شہید ابو علی کا راستہ جاری رہے گا، حزب اللہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
پارلیمنٹ میں مزاحمت کے پارلیمانی بلاک کے سینئر رکن حسن عزالدین نے گزشتہ شب لبنان کی موجودہ صورتحال اور جاری صہیونی جارحیت کے حوالے سے کہا کہ ہم اس مجرمانہ دشمن کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں، وہ اپنی کارروائیوں میں فوجی اور عام شہری کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا، شہری بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرتا ہے، بے گناہ شہریوں کو قتل کرتا ہے، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سینئر رکن حسن عزالدین نے کہا ہے کہ صہیونی دشمن کے لبنان پر تمام حملے امریکی اجازت اور ہم آہنگی سے ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بیروت کے ضاحیہ علاقے پر جارح صہیونی فوج کا وحشیانہ حملہ پورے لبنان پر حملہ تھا، اور مزاحمت شہید ابو علی اور اپنے تمام شہداء کے راستے کو آگے بڑھائے گی۔
لبنان کی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے پارلیمانی بلاک کے سینئر رکن حسن عزالدین نے گزشتہ شب لبنان کی موجودہ صورتحال اور جاری صہیونی جارحیت کے حوالے سے کہا کہ ہم اس مجرمانہ دشمن کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں، وہ اپنی کارروائیوں میں فوجی اور عام شہری کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا، شہری بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرتا ہے، بے گناہ شہریوں کو قتل کرتا ہے، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔
انہوں نے ایک تعزیتی تقریب میں کہا کہ ہم نے ان تمام مظالم کو قریب سے دیکھا ہے، اور سب نے اپنی آنکھوں سے صہیونیوں کی یہ درندگی ملاحظہ کی ہے؛ خاص طور پر حالیہ غزہ کے واقعات کے بعد، جو انسانیت کے لیے شرم کا مقام ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی دشمن کسی پابندی کے بغیر، اور ایسی صورتحال میں کہ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں، انسانوں کے ساتھ اعداد و شمار کی طرح سلوک کرتا ہے اور کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتا۔
حسن عزالدین نے بیروت کے جنوبی ضاحیہ پر صہیونی حملے، جس میں حزباللہ کے سینئر کمانڈر سید ہيثم علی طباطبائی (ابوعلی) شہید ہوئے، ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ مکمل جارحیت اور کھلی دہشت گردی تھی، یہ حملہ صرف حزباللہ یا اس کی قیادت کو نہیں بلکہ پورے لبنان کو نشانہ بنا کر کیا گیا، کیونکہ اس میں لبنانی شہری بھی زد میں آئے۔
انہوں نے کہا کہ جب لبنانی شہری صہیونی حملوں کا نشانہ بنتے ہیں تو ان کا ایک ریاست بھی ہے جس کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کرے، سب جانتے ہیں کہ اسرائیل بغیر امریکی اجازت کے کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ اصل میں امریکہ اس کو مکمل آزادی دیتا ہے اور اس کا ایجنڈا طے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دشمن لبنان کی مزاحمتی قوت کو کمزور کر سکے، تو وہ ہمارے ملک پر حملہ کرے گا—یہ حملہ اسی نام نہاد “گریٹر اسرائیل” منصوبے کا حصہ ہے جسے نتن یاہو نے خود ظاہر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2000 میں جب لبنانی مزاحمت نے صہیونیوں کو ذلت کے ساتھ لبنان سے نکالا، اور 2006 میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو ناکام بنایا، تب سے اسرائیل ہر موقع پر لبنان سے انتقام لینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہم نے حالیہ لڑائی میں اپنے بہت سے کمانڈروں اور مجاہدین کو کھویا ہے، لیکن ہم شکست نہیں کھائے اور نہ ہی کبھی تسلیم کریں گے۔ آج کوئی بھی ہمیں کمزور نہیں سمجھ سکتا، اور ہم کسی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لبنان میں ایک حقیقی قوم، ایک منصف اور طاقتور ریاست کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسی ریاست جو اپنے عوام اور ملک کا دفاع کر سکے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ صہیونی دشمن آج جو دباؤ لبنان پر ڈال رہا ہے، وہ اس کی اگلی ناکامیوں کی تلافی کی کوشش ہے، کیونکہ پانچ فوجی ڈویژنز کے ساتھ زمینی جنگ میں بھی وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مجاہدین نے جس طرح دشمن سے لڑائی کی ہے، تاریخ اسے سنہری حروف میں لکھے گی، امریکہ اب صہیونیوں کو کوئی کامیابی دلانے کے لیے، فوجی راستے میں ناکامی کے بعد، لبنان پر سیاسی، اقتصادی اور مالی دباؤ ڈال رہا ہے، جس کا مقصد پورے لبنان کو جھکانا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ مزاحمت جس سے شہید طباطبائی وابستہ تھے، اس نے دشمن کے تمام منصوبوں کو ناکام کیا ہے، باوجود اس کے کہ ہم نے شدید تکلیف اور مشکلات برداشت کیں، ہم قائم ہیں۔ ہمارے عظیم شہداء کا راستہ ہمارے کندھوں پر امانت ہے، اور ہم سب پر لازم ہے کہ اس راستے کو جاری رکھیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ حسن عزالدین نے نہیں کرتا لبنان کی کے سینئر کرتا ہے
پڑھیں:
اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کون تھے ؟
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اسرائیل ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے اعلیٰ عسکری رہنما حیثم علی طباطبائی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لبنان کی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے کمانڈرز سمیت 5 افراد شہید اور 28 زخمی ہوگئے تھے۔
لبنان کی مزاحمت پسند جماعتوں میں جری اور بہادر کہلائے جانے والے حیثم علی طباطبائی کی شہرت سید ابو علی کے نام سے بھی تھی۔
وہ 1968 میں بیروت کے علاقے بشورہ میں پیدا ہوئے اور جنوبی لبنان میں ہی پلے بڑھے۔ 1982 میں حزب اللہ کے قیام کے آغاز میں ہی تنظیم میں شامل ہوئے۔
حیثم طباطبائی نے اپنی عسکری مہارت، جوش و جذبے اور مقصد سے جنون کی حد تک لگاؤ کے باعث حزب اللہ میں اعلیٰ مقام پایا۔
وہ نہ صرف نبطیہ محاذ، خیام محاذ اور 2006 کی جنگ میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے بلکہ حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے قیام میں اہم کردار بھی ادا کیا۔
انھوں نے شام اور یمن میں رضوان فورس کی قیادت کی اور 2024 کی جنگ میں علی کرکی کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے جنوبی محاذ کے کمانڈر مقرر ہوئے۔
حیثم طباطبائی نے اس دوران اپنے اہداف کو تیزی سے حاصل کیا، دشمن کی تمام رکاوٹوں کو عبور کیا اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا۔
انہی کامیابیوں کے باعث حیثم علی طباطبائی کو حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کی اہم ترین ذمہ داری بھی دی گئی تھی اور انھوں نے اپنی قوم کو مایوس نہیں کیا۔
بطور چیف آف اسٹاف حیثم طباطبائی نے اسرائیل کے خلاف متعدد عسکری کارروائیاں کیں اور صیہونی فوج کے کئی مشنز کو خاک میں ملایا۔
یہ حیثم طباطبائی ہی تھے جن کی قیادت میں حزب اللہ اپنے سربراہ اور اعلیٰ ترین رہنماؤں کی شہادت کے باجود نئے عزم اور حوصلے سے کھڑی ہوئی تھی۔
اسرائیل بھی حیثم طباطبائی کو لبنان میں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا اور مہینوں سے کسی موقع کی تاک میں تھا۔
اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے والے حیثم طباطبائی صیہونی ریاست اور اس کے آقا امریکا کی انٹیلی جنس کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے۔
یہاں تک کہ اسرائیل کے ایک بزدلانہ حملے میں اپنی جان جان آفریں کی سپرد کرکے اپنے مقصد کے حصول کے لیے خون کا آخری قطرہ بہانے کا عہد نبھا گئے۔
ان کی نماز جنازہ میں عوام کا سیلاب امُڈ آیا تھا۔ حزب اللہ کی قیادت اور جنگجوؤں نے اپنے عظیم عسکری کمانڈر کو شایان شان خراج تحسین پیش کیا۔
حزب اللہ نے شہید حیثم کو عظیم شہید مجاہد کمانڈر کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکا نے سرخ لائن عبور کی ہے جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا ہوگا۔