برآمدات کا انحصار پاکستان پر ہے۔ پاکستان نہ صرف افغان مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی ہے بلکہ افغان برآمدات بھی کراچی بندرگاہ سے دوسرے ملکوں کو بھجوائی جاتی ہیں۔

12/11 اکتوبر کو ہونے والی سرحدی کشیدگی کے بعد اس وقت تجارت، درآمدات و برآمدات کے لیے پاک افغان سرحد مکمل طور پر بند ہے سوائے چمن کے جہاں سے افغان غیر قانونی مہاجرین کو وطن واپس بھجوایا جا رہا ہے۔

پاکستانی سرحد کی بندش سے عام افغان کس طرح متاثر ہوتا ہے؟

دونوں مُلکوں کے درمیان سرحد کی بندش شاید افغان حکمرانوں کو اُس طرح سے متاثر نہیں کرتی جس طرح ایک عام افغان شہری اِس سے متاثر ہوتا ہے۔ افغان تعلیم، علاج اور کاروبار کے لیے ہر طرح سے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔

اس وقت بھی ہزاروں افغان تعلیم اور علاج معالجے کے لیے پاکستان میں مقیم ہیں۔ زراعت افغان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس میں 60 سے 65 فیصد افغان کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے کشیدگی کا ذمہ دار کون؟ پاکستان کا سخت مؤقف اور طالبان کی خوش فہمی

افغانستان کی برآمدات میں ایک بڑا حصہ وہاں کی زرعی مصنوعات کا ہے۔ اس وقت بھی پاک افغان سرحد کے سینکڑوں ٹرک حالات کی بہتری کے انتظار میں کھڑے ہیں۔

امیر خان متقی کی درفطنی اور پاکستان کا جواب

 دورہ بھارت کے دوران افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے  کہا کہ افغانستان کے ساتھ کئی دوسرے ممالک کی سرحدیں بھی متصل ہیں لیکن اُن کو پاکستان سے شکایت نہیں جبکہ پاکستان کو یہ شکایت کیوں رہتی ہے۔

گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے افغان قائم مقام وزیرِخارجہ کی اِس دُرفطنی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک تو باقی تمام ممالک چاہے وہ ایران ہو ازبکستان یا تاجکستان اُن سب کو بھی افغانستان سے شکایات رہتی ہیں دوسرے یہ کہ افغانستان کے کسی اور ہمسایہ مُلک نے 40 لاکھ پناہ گزینوں نہیں آنے دیے۔

افغانستان برآمدات کے لیے کس طرح پاکستان پر انحصار کرتا ہے؟

افغانستان ایک لینڈ لاکڈ یعنی ایک ایسا ملک ہے یعنی اس کے ساتھ بندرگاہ نہیں لگتی۔ افغانستان اپنی تجارت اور معیشت کے لیے پاکستان پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ یہ انحصار خاص طور پر برآمدات، درآمدات، اور ٹرانزٹ ٹریڈ یعنی بحری راستوں تک رسائی اور افغانستان کی بھارت کو کی جانے والی درآمدات و برآمدات میں نمایاں ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِس سال 22 اپریل کو پہلگام واقعے کے فوراً بعد جب دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ کا ماحول بنا اور بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنے سرحدی راستے بند کر دیے تو افغانستان نے بھارت مال لے جانے والے ٹرکوں کے حوالے سے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان میں پھنس گئے تھے۔

اُس وقت پاکستانی وزارت خارجہ نے خصوصی طور پر افغانستان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے ٹرک بھارت لے جا سکتا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ، افغانستان زمینی راستے سے تجارت کرے یا سمندری راستے سے اُسے بحرحال پاکستان سے گزرنا پڑتا ہے۔

گو کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار بھی افغانستان کو میّسر ہے لیکن وہ کراچی کی نسبت ایک لمبا راستہ اور اب ایران نے بھی افغان سرحد پر اپنی سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔

افغان تجارت کے اعداد و شمار

ورلڈ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال 2025 میں افغانستان کی کُل برآمدات کا 41 سے 43 فیصد حصہ پاکستان کو گیا۔ سال کے شروع کے 5 ماہ میں افغانستان کی کُل برآمدات 548.4 ملین ڈالر تھیں جن میں سے 41 فیصد پاکستان کو برآمد کی گئیں۔ جبکہ جون میں جب دونوں مُلکوں کے درمیان حالات ٹھیک تھے تو برآمدات 43 فیصد تھیں۔ پریفرنشل ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد اگست 2025 میں افغانستان کی پاکستان کو برآمدات 55 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جو جولائی سے 50 فیصد زیادہ تھیں۔

افغانستان کی پاکستان سے درآمدات

افغانستان میں درآمدات کے لحاظ سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر ایران جہاں سے 29 فیصد چیزیں افغانستان میں درآمد کی جاتی ہیں، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات جہاں سے 19 فیصد اور تیسرے نمبر پر پاکستان جہاں سے 14 سے 15 فیصد چیزیں افغانستان میں درآمد کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی افغان پالیسی کتنی درست، افغانستان پر ہمارا کنڑول کتنا تھا، سابق کور کمانڈر پشاور کا تبصرہ

تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار (2023-2025) کے مطابق، پاکستان سے افغانستان  برآمد ہونے والی اہم اشیاء میں چاول (212 ملین ڈالر)، ادویات (103 ملین ڈالر)، اور دیگر خوراک کی تیاریاں (86.7 ملین ڈالر) شامل ہیں۔اہم درآمد شدہ اشیاء میں مشینری، ٹیکسٹائل، پلاسٹک، اور خوراک شامل ہیں۔ یہ انحصار افغانستان کی تجارتی خسارے کو بڑھاتا ہے، جو 2025 کے پہلے پانچ ماہ میں 4.8 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

ٹرانزٹ ٹریڈ اور مجموعی معیشت میں انحصار

افغانستان کی بحری راستوں تک رسائی کے لیے پاکستان کے بندرگاہوں جیسے کراچی اور سرحدی راستوں پر تقریباً مکمل انحصار ہے، کیونکہ یہ لینڈ لاکڈ ہے۔ افغانستان کی کم از کم 40 فیصد معیشت پاکستان پر منحصر ہے جبکہ پاکستان کی سرحد سے متصل افغان علاقوں کی عوام ہر طرح سے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان طالبان افغان طالبان کی ہٹ دھرمی افغانستان افغانستان کے عوام طالبان رجیم

متعلقہ مضامین

  • سہ ملکی سیریز سے افغانستان کی دستبرداری ، پی سی بی نے نئی ٹیم سے رابطہ کرلیا
  • افغانستان کی سہ ملکی سیریز سے دستبرداری پر پی سی بی کا ردعمل سامنے آگیا
  • افغانستان کی عدم شرکت کے بعد پی سی بی کا نیا پلان تیار
  • سہ فریقی سیریز: افغانستان کی طرف سے عدم شرکت کے اعلان کے بعد پی سی بی کا بڑا فیصلہ آگیا
  • افغانستان کا پاکستان میں ہونے والی سہ ملکی سیریز میں شرکت سے انکار
  • افغانستان کرکٹ بورڈ کا پاکستان کے ساتھ تین ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شرکت سے انکار
  • افغانستان بھی بھارت کے نقش قدم پر چل نکلا، پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار
  • افغانستان، پاکستان میں سہ فریقی سیریز سے دستبردار، پی سی بی کا ردعمل بھی سامنے آگیا
  • افغان حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اپنے عوام کی مشکلات کیسے بڑھا رہی ہے؟